کوے سراپا احتجاج ہیں!۔

Print Friendly, PDF & Email

کچھ کوے برسوں سے ہمارے ملک میں مقیم تھے.. ہمارے ہاں کہ کوؤں جیسا حلیہ اختیار کر چکے تھے.. ان کی پہچان بھی بمشکل ہوتی تھی کہ یہ ہمارے کوے ہیں یہ کسی غیر ملک کے۔ہاں ایک وجہ سے ان کے پہچان ہوجاتی تھی کہ ان کا رنگ ہمارے کالے کوؤں کے مقابلے میں ذرا گورا تھا۔ہر شاخ پر ان کا گھونسلہ نظر آتا تھا۔کوئی بھی خالی درخت اگر ان کو نظر آتا تو ایک دم اس پر ڈھیرا جما لیتے۔اتنے بدمعاش اور سخت مزاج تھے کہ کوئی بھی کوئل ان کے گھونسلے سے ان کے انڈے گرا نہیں سکتا تھا اور نہ ہی ان کے گھونسلے میں کوئی کوئل انڈے دے سکتا تھا۔ ویسے تو کوئل ہمیشہ دوسروں کے گھونسلوں میں انڈے دیتے ہیں.. زیادہ تر کوؤں کے گھونسلوں میں انڈے دیتے ہیں،لیکن یہاں وہ کوئل ان کوؤں کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ہاں ہمارے کوے ان کوئلوں سے ڈرتے تھے اور اپنے گھونسلے سے اپنے انڈے گرتے دیکھتے تو ان کوئلوں کی ’’جی حضوری ‘‘ کرتے۔ ان کے سامنے کبڑے ہوجاتے۔ ان کی آؤ بھگتی ہوتی تھی۔ہمارے کوے ان کوئلوں سے اتنے ڈرتے ہیں کہ ان کے قدموں تلے اپنے پنکھ پیلا دیتے ہیں،لیکن یہ غیر ملکی کوے انتے سخت مزاج تھے کہ وہ کوئل بھی ان سے پناہ مانگتے اور اگر کوئی غیر ملکی کوا ان کوئلوں کے علاقے میں جاتا تو وہ کوئل ان کوؤں کو ’’خوش آمدید‘‘ کہتے۔
ہاں تو ہم بات کر رہے تھے کہ ہمارے ملک میں ایسے مہاجر کوے بھی تھے جو یہاں شاہانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔بڑے بڑے فائیو سٹار ہوٹلوں میں کھانا کھاتے … ایک سے بڑھ کر کاروبار کرتے تھے کہ ہمارے کوے ان کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے۔ ایسی زندگی بسر کر رہے تھے کہ ہمارے تمام پرندوں کے سرداربھی ایسی زندگی نہیں گزار تا تھا۔ ہم اگر نظر دوڑاتے تو ہر جا ہمیں وہی غیر ملکی کوے نظر آتے۔ ہمارے کوؤں کی بے ڈھنگ زندگی دیکھ کر….خود کو ان کے مقابلے میں کم ظرف دیکھ کر آخر ہمارے پرندوں کے سردارصاحب کو اپنے اور تمام پرندوں کی حالت زار پر ترس آ ہی گیا۔ایک دن جنگل میں تمام پرندے اکھٹے ہوئے۔ ا ن پرندے میں وہ غیر ملکی مہاجر کوے بھی شامل تھے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ مہاجر کوے بڑے ہی عالیشان نشتوں پر بیٹھے تھے جبکہ ہمارے ملک کے تمام پرندے زمین پر بیٹھے تھے۔آ ج ختمی فیصلہ تھا ۔ آج کے دن ان مہاجر کوؤں کو جلاوطن کرنے کا حکم دینا تھا۔ سامنے دو شاندار کرسیاں تھیں جن پر ایک ہمارے پرندوں کے سردار اور ایک ان غیر ملکی مہاجر کوؤں کے سردار براجمان تھے۔
ہمارے پرندوں کے سردارنے ایک لمبی سانس لی اور غیرملکی مہاجر کوؤں کے سردار سے کہا۔’’دیکھئے جناب!‘‘ ہمارے پرندوں کے سردارصاحب انہیں اپنی طرف مخاطت کرتے ہوئے بولے’’اب وقت آگیا ہیکہ آپ سب ہمارے وطن کو خیر آباد کہہ کر اپنے وطن واپس چلے جائیں‘‘
غیر ملکی کوؤں کے سردارنے ہمارے پرندوں کے سردار کی طرف قدرے حیرانی سے دیکھا اور کہا……’’اچھا تو یہ مجمہ آپ نے اس لئے اکھٹا کیا تھا۔ میں تو سمجھا آج آپ ان سے کوئی تقریر وغیرہ کریں گے..اس کے بعد کچھ چائے پارٹی ہوگی ،لیکن آپ تو ہمیں جلا وطن ہونے کا کہہ رہے ہیں ۔ آخر بات کیا ہے ۔ ہم نے تو ہمیشہ آپ کے ملک کا بھلا چاہا ہے ۔ اب ایسا کیا ہو گیا کہ آپ ہم سے نالاں ہوگئے..‘‘
ہمارے پرندوں کے سردار کی نگاہیں نیچے تھیں۔ بڑی مشقت سے اپنی نگاہیں ان کی طرف کرتے ہوئے بولے’’ بات نالاں ہونے کی نہیں … آپ دیکھئے ہمارے پرندے کیسی بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ کے کوؤں کی روزانہ شکایتیں آتی ہیں ۔ اگر میں نے آپ سب کو جلا وطن نہ کیا تو یہ کوے اگلے الیکشن میں مجھے کبھی ووٹ نہیں دیں گے….‘‘ سر دار نے ایک لمبی سانس لی اور مذید کہا’’ اب میں چاہتا ہوں کہ میں ان کے لئے کچھ کروں ۔ ملک میں جتنے بھی کاروباری سلسلے ہیں سب پر آپ کے کوؤں نے قبضہ جما رکھا ہے‘‘ سردار نے اپنی نگاہ پھر سے نیچے کی اور قدرے آہستگی کے ساتھ کہا’’ اب آپ سب اس ملک سے نکل جائیں تو یہ آپ کا ہم پر سب سے بڑا احسان ہوگا…..‘‘
غیر ملکی کوؤں کے سردار نے اپنی کرسی ان کے قریب کی اور پیچھے کھڑے کوؤں کو ذرا پیچھے ہونے کا اشارہ دیتے ہوئے ہمارے پرندوں کے سرپنج سے کہا ’’ وجہ کیا ہے……؟ مجھے پتہ ہیکہ آپ کی زندگی میری زندگی سے بہت بدتر ہے. … میں ایک غیر ملکی مہاجر ہوں ،لیکن ان کے باوجود بھی آپ کے ملک میں آپ سے عمدہ زندگی بسر کر رہا ہوں … اگرآپ اپنا مسئلہ میرے ساتھ شیئر کر دیں تو ہم حل دھونڈ لیتے ہیں ناں….‘‘
’’کیا مطلب ہے آپ کا جناب والا‘‘ ہمارے پرندوں کے سردارسے قدرے حیرانی کے ساتھ پوچھا۔
’’آپس کی بات ہے۔ کسی سے ذکر مت کیجئے گا۔ اگر آپ میری شاندار زندگی کی وجہ سے ہمیں جلا وطن ہونے کاکہہ رہے ہیں … یا پھر میرے عزیز کوؤں کی پر لطف زندگی کی وجہ سے کہہ رہے ہیں تو اس کا حل ہے میرے پاس…. آپ کو کیا چاہئے ….؟ پیسے…..؟ …. جائیداد … یا اور کچھ …؟ کچھ بھی بولیں …. ہم آپ کو ہر حال میں دینے کے لئے تیار ہیں ،لیکن ہمیں جلا وطن نہ کریں…‘‘
’’ کیا مطلب ہے آپ کا شرم آنی چاہیے آپ کو……! آپ کی حالت زار پر ترس کھا کر میں نے آپ سب کیلئے اپنے ملک کے دروازے کھول دیئے…. اب اگر آپ کے کوؤں کی اتنی شکایتیں آئیں گی ۔ یہ کوے کرپشن کا سبب بنیں گے … تو کیا ہم اپنے لب سی کے خاموشی کے ساتھ تماشا دیکھیں گے…؟ … نہیں کبھی نہیں….! اب میں اپنے لئے نہیں ،ان غریب پرندوں کیلئے کچھ کر نا چاہتا ہوں.. اب ہم آپ کوآپ کو اور ان کو ؤں کو کسی بھی صورت اپنے ملک میں رہنے نہیں دیں گے‘‘ ہمارے پرندوں کے سردار نے ان کے سردار سے بڑے ہی شوخ بیانی کے ساتھ کہا….
’’ ٹھیک ہے۔ اب اگر آ پ اتنے ہی بدل گئے ہیں کہ اپنے لئے نہیں ان پرندوں کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہم چلے جاتے ہیں…. ،لیکن یاد رکھنا ہم جائیں گے ضرور ،لیکن جاتے جاتے ان سب پرندوں کا جینا حرام کر دیں گے ‘‘
غیر ملکی مہاجر کوؤں کے سرادر ایک دم آگ بگولہ ہو گئے ۔ لات مار کر کرسی ایک طرف گرا دی … مائک کے قریب آگئے اور بولے..’’میرے عزیز کوؤں ..! اب ہم مذید اس ملک میں نہیں رہ سکتے۔ جتنی جلدی ہو سکے اپنی جانے کی تیاریاں کرلو،لیکن اس سے پہلے شام کو سب میرے حویلی آجانا‘‘
تمام غیر ملکی کوؤں نے ایک آواز ہو کر کہا…….’’ جی حضور ! آپ کا حکم سر آنکھو ں پر‘‘
اس کے بعد مجمہ آہستہ آ ہستہ اٹھنے لگا ۔ ہمارے پرندوں کے سردار اپنے گھر کی طرف.. معصوم پرندے اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف … جبکہ غیر ملکی مہاجر کوے اپنے اپنے ٹھکانوں کی جانب چل دیئے۔
شام کے وقت تمام غیر ملکی مہاجر کوے اپنے سردار کی حویلی کی طرف چل پڑے۔ اس حویلی کی طرف جسے اب سنسان ہونا تھا۔ حویلی کہیں ایکڑ زمین پر بنی ہوئی تھی۔ اس کے ایک طرف ایک شاندار سبز میدان تھا ،جس میں وہ تمام کوے اکھٹے ہوئے تھے اور کچھ ابھی آرہے تھے۔ جب تمام کوے پہنچ چکے تو ان میں سے ایک نے سردار کے ملازم خاص (الو)سے کہا…
’’ تمام کوے آچکے ہیں … اب سردار صاحب کا انتظار ہے ، اگر انہیں بلا دیا جائے ……..‘‘
’’سردار صاحب ابھی نہیں آسکتے ۔ وہ نہا رہے ہیں‘‘ ملازم خاص نے اس کوے سے کہا۔
’’اس وقت نہا رہے ہیں …..‘‘ کوے نے ملازم خاص سے کہا۔
’’ہاں ….. تو … تمہیں اس سے کچھ لینا دینا ہے کہ وہ کب نہاتے ہیں ۔ وہ سردار ہیں ۔ جب بھی نہائیں ان کی مرضی‘‘ملازم خاص نے ذرا تلخ لہجے میں کہا۔
’’اچھا جناب …. میں نے تو بس ویسے ہی پوچھ لیا۔ ویسے کتنا وقت لگاتے ہیں وہ نہانے میں‘‘
’’ ذیادہ سے ذیادہ دس بیس منٹ لگا دیتے ہیں ۔ بس ابھی آہی رہے ہوں گے ۔ آپ انتظار فر مائیں…‘‘ ملازم خاص نے کہا۔
کوے اب صرف سردار جی کے منتظر تھے۔ انہیں بہت سارے کا م تھے۔ اپنا سامان اکھٹا کرنا تھا۔ ویسے بھی اب انہوں نے اس ملک کو خیر آباد کہہ کر یہاں سے کوچ کرنا تھا۔
تقریباََ پانچ منٹ بعد سردار جی حویلی سے نکلتے ہوئے نظر آئے۔ سب کوؤں نے ان کو دیکھتے ہی ایک آواز میں کہا’’سردار جی کی جے ہو‘‘ اس کے بعد وہ ایک تخت عالیشان پر براجمان ہوئے اور کہنے لگے..’’میرے عزیز کوؤں ! آپ سب کو تو علم ہوگیا کہ اب ہم اس ملک سے کوچ کریں گے ،لیکن اس سے پہلے میں آپ سب سے کچھ ضروری باتیں کرنا چاہتا ہوں۔میں ہمیشہ آپ کا بھلا چاہتا تھا۔ آپ کیلئے میں نے بڑے بڑے صاحبانوں کو بھی رشوت دی تھی ،لیکن اب معاملہ سنجیدہ ہو گیا ہے۔ اب رشوت سے کام نہیں بننے والا۔ اب میں کچھ نہیں کر سکتا۔ اب ہمیں اس ملک سے کوچ کرنا ہی پڑے گا۔سب میرے قریب قریب ہو جاؤ‘‘ سردار نے ایک گھونٹ پانی پیا اور مذید بولے’’ہم تو ویسے بھی اس ملک سے اب کوچ کریں گے ہی،لیکن کوچ کرنے سے پہلے اس ملک کا نقشہ بگاڑ کے رکھ دیں گے۔ اس ملک کے پرندوں کی زندگیاں تباہ و برباد کرلو۔ انہیں بتاؤ کہ ہم سے پھنگا لینا کتنا دشوار ہے۔ جاؤ میرے عزیز وں جاؤ اور تمام پرندوں کی زندگیاں تباہ کر لو۔ جاؤ اور ایک قیامت برپا کر لو‘‘
سردار صاحب تھوڑے سے کھانسے اس کے بعد تمام گلاس پانی پی کر حویلی میں چلے گئے اور جانے کی تیاریاں کرنے لگے۔
اس شام کے بعد ملک مصائب سے دوچار ہوگیا۔ گھونسلوں سے انڈے غائب ہو گئے ۔ بہت سی جنگلی مرغیوں کے چوزے اغوا ہو گئے۔ معصوم پرندوں کے گھونسلیں جلا کر راکھ کربنا دیا۔ہر طرف عالم سوگواری تھا۔ ہر ایک پرندہ اپنے غم میں ڈوبا تھا۔ کسی کے کھونسلے سے انڈے غائب تھے تو کسی کے کھونسلے سے بچے۔ کوے سراپا احتجاج تھے کہ انہیں کیوں جلا وطن کیا جا رہا ہے۔

( سید رحمان شاہ)

Short URL: http://tinyurl.com/h3dwvml
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *