جانوروں کی نسل کشی یا سنت ابراہیمی؟

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: عابد علی یوسفزئی، سوات


عصر حاضر میں جہاں امت مسلمہ غیر وں کے شر سے محفوظ نہیں وہاں احکام شرعیہ اور شعائر اسلام پر بھی اعتراضات کی بھر مار کی جارہی ہے۔ کبھی سود کو حلال کاروبار کے منافع کا متبادل بتلایا جاتا ہے تو کبھی حج جیسے عبادت پر زبان دراز کی جاتی ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے غیروں کی دیکھا دیکھی لبرلز اور مغرب زدہ لوگوں نے بھی دین اسلام پر انگلیاں اٹھانی شروع کی ہے۔ سنت ابراہیمی کے خلاف اوازیں بلند کی جارہی ہے۔ اسے نہ صرف پیسوں کا ضیاع بتلایا جاتا ہے بلکہ جانوروں کی نسل کشی گردانا جاتا ہے۔ آئیں قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ قربانی کی شرعی کیا حیثیت ہے اور یہ کن لوگوں پر واجب ہے؟
قربانی کا عمل اگرچہ ہر امت کے لیے رہا ہے، جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلِکِلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسِکًا لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَی مَا رَزَقَہُمْ مِنْ بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ (سورۃ الحج )۔ ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کی، تاکہ وہ چوپایوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے۔ لیکن حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی اہم وعظیم قربانی کی وجہ سے قربانی کو سنتِ ابراہیمی کہا جاتا ہے اور اسی وقت سے اس کو خصوصی اہمیت حاصل ہوگئی۔ چنانچہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے جو قیامت تک جاری رہے گی۔ اس قربانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی جان ومال ووقت ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہیں۔
حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر سو اونٹوں کی قربانی پیش فرمائی تھی (صحیح مسلم :حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم)۔ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا عملی اظہار ہے اور اس عمل میں اُن حضرات کا بھی جواب ہے جو مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر کہہ دیتے ہیں کہ جانوروں کی قربانی کے بجائے غریبوں کو پیسے تقسیم کردیے جائیں ۔ اسلام نے جتنا غریبوں کا خیال رکھا ہے اس کی کوئی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی۔ بلکہ انسانیت کو غریبوں اور کمزوروں کے درد کا احساس شریعتِ اسلامیہ نے ہی سب سے پہلے دلایا ہے۔ غرباء ومساکین کا ہر وقت خیال رکھتے ہوئے شریعت اسلامیہ ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم عید الاضحی کے ایام میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، جیسا کہ ساری انسانیت کے نبی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔(سنن دار قطنی، سنن کبری للبیہقی)
اِن دِنوں بعض حضرات نے باوجودیکہ کہ انہوں نے قربانی کے سنتِ مؤکدہ اور اسلامی شعار کا موقف اختیار کیا ہے ۱۴۰۰ سال سے جاری وساری سلسلہ کے خلاف اپنے اقوال وافعال سے گویا یہ تبلیغ کرنی شروع کردی ہے کہ ایک قربانی پورے خاندان کے لیے کافی ہے اور قربانی کم سے کم کی جائے جو سراسر قرآن وحدیث کی روح کے خلاف ہے، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں امتِ مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ان ایام میں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنی چاہیے۔
دیگر اعمال صالحہ کی طرح قربانی میں بھی مطلوب ومقصود رضاء الٰہی ہونی چاہیے، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ صَلاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن (سورۃ الانعام ) میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب اللہ کی رضامندی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ نیز اللہ جلّ شانہ کا فرمان ہے: لَن یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاوءُہَا وَلٰکِن یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (سورۃ الحج ) اللہ کو نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے نہ اُن کا خون؛ لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا (اس قیام کے دوران) آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی ۔ابواب الاضاحی) غرضیکہ حضورا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران ایک مرتبہ بھی قربانی ترک نہیں کی باوجویکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرمیں بوجہ قلت طعام کئی کئی مہینے چولہا نہیں جلتا تھا۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ صحابہء کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ قربانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرامؓنے عرض کیا: ہمیں قربانی سے کیا فائدہ ہوگا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!اون کے بدلے میں کیا ملے گا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے میں (بھی) نیکی ملے گی۔ (سنن ابن ماجہ: باب ثواب الاضحیہ)
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ذی الحجہ کی ۱۰ تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں ، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا (اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی) اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرفِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے ، لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔(ترمذی: باب ما جاء فی فضل الاضحیہ)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔ (سنن دار قطنی باب الذبائح، سنن کبری للبیہقی)
قربانی کا وجوب:
قربانی کو واجب یا سنتِ مؤکدہ قرار دینے میں زمانہ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ مگر پوری امتِ مسلمہ متفق ہے کہ قربانی ایک اسلامی شعار ہے اور جو شخص قربانی کرسکتا ہے اس کو قربانی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے خواہ اس کو واجب کہیں یا سنتِ مؤکدہ یا اسلامی شعار۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں ہمیشہ قربانی کیا کرتے تھے باوجودیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں اشیاء خوردنی نہ ہونے کی وجہ سے کئی کئی مہینے تک چولہا نہیں جلتا تھا۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں قربانی کو واجب قرار دیا ہے، حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام احمد ابن حنبلؒ کی ایک روایت بھی قربانی کے وجوب کی ہے۔ ہندوپاک کے جمہور علماء نے بھی وجوب کے قول کو اختیار کیا ہے، کیونکہ یہی قول احتیاط پر مبنی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی قربانی کے وجوب کے قول کو اختیار کیا ہے۔ قربانی کے وجوب کے لیے متعدد دلائل میں سے چندپیش ہیں:
اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم (سورۃ الکوثر) میں ارشاد فرماتا ہے: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ اس آیت میں قربانی کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے اور امر عموماً وجوب کے لیے ہوا کرتا ہے، جیساکہ مفسرین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں تحریر کیا ہے۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت (فَصَلِّ لِرَبِّکَ) میں جو نماز کا ذکر ہے، اس سے عید کی نماز مراد ہے اور (وَانْحَرْ) سے قربانی مراد ہے۔ مفسر قرآن شیخ ابوبکر جصاصؒ فرماتے ہیں کہ اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں:عید کی نماز واجب ہے۔ قربانی واجب ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ بھٹکے۔ (سنن ابن ماجہ: باب الاضحیہ واجبہ ام لا، مسند احمد ج ص ، السنن الکبری ج ص ۰۰ کتاب الضحایا) وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید ارشاد فرمائی اور اس نوعیت کی سخت وعید واجب کے چھوڑنے پر ہی ہوتی ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ قربانی کرنا واجب ہے۔
حضرت جندب بن سفیان البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں عید الاضحی کے دن حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے عید کی نماز سے پہلے (قربانی کا جانور) ذبح کر دیا تو اسے چاہیے کہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے (عید کی نماز سے پہلے) ذبح نہیں کیا تو اسے چاہیے کہ وہ (عید کی نماز کے) بعد ذبح کرے۔ (صحیح بخاری۔ باب من ذبح قبل الصلاۃ اعاد) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالاضحی کی نماز سے قبل جانور ذبح کرنے پر دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا، حالانکہ اُس زمانہ میں صحابہ کرامؓکے پاس مالی وسعت نہیں تھی۔ یہ قربانی کے وجوب کی واضح دلیل ہے ۔
ہر صاحب حیثیت کو قربانی کرنی چاہیے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ذکر کیا گیا۔ البتہ مسافر پر قربانی واجب نہیں، جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسافر پر قربانی واجب نہیں۔ (المحلی بالآثار لابن حزم)
آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ اور اقوال فقہاء کے روشنی میں قربانی کو جانوروں کی نسل کشی اور پیسوں کا ضیاع کہنے والے یقیناًگمراہی پر ہے اور انہیں اپنا غلط نظریہ ترک کرنا لازم ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/y9jhmeyt
QR Code: