اسلام میں حقوق والدین اور فرائض اولاد۔۔۔۔ تحریر: علامہ محمد تبسم بشیر اویسی ، نارووال

Allama Muhammad Bashir Awaisi
Print Friendly, PDF & Email

اللہ تعالیٰ نے انسان کی افزائش کے لئے مرد و عورت کے نکاح کو لازمی قرار دیا ۔ جب نسل انسانی ان سے رواں ہوتی ہے تو ان سے پیدا ہونے والے بچوں کے یہ والدین ٹھہرے ۔ پھر ان کے احترام کے لئے اسلام نے ان کے حقوق اور اولاد کے فرائض متعین کیے ۔یہاں ہم ان حقوق کا ذکر کرتے ہیں ،جو اُن کی زندگی میں اولاد پر واجب و لازم ہیں ۔قرآن کریم میں رب کریم جل جلالہ نے ،والدین کے حقوق کا ذکر اپنے حق کے ساتھ فرمایا ۔اِنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ۔’’حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔‘‘
تو صاف ظاہر ہے کہ ماں باپ کا درجہ ،اللہ تعالیٰ و رسول کریم ﷺ کے بعد تمام انسانی رشتوں میں سب سے بڑا ہے ۔اسی لیے اللہ و رسول ﷺکی اطاعت کے ساتھ ان کی اطاعت اور جا بجا وَبِا الْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ۔’’ماں باپ کے ساتھ بھلائی‘‘کا تاکید ی حکم دیا گیا ہے ،پھر ماں باپ میں بھی ماں کا حق ،باپ سے زیادہ رکھا گیا ہے ۔عورت کی فطری کمزوری ،بیچارگی ،حمل و وضع حمل اور تربیت اولاد، پر ورش بچگان کو تکلیفوں کی ہنسی خوشی برداشت کرنا ۔ماں کی بڑائی اور باپ کے حق سے اس کے حقوق مقدم ہونیکی بڑی دلیل ہے ۔قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے ۔
۔’’اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی کہ (ان کافرمانبردار رہے اور اُن کے ساتھ نیک سلوک کرے۔)‘‘۔
یہ آیت اس امر کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے کہ اگر چہ اولاد پر ماں باپ دونوں ہی کی اطاعت و خدمت گزاری لازم ہے لیکن ماں کی خدمت کی اہمیت اس بنا پر کہیں زیادہ ہے کہ وہ اولاد کے لئے تکلیفیں اٹھاتی اور مشقتیں جھیلتی ہے اور حمل و وضع حمل کے دوران شدتوں پر شدتیں برداشت کرتی ہے ۔
اس بات کی مزید تاکید اس ارشاد نبویﷺ سے ہوتی ہے کہ ایک شخص نے خدمتِ حضوراقدس ﷺمیں آکر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے ؟فرمایا:’’ تیری ماں‘‘ پوچھا پھر کون ؟فرمایا ’’تیری ماں‘‘ اس نے عرض کیا پھر کون ؟فرمایا :’’تیری ماں‘‘ تین دفعہ آپ نے یہی جواب دیا ۔ چوتھی دفعہ پوچھنے پر ارشاد فرمایا۔’’تیرا باپ‘‘(بخاری)۔
حضور ﷺ کا یہ ارشاد مبارک ،ٹھیک ٹھیک اس آیہ کریمہ کی ترجمانی ہے کیونکہ اس میں بھی ماں کے تہرے حق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
۔1:۔ اس کی ماں نے اُسے مشقت اٹھا کر پیٹ میں رکھا ۔
۔2:۔ شدتیں اور دردِ زہ کی تکلیفیں جھیل کراسے جنا۔
۔3:۔ اور اس کے حمل اور دودھ چھڑا نے میں 30مہینے اذیت میں گزارے ۔
ایسی حالت میں کیا ماں سے بڑھ کر ،انسان اپنے وجود میں مخلوقات میں کسی اور کا محتاج ہو سکتا ہے ۔اس لیے شریعت محمدیﷺ نے اپنی تعلیم میں جو بلند سے بلند مرتبہ ماں کو بخشا ہے وہ ضرور اس کی مستحق ہے ۔
اللّٰہ تعالیٰ کا ایک اور فرمان:معراج مبارک کے احکام میں اس وحدہٗ لا شریک بے ہمتا کی یکتائی و توحید کے بعد ،والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم اور ان کی اطاعت و خدمت گزاری اور تکریم و تعظیم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ کہ شریعت اسلامیہ میں خدمت والدین کا درجہ کتنا اہم و بلند ہے ۔قرآن شریف کا یہ ارشاد گرامی تلاوت فرمائیے۔فرمان باری ہے :ترجمہ ’’اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجواور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور اگر تیرے سامنے اُن میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن سے’’ہوں‘‘ نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور اُن سے تعظیم کی بات کہنا اور اُن کے لئے عاجزی کا بازو بچھا ،نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب ! تو ان دونوں پر رحم کر، جیسا کہ ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا۔‘‘
تو حید و خدا پرستی کی تعلیم سے متصلاً ہی والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ،نیکی اور خدمتگزاری کی تاکید سے آپ ہی اس کی اہمیت ظاہر ہے ۔پھر بھی مزید اہتمام و تاکید کے لئے اس نے بتایا اور اولاد کو سمجھا یا کہ :’’اگر تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔‘‘
خوب یاد رکھنا چاہیے کہ تہذیب فرنگ کی طرح ، شریعت اسلامیہ کا یہ فتویٰ نہیں کہ لڑکا جب عاقل و بالغ اور صاحب اختیار ہو جائے تو بیوی کے ساتھ اپنا الگ گھر بار کر لے اور بوڑھے ماں باپ سے تعلق اگر رکھے بھی تو محض دور کا اور ضابطہ کا ۔بلکہ صاف و اشگاف الفاظ میں حکم دیا جا رہا ہے ،ان کی ہر طرح خدمت گزاری اور دلجوئی کا خاص کر اس حالت میں کہ والدین بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں ضعف کا غلبہ ہو چکا ہے ۔طاقت ختم ہو چکی ہے ۔توانائی اور جسمانی قوت رخصت ہو چکی ہے ۔عقل میں فتور سا آچکا ہے ۔مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہو چکا ہے ۔ہوش و حواس میں گڑ بڑ ہے اور والدین قدم قدم پر اولاد کی خدمت و دستگیری کے محتاج بن گئے ہیں اور بڑھاپے کی لپیٹ میں آکر ،والدین معذور ہو کر دوسروں کی راہ تکنے لگے ہیں اور عالم یہ ہے کہ اُن کی خدمت ،طبیعت پر گراں گزرنے لگتی ہے ۔مگر شریعت مطہرہ حکم دیتی ہے کہ خبردار اُن کی دلجوئی اور خدمت گزاری میں ذرا برابر فرق نہ آنے پائے اور ہر صورت ان کی خبر گیری کی جائے اور ہمہ اوقات ان کی ضرورت کا لحاظ رکھ کر اُن کی خدمت بجا لائی جائے ۔اسلام کی نظر میں وہی اولاد سعادت مند اولاد ہے جو خصوصاً والدین کی ضعیفی میں ان کی خدمت و دلجوئی میں مصروف رہے ۔
غور فرمائیں کہ اسی دنیا میں اسی سطح زمین پر ایسی ایسی مہذب و شائستہ قومیں بھی گزری ہیں جن کے یہاں دستور یہ تھا کہ جب والدین بوڑھے ہو کر قوم کے لئے عضو معطل و بیکار بلکہ قوم پر ایک قسم کا بوجھ ہو جاتے تھے تو سعادت مند صاحبزادہ انہیں لے جا کر کسی سنسان پہاڑی پر چھوڑ آتا تھا کہ وہیں پڑے پڑے مر جائیں یا کسی جنگلی جانور کی غذا بن جائیں۔
یہ صرف اسلام ہے جس نے بوڑھے والدین کی خدمت گزاری کا اتنا اہتمام فرمایا کہ ان کے آبگینوں کو ٹھیس نہ لگنے دی۔ ایک حدیث شریف میں یہ مضمون آیا ہے کہ بڑا بدبخت و بد قسمت ہے وہ شخص جو اپنے والدین کا بڑھاپا پائے ۔پھر انہیں خوش کر کے ان کی نیک دعاؤں سے اپنے آپ کو جنت کا مستحق نہ بنالے آگے فرمایا ۔فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ’’تو اُن سے ’’ہوں‘‘ بھی نہ کہنا ۔‘‘
حکم قرآن سے مراد صرف لفظ اُف کے تلفظ سے روکنا نہیں بلکہ مقصود کلام یہ ہے کہ والدین کو قولاً یا فعلاً بڑی یا چھوٹی ،کسی قسم کی اذیت پہنچانا جائز نہیں ،یعنی نہ کوئی ایسی حرکت کی جائے اور نہ زبان سے کوئی ایسا کلمہ نکالا جائے جس سے یہ سمجھا جائے کہ ان کی طبیعت پر کچھ گرانی ہے ۔ہر ذی ہوش سمجھ سکتا ہے کہ جب ماں باپ کے سامنے ’’ہوں‘‘ کرنے کی بھی ممانعت ہو گئی تو ظاہر ہے کہ جو چیزیں اس سے بڑھ کر اُن کے مقابلہ میں گستاخانہ یا اُن کے حق میں تکلیف دہ ہیں ان کی ممانعت تو کہیں زائد ہو گی۔
آگے حکم ہوتا ہے ۔وَلَا تَنْھَرْ ھُمَا ۔’’اور انہیں نہ جھڑکنا۔‘‘وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔’’اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ۔‘‘۔
یعنی جب اُن سے کسی معاملہ میں گفتگو کرنے کا موقع آئے تو حُسن ادب کے ساتھ اُن سے خطاب کیا جائے کہ کسی طور پر بے ادبی کا شائبہ بھی نہ آنے پائے بلکہ اس طرح کلام کرے جیسے غلا م و خادم اپنے آقا و مخدوم سے کرتا ہے ۔
وَبِا الْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔سے اگر والدین کے ساتھ عمل میں لطف و نرمی کا حکم نکلا تو ۔فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّّ وَّلَا تَنْھَرْ ھُمَا۔سے قول میں ان کے ساتھ ادب و تمیز داری کی تاکید نکلی اور وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔سے مخاطبت و گفتگو میں اُن کے ادب و عظمت کے لحاظ رکھنے کا حکم نکل آیا ۔یہ ہے اسلام میں ماں باپ کی عظمت کا تصور ۔وَخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ۔’’اور اُن کے لئے عاجز ی کا باز و بچھا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے قول کریم کے بعد اولاد کو حکم دیا کہ والدین کے ساتھ نرمی و تواضع ،خاکساری و انکساری سے پیش آؤ اور ان کے تھکے وقت میں شفقت و محبت کا بر تاؤ کرو کہ اُن سے گفتگو ہی نہ کی جائے ۔مگر فروتنی ،خاکساری اور تواضع و انکساری کے ساتھ اور اگر کوئی بات ان سے اپنے مزاج کے خلاف سر زد ہو جائے تو اسے بہر حال برداشت کی عادت ڈالی جائے اور خواہ کتنی ہی خدمت گزاری ان کی کی جائے پھر بھی ان سے یہی کہہ کے میں خدمت کا حق ادا نہ کر سکا ۔میری تقصیر اور کوتاہی کو معاف فرما دیں۔
یہ حسن سلوک و قول حسن ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے اور ان کی نیک دعاؤں کے حصول کا اعلیٰ ذریعہ ہے اور والدین کی نیک دعائیں اولاد کے حق میں نعمت ہیں ۔وَقُلَّ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا۔’’اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کرو‘‘مدعا یہ ہے کہ دنیا میں والدین کے ساتھ بہتر سلوک اور خدمت میں کتنا ہی مبالغہ کیا جائے لیکن والدین کے احسان کا حق ادا نہیں ہوتا ۔اس لئے بندہ کو چاہئے کہ بارگاہ الہٰی میں اُن پر فضل و کرم فرمانے کی دعا کرے اور عرض کرے کہ یا رب میری خدمتیں اُن کے عظیم احسانات کی جزا نہیں ہو سکتیں تو ان پر رحم فرما اور رحمت کر۔
والدین کے حق میں دعا ئے رحمت کرتے رہنے سے خود اپنے دل میں بھی اُن کے متعلق محبت و کشش کے جذبات بیدار ہو جائیں گے ۔یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے جب جس کا جی چاہے اس کا تجربہ کر کے دیکھ لے ۔
اور پھر یہ دعا کر نا کہ اے پروردگار ان پر رحمت فرما’’گویا یہ دعا کرنا ہے کہ ‘‘اے پروردگار انہیں دنیا و آخرت کی ،ہر قسم کی بھلائی سے بہرہ ور فرما ۔‘‘اس لئے کہ لفظ رحمۃ عربی میں جامعیت ہی ایسی رکھتا ہے کہ دین و دنیا کی تمام حسنات کو شامل ہے ۔کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرً ا۔’’جیسا کہ ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا‘‘یہاں کس حکمت کے ساتھ جوان تندرست و تنو مند اولاد کو خود اس کے بچپن کی بے کسی و بے بسی یاد دلا دی گئی ۔قدرۃً یہاں پہنچ کر ،ہر انسان کو یہ خیال آئے گا کہ ایک دن مجھے بھی ،اسی طرح ضعیف اور معذور ہو کر خود اپنی اولاد کا محتاج و دست نگر ہونا ہے اور یہی خیال والدین کی خدمت گزاری پر اور زیادہ آمادہ کرے گااور یہیں سے ضمناً یہ بات بھی نکل آئی کہ معاشرتِ اسلامی میں بچوں کی تربیت و پرورش والدین ہی کا حق ہے اور ہر صالح تمدن میں یہی ہوتا بھی ہے ۔پرورش بچگان کا یہ حق والدین سے لے کر حکومت یا کسی ادارے کو سونپ دینا فطرت انسانی اور قدرتِ ربانی کے منافی ہے اور اس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے والدین اور اولاد میں اجنبیت ۔ہر ایک کا دوسرے سے غیر متعلق اور محض اجنبی ہونا اور یہ ذریعہ ہی انسانی گمراہی وقسات قلبی کا دروازہ کھولتا ہے تو فتنہ و فساد نئے رنگ و روپ میں سرا بھارتے ہیں ۔
آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مسلمان کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا جائز اور اُسے فائدہ پہنچانے والی ہے ۔مُردوں کے ایصال ثواب میں بھی اُن کے لئے دعائے رحمت و مغفرت ہوتی ہے ۔لہٰذا ایصال ثواب کے لئے یہ آیت اصل ہے ۔
احادیث کریمہ اور حقوق والدین:قرآن کریم کی طرح احادیث نبوی ﷺ میں بھی حقوق والدین کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے ۔اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میں جنت میں گیا ۔اُس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی میں نے پوچھا ۔یہ کون پڑھتا ہے ۔‘‘فرشتوں نے کہا ’’حارثہ بن نعمان ہیں ‘‘ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا یہی حال ہے احسان کا یہی حال ہے احسان کا ۔حارثہ اپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے ۔(بیہقی)۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ :پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے ۔(ترمذی)۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :جس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے والدین کا فرمانبردار ہے اس کے لئے صبح ہی کو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک ہی ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں صبح کی کہ والدین کے متعلق خدا کی نا فرمانی کرتا ہے ۔(اُن کے حقوق ادا نہیں کرتا ) اس کے لئے صبح ہی کو جہنم کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے ۔ ایک شخص نے عرض کی اگر چہ ماں باپ اس پر ظلم کریں فرمایا اگر چہ ظلم کریں اگر چہ ظلم کریں اگر چہ ظلم کریں۔(بیہقی)۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :جب اولاد اپنے والدین کی طرف نظرِ رحمت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر نظر کے بدلے حج مبرور کا ثواب لکھ دیتا ہے۔لوگوں نے کہا اگر چہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے ؟ فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ بڑا ہے اور اطیب ہے یعنی اسے سب کچھ قدرت ہے اور اس سے پاک ہے کہ اُس کو اس کے دین سے عاجز کیا جائے ۔(بیہقی )۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :کسی کے ماں باپ دونوں یا ایک کا انتقال ہو گیا اور بچہ ان کی (زندگی میں) نافرمانی کرتا تھا اب اُن کے لئے ہمیشہ استغفار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو نیکو کار لکھ دیتا ہے ۔(بیہقی)۔
ایک صحابی حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے ۔حضور سے مشورہ لینے حاضر ہوا ہوں۔ ارشاد فرمایا !تیری ماں ہے ۔عرض کی ہاں فرمایا اُس کی خدمت لازم کر لے کہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے ۔(احمد و نسائی )۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :زیادہ احسان کرنے والا (اپنے باپ کے ساتھ )وہ ہے جو اپنے با پ کے دوستوں کے ساتھ ،باپ کے نہ ہونے کی صورت میں احسان کرے ۔یعنی جب باپ مر گیا یا کہیں چلا گیا ہو ۔(مسلم)۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے ۔لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا کوئی اپنے والدین کو بھی گالی دیتا ہے ؟ فرمایا ہاں اس کی صورت یہ ہے کہ یہ دوسرے کے بات کو گالی دیتا ہے ۔وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے ۔(مسلم و بخاری)۔
اللہ اللہ صحابہ کرام جنہوں نے عرب کے زمانۂ جاہلیت کودیکھا تھا ۔اپنے ماں باپ کو کوئی کیوں کر گالی دے گا۔ یعنی یہ بات ان کی سمجھ سے باہر تھی۔حضور اکرم ﷺ نے بتایا کہ اس سے مراد دوسرے سے گالی دلوانا ہے اور اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ بعض لوگ خود اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتے ہیں اور کچھ لحاظ نہیں کرتے اور ذرا بھی نہیں شرماتے ۔
والدین کی نا فرمانی کا وبال:جہاں قرآن وحدیث میں والدین کی عظمت پر احکامات آئے ہیں وہاں والدین کی نا فرمانی پر وعیدیں بھی آئی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔
ابن ماجہ نے ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ !والدین کا اولاد پر کیا حق ہے ؟ فرمایا کہ وہ دونوں تیری جنت و دوزخ ہیں۔ یعنی اُن کو راضی رکھنے سے جنت ملے گی اور ناراض رکھنے سے دوزخ کے مستحق ہو گے ۔
نسائی و دارمی نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ احسان جتانے والا اور والدین کی نا فرمانی کرنے والا اور شراب خوری کی مداومت کرنے (ہمیشہ پینے )والا جنت میں نہ جائے گا۔
حاکم نے مستدرک میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سب لوگ منبر کے پاس حاضر ہو جائیں ۔ہم سب حاضر ہوئے ۔جب رسول اللہ ﷺ منبر کے پہلے درجہ پر چڑھے تو ارشاد فرمایا’’آمین‘‘جب دوسرے پر چڑھے کہا ’’آمین‘‘ جب تیسرے پر چڑھے ارشاد فرمایا ’’آمین‘‘ جب حضور اکرم ﷺ منبر سے اترے ،ہم نے عرض کی حضور آج ایسی بات سنی کہ کبھی ایسی نہ سنا کرتے تھے ۔فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آئے اور کہا کہ ’’اُسے رحمت الٰہی سے دوری ہو ۔جسنے رمضان کا مہینہ پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی ۔‘‘ اس پر میں نے آمین کہا ۔ جب دوسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا ’’اس شخص کے لئے رحمت سے دوری ہو جس کے سامنے حضور اکرم ﷺ کا ذکر ہو او ر وہ درود نہ پڑھے ‘‘ اس پر میں نے کہا آمین ۔جب تیسرے درجے پر چڑھا ۔انہوں نے کہا اس کے لئے رحمت سے دوری ہو جس کے ماں باپ دونوں یا ایک کو بڑھاپا آیا اور انہوں نے اسے جنت میں داخل نہ کیا ۔‘‘میں نے کہا آمین ۔
بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جتنے گناہ ہیں ۔اُن میں سے جس کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے ،سوائے والدین کی نافرمانی کے ۔کہ اس کی سز ا زندگی میں موت سے پہلے دی جاتی ہے ۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ والدین کا فرمانبردار جہنمی نہ ہو گا اور اُن کا نافرمان کچھ بھی عمل کرے گرفتار عذاب ہو گا ۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ سید عالم ﷺ نے فرمایا ’’والدین کی نافرمانی سے بچو ،اس لئے کہ جنت کی خوشبو ہزار برس کی راہ تک آتی ہے ۔نافرمان وہ خوشبو نہ پائے گا۔ نہ قاطع رحم (رشتہ و قرابت کو کاٹنے والا) نہ بوڑھا زنا کار اور نہ تکبر سے اپنی(شلوار خواہ پاجامہ یا تہ بند )ٹخنوں سے نیچے لٹکانیوالا ۔‘‘
طبرانی و حاکم نے روایت کی کہ اللہ تعالیٰ نے ساتوں آسمانوں سے لعنت کی اس پر جو اپنے والدین کی نافرمانی کرے ۔
ایک حدیث میں مروی ہے کہ ماں باپ کا نافرمان ،جب دفن کیا جاتا ہے تو (جوش غضب میں )قبر اُسے ایسا دباتی ہے کہ اس کی پسلیاں ،ادھر سے اُدھر ہو جاتی ہیں ۔
کعب احبار سے روایت ہے کہ والدین کی نافرمانی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ہلاک کرنے میں مہلت نہیں دیتاتاکہ اس پر عذاب میں جلدی ہو اور ماں با پ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے کی عمر بڑھا دیتا ہے تاکہ اور بھی حسن سلوک کرے ۔
وہب بن منبہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی کہ اے موسیٰ اپنے والدین کی تعظیم و توقیر کرو ۔جس نے والدین کی عزت بڑھائی ۔ ہم اس کی عمر بڑھائیں گے اور اس کو ایسی اولاد دیں گے جو اس کے ساتھ نیک سلوک کرے اور جو والدین کی نافرمانی کرتا ہے ۔ہم اس کی عمر گھٹا دیں گے اور اس کو ایسی اولاد دیں گے کہ اس کو ستائے اور اس کی نا فرمانی کرے ۔
حدیث پاک میں مروی ہے کہ شب معراج حضور اقدس ﷺ کا گزر ایک جماعت پر ہوا تو آپ ﷺ نے ملاحظہ فرمایا کہ وہ لوگ آگ کی شاخوں میں باندھ کر لٹکا دئیے گئے ہیں ۔دریافت فرمایا’’جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا ۔یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے والدین کو برا بھلا کہا کرتے تھے ۔‘‘
معزز قارئین !ان روایات کو دیکھیں اور ماں باپ کے حقوق کو پہچانیں ۔ اُن کی خدمت و تعظیم کو دارین میں سعادت کا ذریعہ جانیں اور اُن کے اطاعت گزار بن کر رہیں۔
صحیح بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ فرماتے ہیں ۔’’اگلے زمانے کے تین شخص کہیں جا رہے تھے ۔ سونے کے وقت ایک غار کے پاس پہنچے اور اس میں تینوں داخل ہو گئے ۔پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے گری جس نے غارکو بند کر دیا ۔ انہوں نے کہا کہ اب اس سے نجات کی صورت نہیں ۔بجز اس کے کہ تم نے جو نیک کام کیا ہو اس کے وسیلے سے اللہ سے دعا کرو ۔ ایک نے کہا ، اے اللہ ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے ۔جب میں جنگل سے بکریا ں چرا کر لاتا تو دودھ دھو کر سب سے پہلے انہیں پلاتا ۔ان سے پہلے نہ اپنے بال بچوں کو پلاتا ۔نہ لونڈی و غلام کو دیتا ۔ ایک دن جنگل میں دور چلا گیا ۔رات میں جانوروں کو لے کر ایسے وقت میں آیا کہ والدین سو گئے تھے ۔میں دودھ لے کر اُن کے پاس پہنچا تو سوئے ہوئے تھے ۔بچے بھوک سے چلا رہے تھے ۔ مگر میں نے والدین سے پہلے بچوں کو پلانا پسند نہ کیا اور یہ بھی پسند نہ کیا کہ انہیں سوتے سے جگادوں اور دودھ کا پیالہ ہاتھ پر رکھے ہوئے ،اُن کے جاگنے کے انتظار میں رہا یہانتک کہ صبح نمودار ہو گئی ۔اب وہ جاگے اور دودھ پیا ۔اے اللہ ! اگر میں نے یہ کام تیری خوشنودی کے لئے کیا ہے تو اس چٹان کو کچھ ہٹا دے ۔‘‘اس کا کہنا تھا کہ چٹان کچھ سر ک گئی ۔مگر اتنی نہیں ہٹی کہ یہ لوگ غار سے نکل سکیں۔
دوسرے نے کہا اے اللہ ! میرے چچا کی لڑکی تھی جس کو میں بہت محبوب رکھتا تھا ۔میں نے اُس کے ساتھ بر ے کام کا ارادہ کیا ۔اُس نے انکار کر دیا۔ پھر وہ قحط کی مصیبت میں مبتلا ہوئی ۔میرے پاس کچھ مانگنے کو آئی ۔ میں نے اسے ایک سو بیس اشرفیاں دیں کہ میرے ساتھ خلوت کرے وہ راضی ہو گئی ۔ جب مجھے اس پر قابو ملا تو وہ بولی کہ ’’میں ناجائز طور پر اس مہر کا توڑنا تیرے لئے حلال نہیں کرتی ۔‘‘ میں اس کام کو گناہ سمجھ کر ہٹ گیا اور اشرفیاں جو دے چکا تھا وہ بھی چھوڑ دیں ۔الہٰی یہ کام تیری رضا جوئی کے لئے میں نے کیا تو اس چٹان کو ہٹا دے ۔‘‘اتنا کہتے ہی چٹان کچھ اور سرک گئی مگر اتنی نہیں ہٹی کہ یہ اس سے باہر آسکیں۔
تیسرے نے کہا اے اللہ ! میں نے چند شخصوں کو مزدوری پر رکھا تھا ۔ان سب کو مزدوریاں دیں ۔ایک شخص مزدوری چھوڑ کر چلا گیا ۔اس کی مزدوری کو میں نے بڑھایا یعنی اس سے تجار ت وغیرہ کوئی ایسا کام کیا جس سے اُس میں اضافہ ہوا اور اس کو میں نے بڑھا کر بہت کچھ کر لیا ۔ وہ ایک زمانے کے بعد آیا اور کہنے لگا ’’اے خدا کے بندے میری مزدوری مجھے دیدے ۔میں نے کہا یہ جو کچھ اونٹ گائے بیل بکریاں غلام تو دیکھ رہا ہے ،یہ سب تیری ہی مزدوری کا ہے ۔‘‘ سب لے لے ۔وہ بولا اے بندۂ خدا مجھ سے مذاق نہ کر ۔میں نے کہا مذاق نہیں کرتا ہوں ۔یہ سب تیرا ہی ہے لے جا ۔وہ سب کچھ لے کر چلا گیا ۔الہٰی اگر یہ کام میں نے تیری رضا کے لئے کیا ہے تو اِسے ہٹا دے ۔وہ پتھر ہٹ گیا اور یہ تینوں اس غار سے نکل کر چلے گئے ۔‘‘
ایک نوجوان کا نام علقمہ تھا جسے نمازیں پڑھنے ،روزے رکھنے اور صدقہ و خیرات دینے کا بڑا شوق تھا ۔کبھی اس میں کوتاہی نہ کرتا ۔اتفاقاً وہ بیمار پڑا اور اس کی بیماری طول پکڑ گئی ۔اس نے اپنی بی بی کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت مبارک میں بھیجا ،وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ۔’’ یا رسول اللہ ! میر ا شوہر علقمہ حالتِ نزع میں ہے ۔‘‘حضور اقدس ﷺ نے ایک دو صحابہ کو بھیجا کہ جا کر کلمہ کی تلقین کریں ۔اُسے تلقین کی گئی لیکن کوشش رائیگاں گئی اور کلمہ طیبہ اس کی زبان سے ادا نہ ہوا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے واپس آکر حضور اکرم ﷺ کو مطلع کیا ۔آپ نے فرمایا کہ ’’ اس کے والدین میں سے کوئی زندہ ہے ‘‘؟لوگوں نے کہا اس کی بوڑھی ماں زندہ ہے ۔
آپ ﷺ نے اُس کے پاس اطلاع بھیجی کہ اگر تو آسکتی ہے تو خیر ،ورنہ میں خود تیرے پاس آؤں گا ۔ اس نے کہا میری جان آپ ﷺپر قربان ۔میں خود چلوں گی اور عصا ٹیکتی ہوئی حاضر خدمت ہوئی اور سلام کیا ۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’اے علقمہ کی ماں !سچ سچ بیان کرنا ،ورنہ میرے پاس وحی آتی ہے۔(حقیقت معلوم ہو جائے گی ) تیرے فرزند علقمہ کا کیا حال رہا ہے ؟ اس نے جواب دیا ،یا رسول اللہﷺ ! وہ نمازیں بہت پڑھتا تھا ۔روزے بھی بہت رکھتا تھا اور خیر خیرات بھی بہت کرتا تھا ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا تو اس سے خوش تھی ۔اس نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ !(ﷺ) ’’میں ہمیشہ اس کی طرف سے رنجیدہ رہی ۔‘‘آپ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا یا رسول اللہ !(ﷺ)وہ اپنی بی بی کی سنتا اور مانتا تھا اور میری نا فرمانی کیا کرتا تھا ۔آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تیری ناراضگی اس کے منہ سے کلمہ شہادت نہیں نکلنے دیتی ۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ بلال رضی اللہ عنہ جاؤ اور لکڑیاں جمع کرو۔عورت نے کہا کہ یا رسول اللہ !(ﷺ) یہ کس لئے ؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں علقمہ کو آگ میں جلا ؤں گا۔ وہ بولی یا رسول اللہ !(ﷺ)میں اسے برداشت نہ کر سکوں گی ۔ارشاد فرمایا۔ اے علقمہ کی ماں اللہ کا عذاب تو اور بھی زیادہ سخت اور بہت عرصہ تک رہنے والا ہے ۔اگر تو اس کی بخشش چاہتی ہے تو اس سے راضی ہو جا (اور اس کی تقصیر معاف کر دے ) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔جب تک تو اُس سے راضی نہ ہو گی (اور معاف نہ کرے گی ) اس کی نمازیں اس کو نہ فائد ہ پہنچائیں گی اور نہ روزے مفید ہوں گے اور نہ اس کا صدقہ و خیرات ۔‘‘
(ماں آخر ماں ہوتی ہے )وہ چلا اٹھی کہ یا رسول اللہ !(ﷺ) میں اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں نیز تمام مسلمانوں کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میں اپنے لڑکے علقمہ سے راضی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ معلوم کر و وہ کلمہ پڑھتا ہے یا نہیں ۔آپ نے دیکھا کہ وہ کلمہ شہادت پڑھ رہا ہے ۔آکر حضور اکرم ﷺ کو اطلاع دی ۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ لوگو! علقمہ کی ماں کی رنجش نے اُسے کلمہ خوانی سے باز رکھا تھا وہ راضی ہو گئی تو علقمہ کو کلمہ پڑھنا نصیب ہوا ۔علقمہ کا اسی روز انتقال ہو گیا ۔خود حضور اکرم ﷺ نے تجہیز و تکفین میں شرکت فرمائی ۔
خلاصۂ کلام: قرآن کریم و احادیث شریفہ نے والدین کی خدمت گزاری و اطاعت شعاری کو جو اہمیت دی ہے اس کی روشنی میں ہر مسلمان پر یہ بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کا عمر کے ہر حصے میں عموماً اور اُن کی ضعیفی و کبرسنی میں خصوصاً مطیع و فرمانبردار اور اطاعت گزار رہے ۔اُن کی خدمت کو موجب نجات جانے ۔ اُن کے جملہ حقوق سے انحراف نہ کرے ۔کبھی ان کی ضرورتوں سے بے نیازی نہ برتے ۔بلکہ خود اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو بھی ان کے اکرام و احترام کا پابند بنائے ۔خصوصاً بڑھاپے میں اسی طرح ان کی خدمت بجالائے اور دوسروں کو سکھائے جس طرح اس کے بچپن میں وہ اس کی پرورش اور ناز برداری کرتے رہے ۔
اس کے برخلاف بڑی بد نصیبی اور بد بختی ہے مسلمان کی کہ وہ اپنے ماں باپ کے مقابل آئے اور ان کی مشقتوں اور اذیت پسندیوں کو یہ کہہ کر خاک میں ملا دے کہ وہ اُن کا فرض تھا جسے وہ بجا لائے ۔کیا ہم پر احسان کیا ؟
معزز قارئین ! مانا کہ ان کا فرض تھا جسے انہوں نے ادا کیا ۔لیکن جس شریعت نے والدین پر ،اولاد کی پرورش ،تربیت فرض کی ۔اسی نے اولاد پر اُن کی اطاعت گزار ی اور دلجوئی واجب ٹھہرائی ۔تو تم اپنے فرض سے کیوں جی چراتے ہو ۔
ہم یہاں وہ بات پھر دہرائے دیتے ہیں جو ابتدائی حصوں میں بیان کر چکے ہیں کہ ۔
بالجملہ والدین کا حق وہ نہیں کہ انسان اس سے کبھی عہدہ بر آو سبکدوش ہو سکے ۔ماں ،باپ ،اولاد کی حیات و وجود کے سبب ہیں تو جو کچھ نعمتیں دینی و دیناوی پائے گا ۔ سب انہی کے طفیل ہیں کہ ہر نعمت و مال و جود پر موقوف ہے او ر وجود کے سبب وہ ہوئے ۔تو صرف ماں باپ ہونا ہی ایسے عظیم حق کا موجب ہے جس سے آدمی بری الذمہ کبھی نہیں ہو سکتا ۔ نہ کہ اس کے ساتھ اس کی پرورش میں ان کی کوششیں، اس کے آرام کے لئے ان کی تکلیفیں، خصوصاً پیٹ میں رکھنے ،پیدا ہونے اور دودھ پلانے میں ماں کی اذیتیں ۔ان کا شکر کہاں تک ادا ہو سکتا ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ وہ اس کے لئے اللہ و رسول ﷺ کے لئے سائے اور ان کی ربوبیت و رحمت کے مظہر ہیں ۔ لہٰذا قرآن عظیم میں اللہ جل جلا لہ نے اپنے حق کے ساتھ ان کا حق فرمایا:اَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ۔’’حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔‘‘
حدیث میں ہے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے حاضر ہو کر عرض کی ۔یا رسول اللہﷺ ! ایک راہ میں ایسے گرم پتھروں پر ،کہ اگر گوشت کا ٹکڑا ان پر ڈالا جاتاتو کباب ہو جاتا ،چھ میل تک اپنی ماں کو اپنی گردن پر سوار کر کے لے گیا ہوں کیا اب میں اُس کے حق سے بر ی الذمہ ہو گیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ تیرے پیدا ہونے میں جس قدر دردوں کے جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید یہ اُن میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ بھی نہ ہو سکے ۔(طبرانی )۔
ایک ضروری تنبیہہ:والدین کی اطاعت و فرماں برداری کا حکم تو قرآن کریم و احادیث کریمہ میں بار بار اور عام بہ تاکید تمام آیا ہے اور اطاعت والدین اپنی جگہ نہایت اہم وضروری شے ہے ۔بلکہ اسلام کی مجلسی اور معاشرتی زندگی کی تو بنیاد ہی اتحاد زوجین کی طرح اطاعت والدین پر رکھی گئی ہے ۔لیکن اگر کسی کے ماں باپ مشرک ہوں اور عقیدۂ توحید پر زد پڑتی ہو تو کیا اب بھی اس خاص مد میں ان کی اطاعت کی جائے ؟قرآن کریم اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ :فَلَا تُطِعْھُمَا ۔’’ان کا کہنا نہ مان ۔‘‘
صاف ظاہر ہے کہ اب وہ فریضہ اطاعت ،ساقط ہو جائے گا اور اس باب میں ان کی اطاعت، اطاعت نہیں بلکہ عین معصیت بن جائے گی ۔کیونکہ اس میں خالق کی صریح نافرمانی ہے خالق کی نا فرمانی کرنے میں کسی کی اطاعت روا نہیں ۔البتہ یہ حکم اس حال میں بھی قائم ہے کہصَاحِبُھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفاً۔’’دنیا میں اچھی طرح ان کا ساتھ دو ۔‘‘
یعنی دنیاوی معاملات و حاجات ،خوردونوش میں اُن کے ساتھ حسن سلوک حسن اخلاق اور احسان و تحمل کے ساتھ پیش آنا چاہیے ۔والدین کفر و شرک میں ملوث ہوں ۔تب بھی انہیں عضو معطل بنا کر چھوڑ دینا اور ان کی خدمت گزاری سے دست کش ہو جانا شریعت مطہرہ کو ہر گز پسند نہیں ۔والدین کی اطاعت گزاری بہر صورت واجب ہے ۔ بجز اس کے کہ ان کی اطاعت گزاری اللہ تعالیٰ کی معصیت کو لازم نہ ہو جائے ۔‘‘
اس آیت کے بارے میں صحیح مسلم شریف و جامع ترمذی کی روایت ہے کہ یہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص 19-18سال کی عمر میں ایمان لے آئے اور اسلام قبول کر لیا اور اُن کی مشرک والدہ کو معلوم ہوا کہ بیٹا مسلمان ہو گیا ہے تو وہ بہت ناخوش ہوئیں اور قسم کھا کر کہا کہ جب تک تو اسلام کو ترک نہ کرے گا اور محمد (ﷺ) کا انکار نہ کرے گا میں نہ کچھ کھاؤں گی نہ پیوں گی اور نہ سائے میں بیٹھوں گی۔‘‘
ماں کا حق ادا کرنا تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ اس پر پریشان ہو گئے کہ اگر ماں کی بات نہ مانی تو یہ بھی اللہ کی نا فرمانی ہو گی ۔چنانچہ حضور اکرم ﷺخدمت اقدس میں حاضر ہو ئے اور تمام ماجرا بیان کیا ۔اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہو ئی اور ارشاد ہوا کہ ایسی باتوں میں والدین کی اطاعت نہیں ۔
اور شان نزول نے یہ بات بھی صاف کر دی کہ خدا کی نا فرمانی پر آمادہ کرنے کے لئے والدین اگر پورا زور بھی لگادیں ،بھوک ہڑتال کر دیں ،کھانا پینا بھی چھوڑ دیں ۔آسائش کو بھی اپنے اوپر قسم کھا کر حرام کر لیں تب بھی خدا و رسول ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی جائز نہیں ۔ایک طرف ماں باپ کی فرماں برداری ہے ۔تو دوسری جانب خدا و رسول ﷺ کی نا فرمانی اور ظاہر ہے کہ خدا و رسولﷺ کی نا فرمانی سے بچنا فرض اہم اور تمام مخلوق کی فرماں برداری پر مقدم ہے۔ ہاں ان کی دنیاوی خدمت اور حسن سلوک میں کوتاہی نہ برتیں ۔انہیں ایذا نہ دیں اور دنیاوی امور میں حسن اخلاق اور صبر و تحمل سے پیش آئیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کی خدمت اور ان کی نا فرمانی سے بچنے کی توفیق دے ۔آمین۔

Short URL: http://tinyurl.com/gm32xq8
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *