آنکھیں کھلیں تو جاگ اٹھیں حسرتیں تمام

Abu Abdul Quddos M Yahya
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

بعض اوقات انسان ایسے حسین خواب دیکھتا ہے جسے وہ ہمیشہ جاری رکھنا چاہتا ہے۔ جب  وہ اس خواب سے بیدار ہوتا  ہے تو اس خواب شکستہ کی حسرت اس کے دل میں رہ جاتی ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اسی خوابوں کی دنیا میں واپس چلا جائے ۔یہ امرناممکن ہے ۔یہ دنیا دارالعمل ہے ۔رنگین خیالات وخواب دیکھنے سے تقدیر بدل نہیں جاتی۔ تقدیر بدلنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہی ایک Key to Success۔ یہ چابی اللہ رب العزت نے ہر فرد کے ہاتھ میں تھمادی ہے جو محنت کرے گا وہ پھل کھائے ۔ہرشخص اپنے حسین خوابوں کی تعبیر اسی محنت سے حاصل کرسکتاہے جیسا کہ اس کہانی میں ہے۔۔۔

 ساجد ایک ذہین لڑکا تھا لیکن وہ محنت سے جی چراتا اورہر وقت کسی ایسی سوچ میں ڈوبارہتا جو اس کے تمام مسائل اورپریشانیوں کوحل کردے۔وہ جب بھی کتابیں کھول کر بیٹھتاپڑھنے کے بجائے خیالات میں محوہوجاتا۔ جہاں اس کے مدمقابل کوئی اورنہ تھا۔جب اس کے سالانہ امتحانات قریب آئے تو ایک رات وہ اپنی کتابوں کو سامنے رکھے امتحان کی تیاری کاجائزہ لے رہاتھا۔اس کی پریشانی کی کوئی انتہاء نہ رہی کہ جس انداز سے اس نے تیاری کی تھی اس کے ساتھ تو اس کا ایک پرچہ بھی پاس کرجانا کرامت سے کم نہ ہوتا۔ وہ اسی شش وپنج وپریشانی میں بیٹھا تھا۔اسے اپنے امتحانی نتائج اور اس کے مابعد کے مناظر صاف نظرآرہے تھے۔جس کا لازمی نتیجہ اسکول میں رسوائی ،دوستوں میں جگ ہنسائی ،والد سے پٹائی یا پھر ہوٹلوں میں برتنوں کی دھلائی یا سڑک پر پتھروں کی کٹائی تھا ۔اسی حالت میں وہیں بیٹھے بیٹھے وہ پھر  خوابوں کی دنیا میں چلاگیا۔اس نے خود کو ایک خوبصورت باغ میں پایا۔ جہاں ارد گرد سبزہ ہی سبزہ اورطرح طرح کے پھل دار درخت اورپھولدار پودے تھے۔ وہ باغ میں آگے ہی آگے بڑھتارہا۔یہاں تک کہ وہاں اس نے ایک نورانی چہرے والا بہت ہی وجیہ خوبصورت آدمی دیکھا۔اس نے انہیں ادب واحترام سے سلام کیا ۔بزرگ نے اس سے پوچھا کہ تم اتنےپریشان کیوں ہوں۔ اس نے امتحان کی تیاری کے متعلق اپنے خدشات عرض گزارکئے۔انہوں نے کہا تم کیاچاہتے ہو۔ اس نے کہا امتحان میں نمایاں کامیابی۔ وہ نورانی چہرے والے بزرگ مسکرائے اورکہا اچھا اس کا میرے پاس ایک حل  ہے۔میرے پاس ایک ایسا قلم ہے جوتمہارے تمام مسائل حل کردے گا یہ کہہ کر انہوں نے اپناہاتھ بڑھایا اورکہا یہ لو۔ اتناکہناتھا کہ ان کی ہتھیلی پر ایک خوبصورت قلم نمودارہوا۔ جب اس نے قلم لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو انہوں کہا۔ اسے معمولی قلم نہ سمجھنا۔بلکہ یہ تو بہت سی نادیدہ اورغیرمرئی طاقتوں کا حامل قلم ہے۔کسی بھی سوال پر اس قلم کو رکھوگے تو یہ انتہائی فصیح وبلیغ زبان میں  بہترین جواب تحریر کرے گا۔

یہ نہ صرف تمھیں لکھی ہوئی تحریر پڑھ کر سنائے گا بلکہ دنیا کی کسی بھی زبان میں کسی بھی مضمون اورموضوع پر خامہ فرسائی کرے گا۔خواہ کسی زبان کی کتنی ہی پیچیدہ وباریک بین عبارت ہی کیوں نہ ہو اسے عام فہم انداز سے اپنے قاری کو سمجھادے گا۔اس سے کھینچی ہوئی لکیریں لچکدار ہوں گی یعنی چھوٹی بڑی اورآسانی سے کسی بھی اندازسے موڑی جاسکتی ہیں۔

قلم لینے کے بعد اس نے خود کو کمرہ امتحان میں پایا ۔جہاں واقعی قلم کی حیرت انگیزطاقتیں اس پر عیاں ہوئیں اور اس نے بہترین پرچے دیئے ۔جب نتائج کا اعلان ہوا توپورے اسکول میں اس کی اول پوزیشن تھی۔وہ پھولے نہ سمارہاتھا۔ لیکن ۔۔اچانک آنکھ کھل جانے سے اس کے تمام سہانے خواب ھرے کے دھرے رہ گئے ۔اور اس کی حالت سراج لکھنوی کے اس شعر کی مانند تھی:

آنکھیں کھلیں تو جاگ اٹھیں حسرتیں تمام

اس کو بھی کھو دیا جسے پایا تھا خواب میں

یہ کیا وہ تو وہیں بیٹھا تھا اوروہی کتب اس کے سامنے تھیں۔ اچانک وہ اٹھا اورہر جگہ قلم کو تلاش کرنے لگا۔لیکن ندارد۔اس اثناء میں اس کے والد وہاں تشریف لے آئے۔پوچھا بیٹا  ابھی تک سوئے نہیں اورکیاتلاش کررہے ہو؟ اس نے ابتداء سے انتہاء تک خواب سنایا۔ وہ یہ سن کر مسکرانے لگے۔ اورفرمایا بیٹا یہ عملی زندگی ہے یہاں اس طرح کے قلم ملتے نہیں بنائے ضرور جاسکتے ہیں۔اس نے کہا بنائے جاسکتے ہیں وہ کیسے؟کہامحنت ،محنت،اورصرف محنت سے ۔ لیکن وہ قلم کیسے بنیں گے؟آپ نے فرمایااگرتم انتہائی دلجمعی ،جانفشانی سے اپنی تعلیم میں محنت کرو۔ اپنی لکھائی کو سنوارو اللہ رب العزت سے کامیابی کی دعا کرو توتمہیں بھی ایسا قلم حاصل ہوجائے گا۔سادہ لفظوں میں”اہمیت اس کی نہیں آپ کون سے قلم سے امتحانی پرچہ حل کررہے ہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ آپ امتحانی کاپی پر کیسااورکیا لکھ رہے ہیں اور نتیجۃً آپ امتحان میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں؟

اورایک بات ذہن نشین کرلو کہ کسی بھی کام کے آغاز کا بہترین وقت کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ موجودہ لمحہ ہی سب سے زیادہ اہم ہے جب ہم کسی بھی طور پر کسی کام کا آغاز کرسکتے ہیں۔کیونکہ اسی لمحہ ہم میں قوت موجود ہے کچھ کرنے کی اور جب ایک بارکام کے عواقب ونتائج سے بہرہ مند ہوگئے اور جان لیا کہ وہ ناممکن العمل نہیں یعنی آسمان سے تارے توڑنے کے مترادف نہیں اورانسانی بساط میں ممکن ہے پھر خواہ چاند پر جانے ہی کاکام کیوںنہ ہو اور وہ اپنی قوت،طاقت،استطاعت، صلاحیت،قابلیت، لیاقت،دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کام کا ارادہ کرچکاہے تو پھرکسی بھی طور پیچھے مڑکر نہ دیکھے۔بقول بہزاد لکھنوی

اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے

منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

ہاں اگرتم اس انداز میں محنت کا ہتھیار استعمال کروگے توہرکامیابی تمہارے قدم چومے گی تم اگر وسیع العلم ہوگے تو جس موضوع پر بھی قلم اٹھاؤ گے روانی سے لکھتے جاؤ گے۔جیسا کہ بہادر شاہ ظفر نے فرمایا:

محنت سے ہے عظمت کہ زمانے میں نگیں کو

بے کاوش سینہ نہ کبھی ناموری دی

ان کی باتیں ساجد کے ذہن نشین ہوگئیں اس نے اسی لمحہ سے محنت کرناشروع کی ۔اور دن رات ایک کرتے ہوئے ہرنماز کے بعد اپنے رب حضور گڑگڑاکر دعائیں مانگیں۔ جس کی وجہ سے جب سالانہ نتائج کا اعلان ہوا توواقعی خواب حقیقت بن کراس کی نظروں کے سامنے تھا۔ اس وقت والد کے کلمات کی بازگشت اسے پھرسنائی دی ” ہاں اگرتم محنت کا ہتھیار استعمال کروگے توہرکامیابی تمہارے قدم چومے گی”

Short URL: http://tinyurl.com/y2632j8y
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *