کبیرہ گناہوں سے بچئے۔۔۔۔ علامہ محمد تبسم بشیر اویسی ، نارووال

Allama Muhammad Bashir Awaisi
Print Friendly, PDF & Email

عن انس رضی اللّٰہ عنہ قال سئل رسول اللّٰہ ﷺ عن الکبائر قال الاشراک باللّٰہ وعقوق الوالدین وقتل النفس وشھادۃ الزور۔ (بخاری جلد اول ،مسلم جلد اول )۔
حل لغات :کبائر :۔ بڑے گناہ ۔عقوق :۔ نافرمانی۔ شھادۃ الزور :جھوٹی گواہی ۔
ترجمہ:’’حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کبیرہ گناہوں کے بارے میں تو آپ ﷺ نے ارشاد فرما یا :اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا نا ، والدین کی نافرمانی ،کسی کو ناحق قتل کرنا ، جھوٹی گواہی دینا ۔
راوی کا تعارف:حضرت انس بن مالک بن نضر انصاری خزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور سید عالم ﷺ کے خادم زرد خضاب کرتے تھے۔بعض نے حنا اور بعض نے ورس کا قول کیا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کی کنیت ابو حمزہ رکھی ۔بدر میں حاضر تھے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت کرتے تھے۔جب نبی کریم ﷺ نے ہجرت فرمائی ان کی عمر دس برس کی تھی۔بعض نے نو اور بعض نے آٹھ سال بتائی ہے۔ امام زہری حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور ﷺ مدینہ طیبہ آئے تو میں دس برس کا تھا اور رسول اللہ ﷺ کے وصال کے وقت بیس برس کا تھا۔بعض نے کہا کہ دس برس،بعض نے کہا کہ آٹھ برس اور بعض کے قول پر سات سال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت کی۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اُن کے لئے دُعا فرمائی۔ان کا ایک باغ تھا جو سال میں دوبار پھل لاتا تھا اور اس میں ناز بوتھی جو کستوری کی خوشبو دیتی تھی۔ ان کے پاس حضور ﷺ کا عصا تھا۔جب وفات پائی تو وصیت کی کہ میرے ساتھ اس کو دفن کیا جائے حسبِ وصیت ان کے قمیص اورپہلو کے درمیان دفن کیا گیا۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ کی نو سال خدمت کی اس دوران میں نے جو کچھ بھی کیا حضور اکرم ﷺ نے کبھی کچھ نہ کہا کہ تو نے کیا کیا؟ حضورنبی کریم ﷺ نے ان کے لئے کثرتِ مال اور اولاد کے لئے دعا فرمائی۔ان کی پشت سے ۸۰ لڑکے اور ۲ بیٹیاں ہوئیں۔ان کی وفات کے وقت ان کی جمیع اولاد کی تعداد ایک سو بیس تھی۔ بعض نے ۱۰۰ کا قول کیا ہے۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے بہادراور بے خطا تیر انداز تھے۔آپ کے سنِ وفات میں اختلاف ہے۔ بعض نے ان کی وفات ۹۱ھ بعض نے ۹۲ھ بعض نے ۹۳ھ اور بعض نے ۹۰ ھ بیان کی ہے۔ ا ن کی عمر میں بھی اختلاف ہے۔ بعض نے سو سال بعض نے ۹۹ سال بعض نے ۱۱۰ سال اور بعض نے ۱۰۷سال بتائی ہے ۔بصرہ میں وفات پانے والے صحابہ کرام میں یہ سب سے آخری صحابی ہیں۔ان کی رحلت طف میں اپنے مکان پر ہوئی جو بصر ہ سے چھ میل دور ہے اور وہیں دفن ہوئے۔
تشریح:۔ اس حدیث کو بخاری نے باب الادب میں بھی ذکر کیا ہے اور ترمذی نے کتاب البیوع اور نسائی نے کتاب القضاء میں بیان کیا ہے ۔ کبائر کی تعداد اور تعریف میں علماء کا اختلاف ہے عمدۃ القاری جلد 3میں ہے کبیرہ وہ فعل ہے جس سے شرع میں منع کیا گیا ہو اور اس کا معاملہ عظیم ہو جیسا کہ ناحق قتل کرنا ، زنا کرنا ، جہاد سے بھاگنا ، وغیرہ اور لکھتے ہیں ،بعض نے کہا کہ کبیرہ گناہ وہ ہے جس کا تعلق ریا لعنت یا غضب یا عذاب کے ساتھ ملا یا گیا ہو جیسا کہ جھوٹ پر لعنت فرمائی گئی ہے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ ہر گناہ اپنے فوق کے اعتبار سے صغیرہ ہے اور اپنے ماتحت کے اعتبار سے کبیرہ ہے ۔ شارح مسلم مولانا علامہ غلام رسول سعیدی نے جلد اول میں ذکر کیا ہے کہ بعض علماء نے فرمایاکبیرہ گناہ وہ ہے جس پر خدا تعالیٰ نے دنیا میں حد یا تعزیرکی سزا مقرر کی ہو اور آخرت میں عذاب ۔ حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ نے فرمایا جس گناہ کو انسان بغیر کسی شرم و حیاء کے بے حجاب او رجرأت اور بے خوفی سے کرے وہ کبیرہ ہے ۔اعلیٰ حضرت امام اہل سنت الشاہ مولانا امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں گناہ کبیرہ سا ت سو ہیں ان کی تفصیل بہت ہے ،اللہ تعالیٰ کی معصیت جس قدر ہے کبیرہ ہے ۔ اگر صغیرہ و کبیرہ کو علیحدہ علیحدہ شمار کر لیا جائے ، تو لوگ صغائر کو ہلکا سمجھیں گے اور یہ کبیرہ سے بھی بدتر ہے ۔ جس گناہ کو ہلکا جان کر کرے گا ، وہی کبیرہ ہے۔امتیاز کے لئے اس قدر کافی ہے کہ فرض کا ترک کبیرہ ہے اور واجب کا ترک صغیرہ ۔‘‘ (الملفوظ جلد اول) معلوم ہو اکہ ترک فرض اور ارتکاب حرام گناہ کبیرہ اور ترک واجب اور مکروہ تحریمی کا ارتکاب گناہ صغیرہ ہے ۔
کبائر میں بھی مراتب ہیں ۔ مثلاً جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے ۔ لیکن مسجد میں باوضو ہو کر قبلہ رو ہو کر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر جھوٹ بولنا ،بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے ۔علیٰ ہذا القیاس اس حدیث میں چار کا ذکر تخصیص کے ساتھ اسی لئے ہے کہ یہ بہت بڑے کبائر ہیں ، ویسے تعداد میں اختلاف ہے ۔ اس جگہ چار کا ذکر ہے ،بعض میں سات کا ذکر ہے اور بعض میں نوکا ذکر ہے ۔ابو طالب مکی نے کہا کبیرہ گناہ سترہ ہیں ۔کسی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا ! کبیرہ سات ہیں ۔آپ نے فرمایا سات سو بیس ۔
چند کبیرہ گناہ :۔ اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا ،ناحق قتل،جادو ،سود کھانا ، رشوت لینا ، یتیم کا مال کھا نا ،جہاد سے بھاگ جانا،پاکدامن عورتوں پرتہمت لگانا ،ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، زنا ، لواطت وغیرہ۔گناہ کبیرہ پر توبہ کرنا لازم ہے اور توبہ کا خلاصہ یہ ہے کہ پچھلے گناہ پر ندامت ،آئندہ نہ کرنے کاپختہ عزم وارادہ اور اس گناہ سے جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کرنا مثلاً اگر نمازرہ گئی ہو تو اس کی قضا اور کسی کا چھینا ہوا مال واپس کرنا ،کسی کو گالی دی ہو تو اسے معاف کروانا ۔
گناہ کبیرہ کی مغفرت :۔ گناہ کبیرہ کی معافی کی تین صورتیں ہیں :۔ توبہ ،شفاعت،محض فضل خدا ،جس گناہ گار مسلمان کو (العیاذ باللہ)کوئی صورت حاصل نہ ہو ئی ۔تو وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر بالآخر جنت میں جائے گا ۔یہ سزا دنیامیں کسی بیماری یا مصیبت کی صورت میں اور برزخ میں عذاب قبر کی صورت اور آخرت میں عذاب نار کی صورت میں ہر طرح ہو سکتی ہے ۔ گناہ صغیرہ پر اصرار بھی کبیرہ ہو جاتا ہے ۔
شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ’’ اشعۃ اللمعات ‘‘جلد دوم میں فرماتے ہیں ۔ترجمہ ’’اصرار اور تکرار میں فرق یہ ہے کہ اگر کوئی شخص صغیرہ گناہ کرنے کے بعد نادم ہو اور توبہ کرے اور بعد میں شامت نفس سے و ہ گناہ کرے اور پھر نادم ہو تو یہ تکرار ہے اصرار نہیں اور اگر کوئی شخص گناہ صغیرہ کر کے اس پر نادم نہ ہوا اور منع کرنے کے باوجود بلا جھجک دوبارہ گناہ کرے تو یہ اصرار ہے ۔عینی شرح بخاری میں ہے ۔لاکبیر ۃ مع الاستغفار ولا صغیرۃ مع الاصرار ۔’’جب توبہ کرلی جائے تو گناہ کبیرہ بھی مٹ جاتا ہے اور صغیرہ پر اصرار کبیرہ بنا دیتا ہے ۔‘‘اب حدیث مذکورہ میں چار گناہوں کے بارے میں کچھ ذکر کیا جاتا ہے ۔
الا شراک باللّٰہ :۔ شرک کا لغوی معنیٰ ہے حصہ یا سا جھا ،اسی لئے شریک کے معنی ہیں حصہ دار اور ساجھی کے ۔مولیٰ تعالیٰ قرآن حکیم میں ارشاد فرماتاہے :۔ ام لھم شرک فی السمٰوٰت والارض ۔’’کیا ان بتو ں کا ان آسمانوں اور زمین میں حصہ ہے۔؟اور شرک کا اصطلاحی معنی ہے کسی کو خدا تعالیٰ کے برابر جاننا،یعنی اس کی ذات و صفات میں کسی کو برابر مساوی جاننا او رماننا یہ شرک جلی سے ہے اور یہ کفر شرک سے عام ہے ،یعنی ہر شرک کفر ہے اور ہر کفر شرک نہیں ہے ۔جیسے دہر یہ جو خدا تعالیٰ کے منکر ہیں ۔وہ کافر تو ہیں مشرک نہیں ہیں ،لیکن بعض دفعہ شرک سے مراد کفر ہوتا ہے ،یعنی خاص بول کر عام مراد لیا جاتاہے ۔ مولیٰ تعالیٰ جل شانہ ٗ ارشاد فرماتا ہے :۔ان اللّٰہ لا یغفر ان یشرک بہ ٖویغفر ما دون ذالک لمن یشآء ۔’’بے شک اللہ تعالیٰ اس جرم کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اس کے سوا جس کو چاہے بخش دے ۔
اس آیت کریمہ میں شرک سے مراد کفر ہے ،کیونکہ کسی بھی کافر کی بخشش نہ ہو گی اور نہ ہی کوئی کافر قابل بخشش ہے ۔
شرک کی حقیقت :۔ شرک کی حقیقت رب کریم جل وعلا سے مساوات برابری پر مبنی ہے ،یعنی جب کسی کو رب تعالیٰ کے برابر نہ جانا جائے ،تب تک شرک نہ ہو گا ،اسی لئے قیامت میں کفار اپنے بتوں سے کہیں گے ۔قرآن کریم میں ان کے قول کا اس طرح ذکر ہے:۔تا اللّٰہ ان کنا لفی ضلال مبین o اذنسویکم برب العلمین ۔’’خدا تعالیٰ کی قسم ہم کھلی گمراہی میں تھے کہ تم کو رب العالمین (جل جلالہ )کے برابر ٹھہراتے تھے۔‘‘
اس برابر جاننے کی چند صورتیں ہیں :۔ ایک یہ کہ کسی کوخدا تعالیٰ کا ہم جنس مانا جائے جیسے عیسائی عیسیٰ علیہ السلام اور یہودی عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے تھے اور مشرکین عرب فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں مانتے تھے ۔چونکہ اولاد باپ کی ملک نہیں ہوتی ،بلکہ باپ کی ہم جنس اور مساوی ہوتی ہے ۔ لہٰذا یہ ماننے والا مشرک ہو گا ۔ دوسرے یہ کہ کسی کوخدا وند قدوس جل وعلا کی طرح خالق مانا جائے جیسا کہ بعض کفار عرب کا فیصلہ اور یہ عقیدہ تھا کہ خیرکا خالق اللہ ہے اور شرکا خالق دوسرا رب ہے ۔اب بھی پارسی یہی مانتے ہیں ۔خالق خیر کو یزدال اور خالق شر کو اَہر من کہتے ہیں یا بعض کفار کہتے ہیں کہ ہم اپنے برے اعمال کے خود خالق ہیں ۔ان کے نزدیک بری چیزوں کو پیدا کرنا برا ہے ۔ لہٰذا اس کا خالق کوئی اور چاہیئے ۔متعدد آیات میں ایسے مشرکوں کی تردید کی گئی ہے ۔ تیسری صورت یہ کہ خود مؤثر زمانہ کو مانا جائے اور خدا تعالیٰ کی ہستی کا انکار کیا جائے جیسا کہ بعض مشرکین عرب کا عقیدہ تھا ۔ موجود ہ دہر یہ انہی کا بقایا ہیں ۔چوتھی صورت یہ عقیدہ کہ خالق ہر چیز کا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے ،مگر وہ ایک بار پیدا کر کے (معاذاللہ تعالیٰ)تھک گیا ہے ۔اب معطل وبیکار ہے ۔اب اس خدائی کو چلانے والے یہ ہمارے معبودان باطلہ ہیں ۔اس قسم کے مشرکین عجیب بکواس کرتے تھے کہ چھ دن میں زمین وآسمان پیدا ہوئے اور ساتواں دن اللہ تعالیٰ نے آرام کا رکھا تھکن دور کرنے کو ،اب بھی وہ آرام ہی کر رہا ہے،چنانچہ فرقہ تعطیلیہ اسی قسم کے مشرکوں کی یاد گار ہے ۔ان کی تردید میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے ۔ ولقد خلقنا السمٰوٰات والارض وما بینھما فی ستۃ ایام وما مسنا من لغوب۔ ’’اور بے شک ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے چھ دن میں بنائے اور ہم کو تھکن نہ آئی۔‘‘(القرآن )
اس قسم کے مشرکین کی تردید اس آیت کے علاوہ متعدد آیات میں کی گئی ہے جن میں فرمایا گیا کہ عالم کے بنانے میں کسی قسم کی کوئی تھکاوٹ نہیں پہنچی ۔اس قسم کے مشرکین قیامت کے منکر اس لئے بھی تھے کہ وہ سمجھتے تھے ایک دفعہ دنیا پیدا فرماکر حق تعالیٰ کافی تھک چکا ہے ۔اب دوبارہ کیسے بنا سکتا ہے ؟(معاذاللہ )اسی لئے فرمایا گیا کہ ہم تو صرف ’’کن ‘‘سے ہر چیز پیدا کرتے ہیں ، تھکن کیسی ؟دوبارہ پیدا کرنے پر بدرجہ اولیٰ قادر ہیں ۔
شرک کی پانچویں قسم :۔ یہ عقیدہ کہ ہرذرہ کا خالق ومالک تو اللہ ہی ہے مگر وہ اتنے بڑے جہان کو اکیلا سنبھا لنے پر قادر نہیں ،اس لئے اس نے مجبوراً اپنے اپنے بندوں میں سے بعض بندے عالم کے انتظام کے لئے چن لئے ہیں ، جیسے دنیاوی بادشاہ اور ان کے محکمے اب بھی یہ بندے جنہیں عالم کے انتظام میں دخیل بنایا گیا ہے ۔ وہ بندے ہونے کے باوجود رب تعالیٰ پر دھونس رکھتے ہیں،اگر ہماری شفاعت کریں تو رب تعالیٰ کو ماننا پڑے اور اگر چاہیں تو ہماری بگڑی بنادیں ،ہماری مشکل کشائی کریں ،جو وہ کہیں رب تعالیٰ کو ان کی ماننی پڑے ،ورنہ اس کے عالم کا نظام بگڑ جائے ۔
یہ وہ شرک ہے جس میں عرب کے بہت سے مشرکین گرفتار تھے اور اپنے بت ود،یغوث،لات،منات،عزیٰ وغیرہ کو رب کا بندہ مان کر سارے عالم کا رب تعالیٰ اور خالق مان کر بھی مشرک تھے۔اس عقیدے سے کسی کو پکارنا شرک ،اس کی شفاعت ماننا شرک،اسے حاجت روا اور مشکل کشاماننا شرک ،اس کے سامنے جھکنا،اس کی تعظیم کرنا شرک ،غرضیکہ یہ برابری کا عقیدہ رکھ کر اس کے ساتھ جو تعظیم وتوقیر معاملہ کیا جائے وہ شرک ہے ۔
یہ پانچویں قسم کے مشرک اللہ تعالیٰ کو سب کا خالق ومالک،زندہ کرنے والا،مارنے والا،پناہ دینے والااور مدبر عالم مانتے تھے ،مگر پھر بھی مشرک تھے یعنی ذات وصفات کا اقرار کرنے کے باوجود وہ مشرک رہے ،کیوں ؟ کہ وہ ان عقائد کے باوجود دوسبب سے مشرک تھے ۔ایک یہ کہ وہ صرف خدا کو عالم کا مالک نہیں مانتے تھے،بلکہ اللہ تعالیٰ کو بھی اور دوسرے اپنے معبودوں کو بھی ،اسی لئے وہ یہ نہ کہتے تھے کہ ملکیت و قبضہ صرف اللہ تعالیٰ کا ہے بلکہ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا بھی ہے اوردوسروں کا بھی ۔ دوسرا سبب یہ کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا یہ کام نہیں کرتا ،بلکہ ہمارے بتوں کی مدد سے کرتا ہے ،خود مجبور ہے ،ان وجوہ سے وہ مشرک ہوئے ۔
خلاصہ :۔ یہ ہے کہ مشرکین عرب کا شرک ایک ہی طرح کا نہ تھا ۔بلکہ اس کی پانچ صورتیں ہیں :۔(1)خالق کا انکار اور زمانہ کو مؤثر ماننا(2)چند مستقل خالق ماننا ۔(3)اللہ تعالیٰ کو ایک مان کر اس کی اولاد ماننا ۔(4) اللہ تعالیٰ کو ایک مان کر اسے تھکن کی وجہ سے معطل ماننا۔(5)اللہ تعالیٰ کو خالق ومالک مان کر اسے دوسرے کامحتاج ماننا اور انہیں ملکیت اور خدائی میں دخیل ماننا ۔ ان پانچ کے سوا اور چھٹی قسم کا شرک ثابت نہیں ۔
سوال : ۔ مشرکین عرب بھی اپنے بتوں کو خدا تعالیٰ کے ہاں سفارشی اور خدا رسی کا وسیلہ مانتے تھے اور مسلمان بھی نبیوں ،ولیوں کو شفیع اور وسیلہ مانتے ہیں ،تووہ کیوں مشرک ہوگئے اور یہ کیوں مومن رہے ؟ (ماالفرق بینھما )جواب:۔ دو طرح کا فرق ہے مشرکین خدا کے دشمنوں یعنی بتوں وغیرہ کو سفارشی اور وسیلہ سمجھتے تھے جو کہ واقع میں ایسے نہ تھے اور مومنین اللہ تعالیٰ کے محبوبوں کو شفیع اور وسیلہ سمجھتے ہیں ،لہٰذا وہ کافر ہوئے اوریہ مومن رہے ،جیسے گنگاکے پانی اور بت کے پتھر کی تعظیم ،ہولی ،بنارس ، کاشی کی تعظیم شرک ہے ۔مگر آب زمزم ،مقام ابراہیم ،رمضان ،محرم ، مکہ معظمہ ،مدینہ طیبہ کی تعظیم ایمان ہے ،حالانکہ زمزم اور گنگا جل دونوں پانی ہیں ۔مقام ابراہیم اور سنگ اسود ،بت کا پتھر دونوں پتھر ہیں ۔دوسرے یہ کہ وہ اپنے معبودوں کو خدا تعالیٰ کے مد مقابل دھونس کا شفیع مانتے تھے اور جبری وسیلہ مانتے تھے ۔مومن انبیاء اور اولیاء کرام کومحض بندۂ خدا ،محض اعزازی طور پر خدا تعالیٰ کے اذن و عطاء سے شفیع یا وسیلہ مانتے ہیں ۔اذن اور مقابلہ ایمان و کفر کا معیار ہے ۔
سوال :۔مشرکین عرب کا شرک صرف اس وجہ سے تھا کہ وہ مخلوق کو فریا درس، حاجت روا ،مشکل کشا ء،سفارشی ،دور سے سننے والا مانتے تھے ۔وہ اپنے بتوں کو خالق ومالک ،رازق نہ مانتے تھے اور موجود ہ مسلمان بھی نبیوں ،ولیوں کے لئے مذکورہ چیزیں ثابت کرتے ہیں وہ بھی انہیں کی طرح مشرک ہیں اگر چہ بندۂ خدا سمجھ کر کریں ،کیونکہ یہ کام مافوق الاسباب مخلوق کے لئے ثابت کرتے تھے ،مشرک ہوئے ۔جواب :۔ یہ محض غلط اور قرآن پر افتراء ہے ۔ جب تک رب تعالیٰ کے ساتھ بندے کو برابر نہ مانا جائے شرک نہیں ہو سکتا ،وہ بتوں کو رب تعالیٰ کے مقابل ان صفتوں سے موصوف کرتے تھے ۔مومن رب تعالیٰ کے اذن سے انہیں محض اللہ تعالیٰ کا بندہ جان کر مانتا ہے ،لہٰذا وہ مومن ہے ،ان بندگان خدا کے لئے یہ صفات قرآن کریم سے ثابت ہیں ۔
قرآنی آیات ملاحظہ ہوں :۔’’ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں باذن الٰہی مردوں کو زندہ ۔اندھوں ،کوڑھیوں کو اچھا کر سکتا ہوں ، میں باذن الہٰی مٹی کی شکل میں پھونک مار کر پرندہ بنا سکتا ہوں ،جو کچھ تم گھر میں کھاؤ یا بچاؤ بتا سکتا ہوں ۔ ‘‘’’حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا :۔ میری قمیض،میرے والد کی آنکھوں پر لگا دو ،انہیں آرام ہو گا ۔‘‘حضرت جبریل نے سیدہ مریم (علیہااسلام )سے کہا ’’میں تمہیں بیٹا دوں گا۔‘‘ان تمام مافوق الاسباب میں مشکل کشائی ،حاجت روائی علم غیب،سب کچھ آگیا ۔’’حضرت آصف آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس یمن سے شام لے آئے ۔‘‘’’حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین میل کے فاصلے سے چیونٹی کی آواز سن لی ۔‘‘حضرت یعقوب علیہ السلام نے کنعان میں بیٹھے یوسف علیہ السلام کی خوشبوسونگھ لی ۔‘‘’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے روحوں کو پکارا ۔تمام نے اور قیامت تک آنے والی روحوں نے سن لیا۔‘‘یہ کام مافوق الاسباب ہیں اور کیا یہ شرک ہوں گے ؟ ہر گز نہیں ! فرق وہی ہے کہ باذن اللہ یہ چیزیں بندوں کو ثابت ہیں اور رب کے مقابل ماننا شرک ہے ۔ آج کل بد مذہبو ں کی عادت ہے کہ جو آیات بتوں کے متعلق نازل ہوئیں وہ انبیاء اور اولیاء پر چسپاں کرتے ہیں اور جو مشرکین کے متعلق نازل ہوئی ہیں وہ مومنین کے متعلق پڑھتے ہیں اور بات بات پر کفر وشرک کے فتوے لگاتے ہیں ۔یا رسول اللہ کہنے پر یا شیخ عبد القادر کہنے پر، انبیاء واولیاء سے استمداد واستعانت اور استغاثہ کرنے پر فوراً کفر کی مشین حرکت میں آجاتی ہے ،ہاں اگر یہی باتیں ان کے اکابر سے سر زد ہوں ،تو وہ نہ کفر نہ شرک نہ بدعت نہ حرام صرف وہ فتاویٰ اہل سنت کے لئے ہیں ۔
عقو ق الوالدین :۔ عقوق مصدر ہے عق یعق کا ،اس کا لغوی معنیٰ ہے قطع(کاٹنا)اسی سے ہے عق عن ولدہ جبکہ بچے کے سر کے بال کاٹے یا بچہ کی جانب سے عقیقہ کرے ۔ عقیقہ اس جانور کو کہا جاتا جو بچہ کی جانب سے بطور شکرانہ ذبح کیا جاتا ہے ،اور کہا جاتا ہے عق والدہٖ ’’یعنی اُس نے طاعت کے عصا کو توڑ ڈالا ۔‘‘شیخ ابو عمر وبن صلاح نے اپنے فتاویٰ میں فرمایا عقوق محرم ہر وہ فعل ہے جس سے والدین کو تکلیف پہنچے ، بشرطیکہ وہ واجبات سے نہ ہو ، کیو نکہ حکم یہ ہے کہ معصیت میں کسی کی اطاعت نہ کی جائے گی۔ امام غزالی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ امور مشتبہ میں والدین کی اطاعت کی جائے گی ۔یہ اکثر علماء کا قول ہے ۔شیخ تقی الدین علیہ الرحمہ نے کہا : عقوق کا ضابطہ ہے والدین کو تکلیف دینا ، جس طریقہ اور جس طرح سے بھی ہو کم ہو یا زیادہ انہوں نے روکا ہو یا نہ روکا ہو جس کے کرنے کا انہوں نے حکم دیا ہو جس سے انہوں نے منع فرمایا ہو اس کی مخالفت کرنا ،اسی بناء پر علماء کرام فرماتے ہیں اگر جہاد فرض کفایہ ہو تو والدین کی اجازت کے بغیر شریک نہ ہو ،اس میں اس کے عضو کٹ جانے کی وجہ سے ہو سکتا ہے انہیں تکلیف ہو ،اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے ۔ایک شخص نے آپ ﷺ سے جہاد میں شریک ہونے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا :۔ تیری والدہ حیات ہے تو اس کی خدمت کر ،تیرا یہی جہاد ہے ،بلکہ کوئی بھی خطر ناک سفر ان کی اجازت کے بغیر نہ کرے ،تاہم طالبعلم کے لئے سفر کرنا بغیر اجازت بھی جائز ہے ۔ کیونکہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض اور لازم ہے ۔والدین کو چاہیئے بخوشی اجازت دیں ،والدین کی نافرمانی مولیٰ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے انسان کی تباہی اور بربادی ہے خدا وند قدوس فرماتا ہے:والدین کو اف نہ کہو ، اور نہ ہی ان کو جھڑ کو ،بلکہ ان کے ساتھ نرمی کرو اور ان کے لئے دعا کرو مقام غور ہے بچہ جب شکم مادر میں ہو تا ہے ،تو والدہ اس کی حفاظت کے لئے ایسا کام نہیں کرتی جس سے اس کو تکلیف ہو ، ایسا کھا نا نہیں کھاتی جو اس کو نقصان دہ ہو ،پھر وقت ولادت تکالیف شاقہ برداشت کرتی ہے ۔پھر دوسال اپنے سینے سے لگائے دودھ پلاتی ہے ،اس کا پاخانہ اپنے ہاتھ سے صاف کرتی ہے ،اسی طرح والدبھی اس کی آ سائش کے لئے محنت ومزدور ی کرتا ہے اور کما کر اس کو کھلا تا ہے ،اب جبکہ والدین بوڑھے ہوجائیں اوراو لاد کے تعاون کے محتاج ہوجائیں ،تو کتنے دکھ کی بات ہے کہ اولادوالدین کی خدمت نہ کرے اور اپنے لئے ان کو بوجھ سمجھے اس لئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بوڑھا پے میں پایا پھر اس نے جنت حاصل نہ کی (یعنی ان کی خدمت کر کے )تو اس کی ناک خاک آلودہو ۔کیا سرکار ﷺ کی بد دعا معمولی ہے؟ایک حدیث میں ہے :’’ماں باپ کے (نافرمان)کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی ۔‘‘(کشف الغمہ)۔
زواجر کی روایت ہے :۔ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے بیوی کو ماں پر ترجیح دی ،اس پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اور سب لوگوں کی لعنت ہو۔ (العیاذ باللہ )۔
قتل نفس :۔ قتل نفس سے مراد کسی کو ناحق قتل کرنا ہے ۔ علامہ بدرالدین عینی شارح بخاری عمدۃالقاری میں فرماتے ہیں : اس کی وعید کیلئے یہی فرمان الہٰی کافی ہے ۔ترجمہ :’’جس کسی نے مسلمان کو جان بوجھ کر (ناحق)قتل کیا تو اس کی جزا جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا یعنی بہت دیر تک رہے گا ۔‘‘
جھوٹی گواہی :۔ زور کا معنیٰ ہے خلاف واقع بات کرنی یعنی جھوٹ کو اس طرح بیان کرنا کہ سچ معلوم ہو ، جھوٹ خود ہی بہت بڑا گناہ ہے اور جھوٹوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے ،لیکن جھوٹی گواہی تو بہت ہی بڑا گناہ ہے ۔ ایک تو جھوٹ ہونے کی وجہ سے اور دوسرا کسی کی حق تلفی کی وجہ سے کہ ! جھوٹی گواہی سے کسی کا حق ضائع ہو گا ،یہ گناہ پر گناہ ہے اور حقوق العباد سے متعلق جو گناہ سرزد ہوتے ہیں وہ بڑے اس وجہ سے بھی ہوجاتے ہیں کہ جب تک صاحب حق معاف نہ کرے ،حق تعالیٰ کی بارگاہ سے معافی نہیں ملتی ۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ جھوٹی گواہی کو اشراک با للہ سے برابر کیا گیا ہے ۔
اس بات میں اختلاف ہے کہ جھوٹے گواہ کی توبہ قبول ہوتی ہے یا نہیں ۔ حضرت امام مالک علیہ الرحمہکا قول ہے !اس کی توبہ قبول نہ ہو گی ۔ سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جب اس کی توبہ ظاہر ہو جائے تو قبول کی جائے گی اور یہی امام شافعی اور ابو ثور (رحمہما اللہ تعالیٰ )کا ہے ۔حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہکے نزدیک جھوٹے گواہ کو اس کے محلہ یا بازار میں بھیجا جائے گا اور اعلان کیا جائے گا یہ گواہ جھوٹا ہے اس سے بچو اور مارا نہیں جائے گا اور نہ ہی قید کیا جائے گا ۔صاحبین کے نزدیک مارا بھی جائے گا اور قید بھی کیا جائے گا ،اگر اس نے توبہ نہ کی ۔توبہ کرنے پر چھوڑ دیا جائے گا ۔
غو رکریں جھوٹی گواہی کو سرکار دو عالم ﷺ نے اکبر کبائر فرمایا ،اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جھوٹی گواہی اشراک با للہ کے برابر ہے اور بعض علماء کے اقوال کے مطابق اس کی توبہ قبول نہ کی جائے گی ۔ اکثر علماء نے فرمایا ۔’’اس کی تشہیر کی جائے اور اس کو رسوا کیا جائے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو کبیرہ گناہوں سے بچنے کی توفیق دے ۔

Short URL: http://tinyurl.com/hvto3ev
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *