کامیاب لوگ

Muhammad Sajawal Nawaz
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: محمد سجاول نواز
چند دن قبل مجھے ایک صاحب ملے اور پوچھنے لگے کامیاب لوگ کون ہیں؟ میں نے بھی سوال کر دیاکہ صاحب آپ کامیابی کسے کہتے ہیں؟ کہنے لگے اگر کو ئی فرد ایک بڑے عہدے پر فائز ہو یا کوئی بڑا کا رنامہ سر انجام دے تو اسے کامیابی کہتے ہیں۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ ہمارے معاشرے میں تو اس کہ علاوہ اور بہت سی کامیابیاں ہیں جسے انسان نظر انداز کردیتا ہے، حالانکہ اگر ان کو سمجھے تو وہ اللہ تعالیٰ کے قریب اور شکر گزار بن سکتا ہے۔آجکل ہمارے ملکی حالات بہت ابتر ہیں،جن میں ٹریفک حادثات سے ہو نے والی اموات کی شرح حد سے بھی زیادہ تجاوز کر چکی ہے۔ایسی سڑک جس میں نہ کہ گڑھے پڑے ہوں، بلکہ گڑھے بھی کنوئیں کی شکل اختیار کر جائیں اور آئیے دن حادثات کی بھر مار ہو،جس سڑک پر سفر کرنے سے موروں یا پیٹ کے امراض میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہوتو اس سڑک پرروزانہ موٹر سائیکل پر سفر کرکے آنا جانا بھی بہت بڑی کامیابی کی علامت ہے۔چونکہ ہم چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں، ایسا نہیں کرنا چاہیے۔کامیابی کی علامت یہ بھی ہے کہ جب کامیاب لوگ صبح اٹھتے ہیں تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں ،صبح اٹھ کر کم از کم انسان کو اپنے دماغ اور جسم کے لیے ایک گھنٹا نکالنا چاہیے، جس میں وہ ورزش اورآرام سے بیٹھ کر سوچ سکے کہ وہ آج کادن کیا کرے گا۔دن بھر کوئی ایسا فعل نہیں اپنائے گا جس سے کسی کی دل آزاری ہو کیونکہ حقوق العباد کی معافی صرف دوسرا انسان ہی دے سکتا ہے،حالانکہ حقوق اللہ جو اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیںوہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ وہ بخش دے اور معاف فرما دے۔ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ کسی کو ہمار ی وجہ سے برا محسوس نہ ہو۔ہمارے معاشرے میں یہ اصطلاح بھی رائج کرچکی ہے کہ پیسے سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے،کامیابی ،رشتہ دا ر ،دوست ،احباب وغیرہ۔کیونکہ ہمارے ہاں یہی سوچ پائی جاتی ہے کہ صرف کامیاب انسان صاحبِ اقتدار لوگ ہیںیا پھر سرمایہ دار طبقہ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ہمارے معاشرے میں آجکل کا نوجوان طبقہ خود کوہرطرح کے شعبے میں داخل کرتا ہے کہ اگر اس میں نہیں پھر دوسرے میں تو کامیاب ہو جاﺅں گا،حالانکہ انسان کو چاہیے کہ اپنی سمت کاصحیح طور پر تعین کرے جس سے اسے یہ پتہ چل سکے کہ اس میں کونسی صلاحیت ہے؟ جس کو وہ نکھارے اس پر دن رات محنت ،جدوجہداور لگن سے کام کرے۔اگر ہم تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو ہزاروںکامیاب لوگ گزرے ہیں ،جنہوں نے صرف ایک کام کو چنا اور اس کو بلندیوں پر لے گئے،پھر صحیح معانوں میں کا میاب ہوئے۔تھامس ایڈیسن جس کے والدین کو سکول کی طرف سے یہ خط بھیجا گیاکہ آپ کے بچے کی دماغی حالت ٹھیک نہیں یہ سکول میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتا اسے گھر میں خود ہی پڑھائیں تو ایڈیسن کوسکول سے نکال دیا گیا، اس کی والدہ نے اسے خط پڑ ھ کر سنایا کہ سکول میں اس قابلیت کے اساتذہ موجود نہیں جو آپ کو پڑھا سکیں۔یہی بات ایڈیسن کے دل میں گھر کر گئی ، پھروقت گزرتا گیااور ایک ہزار تجربات کے بعد اس نے بلب ایجاد کیا،اپنی صدی کا سب سے بڑا موجد بنا۔ایڈیسن کا کہنا تھا کہ کوئی بھی شخص تم سے کچھ بھی چھین سکتا ہے لیکن تمہاری ہمت،لگن،جوش وجذبہ اور نصیب نہیں چھین سکتا۔جب وہ بلب کو ایجاد کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا، اس کے علاوہ بھی بہت سی کامیابیاں حاصل کر چکا تھا ۔ ایڈیسن کو کسی شخص نے پوچھا کہ آپ ایک ہزار مرتبہ ناکام ہوئے تو آ پ کی ہمت اور جوش کم نہیں ہوا؟تو ایڈیسن کا کہنا تھا کہ میں ایک مرتبہ بھی ناکام نہیں ہوا بلکہ میں ایک ہزار تجربات ایسے جانتا ہوں جس سے بلب کی ایجاد ناممکن ہے۔کیونکہ وہ بھی ایک کام کو ساتھ لے کر چلے تھے ،تو ہی کامیاب ہوئے۔پاکستان کی باکسنگ میں بڑا نام محمد علی جو صرف قومی ہی نہیں بین الاقوامی طور پر بھی بہت شہرت ےافتہ تھے۔جب وہ بچپن میں تھے یہ قیام پاکستان سے پہلے کا واقعہ ہے جب برصغیر میں انگریز بھی موجود تھے، تب محمد علی نے ایک انگریز کے بچے کے پاس سائیکل دیکھی تو دل میں اسے حاصل کرنے کا خیال آیا جس پر محمد علی گھر گئے اورسائیکل لینے کی ضدکی تو اس کے ابو نے بولا کہ میرا روزگار اور تنخواہ بہت کم ہے ۔ہم اتنی مہنگی سائیکل نہیں خرید سکتے لیکن چونکہ محمد علی چھوٹا تھا ،تو ضد کرنا شروع ہوگیا۔پھر بابا نے اپنے گھر کی ایک چیز بیچی اور سائیکل لے دی۔جب محمد علی سائیکل چلانے باہر گیا۔ایک انگریز نے دیکھا ،انگریز کا خون کھول اٹھا ،کہ مسلمان کے بچے کے پاس سائیکل اس انگریز نے سائیکل پکڑ کر توڑ دی۔ابھی محمد علی چھوٹا تھا تو اسے کچھ سوجھا نہیں کسی نے بچے کو تنگ کرنے کے لئے مذاق میں بولا تم پولیس اسٹیشن جاﺅ اور جا کر انگریز کے خلاف مقدمہ کرو۔محمد علی چلے گئے اور جا کر بولے کے مجھے رپورٹ لکھوانی ہے انگریز کے خلاف جب آفیسر نے دیکھا ایک بچہ انگریز کے خلاف رپورٹ لکھوانے آیا ہے۔اس نے حکم دیا اس کو تھانے سے باہر نکالو جب اسے گھسیٹ کر باہر نکالا جانے لگا تو محمد علی نے ایک مکا رسید کردیا۔جس پر اسے آفیسر نے سزا بھی دی اور ساتھ کہا جاﺅ بیٹا تم کہاں رپورٹ لکھوا رہے ہو جاﺅ کراٹے سیکھو کراٹے کھیلا کرو۔پھر محمد علی وہاں سے چلے گئے ایک عرصہ گزرا جوان ہوئے تو آپ بہت زیادہ دبلے تھے۔ایک دن بازار میں کھڑے تھے، تو کسی نے کہا اپنی صحت دیکھ تجھے ایک تھپڑ سے ہی زمین میں گھاڑ دوں گا۔بس یہ بات محمد علی کے دل کو لگ گئی،اسی دن سے باکسر بننے کافیصلہ کیا اسی دن سے ہی کراٹے سیکھنا شروع کیے۔اس کے بعد مختلف مقابلہ جات میں حصہ لیتے لیتے قومی سطح پر خود کو ملکِ پاکستان کا بہترین باکسر بنایا اور اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا نام روشن کیا۔وقت گزرتا گیا تو ایک ایسا وقت بھی آیاجب محمدعلی مقابلہ کے دوران سامنے والے کو ایک ہی مکا میں بچھاڑ دیتے تھے،سامنے والا کھلاڑی دوسری دفعہ اٹھتا نہیں تھا۔ایسے ہی ایک دن محمد علی بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور تعجب سے پوچھا کہ جناب کونسی ایسی طاقت ہے ؟جس سے آپ ایک مکا سے ہی رینگ میں کھڑے دشمن کو گرا دیتے ہیں۔دوسری دفعہ وہ اٹھنے کے قابل نہیں رہتا؟تو محمد علی نے جواب دیا :صاحب یہ ایک مکا بناتے مجھے اکیس سال لگے یہ میرے اکیس سال کی مشق ہے۔یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ایک کام کو چنا اور اس میں ایک اعلیٰ درجے کی مہار ت حا صل کی۔تو زندگی کے اندر کسی ایک ایسے شعبہ کا انتخاب کریں جس کو آپ دل کی خشنودی سے اور سو فیصد توانائی سے کر سکیں۔کبھی بھی اسے کرتے ہوئے اکتاہٹ محسوس نہ ہو۔ہمیشہ اپنے کام سے پیار کریں نہ کے پیسے سے اگر کوئی کام کہے تو اس کا تھوڑا سا زیادہ ہی کر کے دیں۔اسی میں اگلے انسان کے بھلائی اور آپ کی کامیابی ہے۔ کامےاب لوگوں کا بھی یہی شیوا ہوتا ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/yxolrkb2
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *