عظیم جرنیل و کاتب قرآن حضرت معاویہؓ ۔۔۔۔ تحریر: محمد معاذ

Muhammad Muaaz
Print Friendly, PDF & Email

۲۲ رجب المرجب سیدنا امیر معاویہؓ کے وصال کا دن ہے آپؓ اسلامی تاریخ کی ان چند نامور ہستیوں میں سے ایک ہے جن کے احسان سے یہ امت سبکدوش نہیں ہو سکتی حضرت معاویہؓ ایک ایسے خاندان کے چشم و چراغ تھے جو اپنی سیاست و قیادت شوکت و سطوت کے لحاظ سے تمام عرب میں مشہور تھا ہر موقع پر اس خاندان نے سیاسی اور اقتصادی مسائل میں قریش کی قیادت کے فرائض سرانجام دیے سیدنا امیر معاویہؓ کا نام و رکنیت و نسب ابو عبدالرحمن،معاویہ بن ابو سفیانؓ ،بن صخر بن حرب بن عبد شمس بن عبد مناف قریشی ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے سیدنا معاویہؓ کی والدہ کا نام ہندہ تھا ہجرت سے تقریبا ۵۱برس پیشتر مکہ میں آپؓ کی پیدائش ہوئی اعلان نبوت کے وقت آپؓ کی عمر چار برس تھی آپؓ کے والدین نے اس وقت عرب کے دستور کے مطابق آپ کی تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی مختلف علم و فنون سے آپ کو آراستہ کیا اور اس دور میں جب پڑھنے لکھنے کا رواج باالکل نہ تھا اور سارے عرب میں جہالت کا اندھیرا چھایا ہوا تھا آپ کا شمار ان چند گنے چنے لوگوں میں ہوتاتھا جو لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے مشہور مورخ محمد بن سعد طبقات میں رقم طراز ہے حضرت معاویہؓ فرمایا کرتے تھے میں عمرۃالقضاء سے پہلے ہی اسلام لے آیا مگر مدینہ جا نے سے ڈرتا تھا کیونکہ میری والدہ اس کے خلاف تھی تاہم ظاہری طور پر فتح مکہ کے موقع پر آپ نے اپنے والد کے ہمراہ اسلام لانے کا اعلان کیا آپؓ کی علمی ،پختگی اور شیفتگیْ ہی کے باعث دربار رسالت میں آپ کو خاص مقام حاصل تھا اسلام لانے کے بعد آپ حضور ﷺ کی خدمت میں رہنے لگے جلد ہی آپ کو صحابہؓ کی ایسی مقدس اور خوش نصیب جماعت میں شامل کر لیا گیا جسے آنحضرت ﷺ نے کتابت وحی کے لئے مامور فرمایا تھا چناچہ جو وحی آپ ﷺ پر نازل ہوتی آپؓ اسے قلمبند کرتے اور خطوط و مراسلہ جات کی نگرانی کا کام بھی آپؓ کے ذمہ تھا مفتی حرمین شیخ احمد بن عبداللہ طبری لکھتے ہیں حضور ﷺ کے تیرہ کاتب تھے ان میں حضرت معاویہؓ اور حضرت زیدؓ سب سے زیادہ کام کرتے تھے جبکہ حضرت امیر معاویہؓ دیر میں مسلمان ہوئے تھے تاہم متبعین رسول میں ہے آپ ایمان و اخلاص میں بہت بڑھے ہوئے تھے دعوت سے وابستگی اور اس کی طرف سے مدافعت میں بہتوں سے آگے تھے آپ ﷺ کا ان پر بڑا اعتماد تھا آپ نے انہیں ہی کتابت وحی کی خدمت سپرد فرمائی جسے آپ انتہائی خلوص کے ساتھ سرانجام دیتے رہے اس کے ساتھ حضرت معاویہؓ نے آنحضرت ﷺ کے تمام غزوات باالخصوص حنین،طائف،یمامہ اور چھوٹی چھوٹی کئی جنگی مہموں میں شرکت فرمائی خصوصاً طائف میں اپنے والد حضرت ابو سفیانؓ کے ہمراہ تبلیغ و جہاد کی اہم خدمات پیش کی اور آپؓ کے والد نے وہاں کے رئیس الاعظم بن الاسود کو حلقہ بگوش اسلام کیا جس سے خوش ہو کر آپ ﷺ نے حضرت معاویہؓ اور ان کے والد کو کثیر مال غنیمت مرحمت فرمایا جب تک آپ ﷺ بقد حیات رہے حضرت معاویہؓ آپ ﷺ کی خدمت سے جدا نہ ہوئے یہاں تک کے سفر وحضر میں بھی خدمت کا موقع تلاش کرتے رہے ایک بار رسول اللہ صلی علیہ وسلم کہیں چلے تو معاویہؓ بھی پیچھے پیچھے ساتھ ہو گئے راستہ میں حضور اکرمﷺ کو وضو کی حاجت ہوئی پیچھے مڑے تو دیکھا معاویہؓ لوٹا لئے کھڑے ہے آپ ﷺ بہت متاثر ہوئے چناچہ وضو کیلئے بیٹھے تو فرمانے لگے ’اے معاویہؓ تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں کے ساتھ درگزر کرنا ‘ حضرت معاویہؓ فرمایا کرتے تھے کہ اسی وقت مجھے امید ہو گئی تھی کہ حضور اکرم ﷺ کی پیشن گوئی صادق آئے گی اور میں کبھی نہ کبھی ضرور خلیفہ ہو کر رہو گا (ابن حجر الاصابہ جلد ۳ صفحہ ۱۳) حضور اکرم ﷺ آپؓ کی خدمت سے اتنا خوش تھے کہ کئی اہم خدمات آپؓ کے سپرد فرما دی تھی علامہ اکبر نجیب آبادی اپنی تاریخ میں رقم طراز کرتے ہیں ’’حضوار اکرم ﷺ نے اپنے باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدارت اور ان کے قیام و طعام کے انتظام واہتمام حضرت معاویہؓ کے سپرد کر دیا تھا (تاریخ الاسلام ۲ ص ۷) آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرت معاویہؓ اور آپ کے والد حضرت ابو سفیانؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت کی عہد صدیقی میں موصوف کا شمار خلافت کے اولین افراد میں ہوتا تھا تذکرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کے ابتدائی ایام میں حضرت معاویہؓ روایت حدیث کی طرف متوجہ ہوئے اور اس زمانے میں آپ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت عثمانؓ اور اپنی بہن حضرت ام حبیبہؓ سے حدیثیں روایت کی آپؓ کی روایت کی تعداد ابن حجر مکی ؒ کے مطابق ۱۲۳ ہے تاریخ اسلام کے سب سے بڑے بحری بیڑے کے موجد بھی حضرت معاویہؓ تھے اس بحری بیڑے کا ایجاد اسلام کی جدید ترقی کے حوالے سے ناقابل فراموش کارنامہ کے طور پر لکھا گیا ہے ایک سیرت نگار لکھتا ہے حضرت معاویہؓکی فطرت عالمگیر تھی ان کی ہمت کا عالی تقاضہ یہ تھا کہ ایشیاء سے نکل کر یورپ و افریقہ پر حملہ اس وقت تک ممکن نہ تھا جب تک بحری بیڑہ میسر نہ ہو آپ کی دور اندیشی اور فراست ایمانی کا یہ فیصلہ تھا کہ اگر اسلام کو بحثیت ایک نظام حیا ت د نیا پر غالب کرنا اور روم کی غیر اسلامی شوکت و سطوت کو اپنے پاؤں تلے کچلنا ہے تو اس کے لئے بحری بیڑہ وجود میں لانا پڑے گا چناچہ آپ نے عہد فاروقی میں اس کا اظہار کیا تھا جسے بعض وجوہات کی بناء پر حضرت عمر فاروقؓ نے منع کر دیا پھر آپ نے عہد عثمانی میں اس کا اصرار کیا تو اجازت مل گئی اور ۲۸ھ میں پہلا اسلامی بیڑہ روم میں اترا اور کچھ ہی دنوں بعد افریقہ اور یورپ کی زمین پر اسلامی جھنڈا لہراتا ہوا نظر آیا حضرت معاویہؓ گوں نا گوں صفات کے حامل تھے اعلی درجہ کے سیاستدان اور بہترین مدبر تھے آپ کی ذہانت و فراست کی تعریف خود حضور اکرم ﷺ نے کی تھی اور حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت ۴عمر فاروقؓ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا تم لوگ معاویہؓ کو اپنے مشوروں میں شامل کر لیا کرو اپنے معاملات میں ان کو گواہ بنا لیا کرووہ قوی امین اور مظبوط امانتدار ہے اس کے بعد خود ایک معاملہ پران سے مشورہ لیا اور آپؓ کی ذہانت کی تعریف کی لبنان کا مورخ عمر ابوانصر لکھتا ہے کہ سخاوت و فیاضی میں امیر معاویہؓ کا ہم پلہ نہ تھا آپؓ کے خزانوں کے دروازے دشمنوں اور دوستوں دونوں کیلئے یکساں طور پرکھلے رہتے تھے دادودہش اور انعاکم و اکرام کے ذریعے لوگوں کے دل جیت لیتے تھے اور اس کے ذریعے بغاوتوں کو دور کرنے اور لوگوں کو مملکت کا فرمانبردار بنانے میں مدد لیتے شروع شروع میں حضرت معاویہؓ بڑی شان کے ساتھ رہتے تھے دروازے پر دربان ہوتا زرق برق لباس پہنتے اور شان دار گھوڑے پر سواری کرتے لیکن یہ سب کچھ عزت نفس کیلئے نہ تھا بلکہ رومیوں کو مرعوب کرنے کیلئے تھا چناچہ آپ کی بعد کی زندگی میں جب آپ خلیفہ ہوئے فقیر کی تمکنت اور امیر کی مسکنت کا نمونہ نظر آتی ہیاس کے ساتھ ساتھ آپ نے نہ صرف اندرون ملک رفاہی امور کی طرف توجہ دی بلکہ ایک بہترین عسکری نظام بھی قائم فرما کر ملک کے دفاع کو مضبوط سے مظبوط تر بنا دیا جیسا کہ شروع میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ آپکا خاندان ہمیشہ سے قریش کی قیادت کرتا آرہا ہے خود آپؓ کے والد سیدنا ابو سفیانؓ ساری عمر فوج کے سپہ سالار رہے اور آپ نے بھی کئی مواقع پر فوج کی سپہ سالاری کے فرائض سرانجام دیے آپ کے عہد میں فوجیوں کی تنخواہیں دگنی کر دی گئی اور ان کی ادایئگی میں خاص تاریخ کا تعین کیا گیا آپ کے عہد میں فوج کی تعداد دو لاکھ بیس ہزار تھی علاوہ ازیں ایک ریزرو فوج کی تشکیل کی گئی اس فوج کے سپہ سالار سیدنا معاویہؓ کے خصوصی فوجی مشیر تھے جبکہ بحریہ فوج کی اگرچہ خلافت عثمانی میں آپ ہی نے تشکیل کی تھی لیکن اپنے دور خلافت میں اس میں بہت اضافہ کیا حضرت معاویہؓ نے لوگوں کی بہتری کے بہت سے کام کیے لیککن اس معاملہ میں بھی آپؓ زیہادہ تر عثمانی و فاروقی اصولوں پر عمل کرتے رہے رعایا کے بچوں کی پرورش کیلئے وظائف سب سے پہلے حضرت عمر فاروقؓ نے مقرر فرمائے تھے خلافت عثمانی میں بھی اس پر عمل ہوتا رہا مگر وقتا فوقتا اس میں تبدیلیاں ہوتی رہی آپؓ نے بھی اپنے عہد خلافت میں اس چیز کو قائم رکھا البتہ آبؓ نے اس میں یہ ترمیم کی تھی کہ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں بچہ پیدا ہوتے ہی وظیفہ شروع ہو جاتا لیکن آپ نے دودھ چھڑانے کے بعد اس کا وظیفہ جاری فرمایا آپؓ نے غیر مسلموں کے حقوق کا بھی ہر حال میں تحفظ کیا آپ نے ہر ممکن کوشش کی کہ غیر مسلموں کے جان و مال کی حفاظت ہو اور ان کے گورنروں اور حکام کے ہاتھوں کسی غیر مسلم کی جان اور مال کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے اسلامی تاریخ میں حضرت معاویہؓ واحد،مدبر،منتظم و اعلی صفات کے حامل حکمران تھے جنہوں نے اسلامی فتوحات کا دائرہ بلا عرب و عجبم اور یورپ و افریقہ تک وسیع کیا نہ صرف یہ کہ عہد فاروقی کی ۲۳ لاکھ مربع میل کی فتوحات کو ترقی زار بنا دیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کرکابل،قندھار،روڈس،صقلیہ،شمالی افریقہ ،درہ خیبر،بولان ،قلات اور ایشیائی ممالک کے دروازوں پر آکے دستک دی ۔

Short URL: http://tinyurl.com/hkk95z4
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *