قندیل بلوچ کی غربت ختم کرنیکی حسرت کو میڈیا نے استعمال کیا اور پھر کوئی جنازہ پڑھنے بھی نہیں آیا

Print Friendly, PDF & Email

لندن (شاہد جنجوعہ) قندیل بلوچ جس کے لاکھوں فالور تھے ، جسے مبشر لقمان جیسے شخص نے اپنے پروگرام میں بلایا مگر اسکی بات سننے کی بجائے اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا اسکی غربت اور اسکی مجبوری کا استحصال کیا گیا۔ کہاں گئے مبشرلقمان اور سہیل وڑائج ان میں سے کوئی بھی اسکا جنازہ پڑھنے نہیں گیا ، کہاں گئے سوشل میڈیا کے وہ لاکھوں فالور کوئی اس کی میت پر کپڑا ڈالنے نہیں آیا وہ بیچاری جیسے غربت میں جواں ہوئی اسی طرح غربت کے ہاتھوں ماردی گئی۔
پہلے امجد صابری ، پھر عبد الستار ايدھی اور اب قندیل بلوچ ۔۔
تين مختلف شخصیات ، تين مختلف شعبے ، تین مختلف کارہاے زندگی ۔۔۔ لیکن انجام سب کا ايک ۔۔۔ سب اپنے تخليق کار کے پاس پہنچ گۓ ۔ ان کے بارے ميں کيا کیا نہیں کہا گيا ، فتوے بھی ، مذاق بھی ، سنجيدہ باتيں بھی اور افواہيں بھی ۔۔۔
ہم نے بھی اسی طرح جانا ہے ۔ ہمیں نہيں معلوم کہ ہماری موت کس طرح آۓ گی ؟ لیکن فیس بک کا حصہ بننے کے بعد کم از کم اتنا اندازہ توہو گيا ہے کہ کوئی خوش ہو گا ، کوئی غمزدہ ہو گا ، کوئی جنت میں بھيجنا چاہے گا اور کوئی جہنم واجب قرار دے گا ، کوئی مزاحيہ سٹيٹس لگاۓ گا تو کوئی دکھ بھرا۔۔۔ ليکن دل سے مغفرت کی دعا کرنے والے صرف وہی ہوں گے جو اللہ سے ڈرتے ہيں اور جو جانتے ہيں کہ مرنے والا چلا گیا اور اس کا حساب اب اوپر ہو گا ۔
ہم کيوں بھول جاتے ہيں کہ سزا اور جزا دينے والا اللہ تعالی ہے ۔ ہم مرنے والے کا معاملہ اس ذات باری کے سپرد کر کے صرف دعاۓ مغفرت کیوں نہيں مانگ سکتے؟ ہم کيوں وہ فیصلے اپنے اختیار ميں لينے کی کوشش کرتے ہیں جس پرہمیں ايک پرسنٹ بھی اختیار نہيں ملنے والا ۔ ہم کیوں کسی کی موت پر مزاحيہ سٹيٹس لگا کراپنی بےحسی کا اظہار کرتے ہیں ۔ کسی مغفرت کی دعا والے سٹيٹس پر بےحس لوگوں کے بےحس کمنٹس پڑھ کر جو دلی تکلیف ہوتی ہے اس کا بیان کرنا مشکل ہے ۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہيں کہ ہم نے بھی جانا ہے تو ہم اپنی فکر کريں ، اپنے اعمال کو سدھاریں۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
انسان ہونے کے ناطے کم از کم ہم اتنا تو کر سکتے ہيں نا کہ اگر دعاۓ مغفرت کرنے کا ظرف نہ ہو تو مزاحيہ ستیٹس بھی نہ لگائيں اور نہ ہی مرنے والے کے عيب گنوائيں کہ یہ بھی تو غیبت کے زمرے ميں آتا ہے ۔ اللہ تعالی ہمارے ظرف کو بلند فرما اور ہمیں توفیق دے کہ ہم مرنے والے کے لیے دعاۓ مغفرت کريں نا کہ اس کی عیب جوئی کريں اور نہ ہی اس کا حصہ دار بنیں ۔ آمين
قندیل بلوچ پر غیرت کے نام پر آوازے کسنے والوتم غیرت میں آکر قتل کردیتے ہو گالیاں دیکر زلیل کرتے ہو لیکن اتنی ہمت نہیں کہ ایک کسی ایک فوزیہ کو سہارا دیکر قندیل بلوچ بننے سے بچالو
یہ سیاسی و مزھببی گدھو تم تومدرسوں میں بچوں کو نہیں چھوڑتے۔
جیلوں میں قید مجبور لڑکیوں کو نہیں چھوڑتے
راہ چلتی بھیک مانگتی عورتوں کو نہیں چھوڑتے
گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں پہ رالیں ٹپکاتے ہو ۔
چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کو نہیں چھوڑتے
مجبوری میں کام کرنے والی دفتر کی ساتھی خواتین سے موقع کی تلاش میں رہتے ہو
سوشل میڈیا پہ لڑکی سے چکر چلانے کو تیار بیٹھے ہو
جھوٹے چکر دو گے وعدے کرو گے ۔
مجبور طلاق شدہ یا بےسہارا عورتوں کو شادی کا لالچ دےکر بیڈ روم تک لا کر اپنی ہوس کا نشانہ بناؤ گے
یہ ہے تمہاری غیرت ؟ تم اگر کسی کو
اچھی زندگی نہیں دے سکتے تو قتل کرنے کا حق تمھیں کس۔نے دیا کیا یہ تمھاری مردانگی ہے

Short URL: http://tinyurl.com/gleds6h
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *