حکومت بند گلی میں ۔۔۔بھونڈی حکمت عملی

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی


اسلام آبادمیں 22 روزہ دھرنا ختم کرنے کا اعلان ہو چکا ہے، حکومتِ وقت کی ناقص اور بھونڈی حکمت عملی کے باعث دھرنا جلد ختم ہو سکا اور نہ ہی اِس اہم مسئلہ کا کوئی حل حکومت نکال سکی۔ باوجود اس کے کہ سپریم کورٹ نے دھر نے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے دورکنی بنچ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم نے واضع طور پر دھرنے کو ختم کرنے اور عوام کو مشکلات سے نجات دینے کے احکامات جاری کیے۔ یہاں تک کہ دھر نے والو ں کی کھانے پینے کی سپلائی لائن کاٹنے اور ان کے بنک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات بھی جاری کردیے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے میڈیا کو دھرنے والوں کی تشہیر نہ کرنے کی ہدایت کی۔ سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی اور آئی بی کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے اعلیٰ حکام کو طلب بھی کر لیا۔ حکومت اگر چاہتی تو بہت آرام سے سپریم کورٹ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر مسئلہ کو حل کرسکتی تھی.

لیکن زمینی حقائق کچھ اور باتوں کی نشاندھی کر رہے ہیں، وزیر داخلہ با اختیار جگہ پر متمکن ہونے کے باوجود اپنی پریس کانفرنسیز میں فرمارہے تھے کہ’ دھرنا ہمارا ووٹ بنک متاثر کرنے کی سازش ہے، حکومت کے پوزیر داخلہ چوہدری نثاراس سرنڈر کا کوئی آپشن نہیں, ریاست دھرنے والوں کے سامنے نہیں جھکے گی، ہم سب ختم بنوت کے محافظ ہیں، دھرنا ایک سازش ہے جس کا مقصد حکومت کو بریلوی مسلک سے لڑا کر ن لیگ کا ووٹ بنک متاثر کرنا ہے، یہ لال مسجد اور ماڈل ٹاؤن جیسا واقعہ ڈھونڈ رہے ہیں دھونس دھاندلی سے وکٹ نہیں گرے گی‘۔یہ وہی بات ہوئی کہ ’مجھے کیوں نکالا‘۔ اصل مسئلہ کی سنگینی کا احساس نہ کرنا، اپنی سیاست کا رونا رونا۔ اس سے قبل کی پریس کانفرنسیز اور بیانات بھی مسئلہ پر پیٹرول جھڑکنے کے مترادف نظر آتے ہیں ۔ اصل مسئلہ نیت صاف نہیں تھی، دل میں کھوٹ تھا اور دھرنے والوں کے مطالبات پر گفت وشنید اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دیتی۔

حکومت کو دھرنے کے پیچھے سازش اور سیاست کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ ختم بنوت کے حوالے سے اپنی حرکات اور عمل کو معمولی کہہ کر اہمیت ہی نہیں دی جارہی، غلطی ہوگئی، غلطی ہمیشہ کے لیے درست کردی، اس لیے اب کسی قسم کے احتجاج وار دھرنا غیر آئنی اور غیر قانونی ہے۔ جنابِ من غلطی کوئی چھوٹی موٹی نہیں تھی، کسی چپڑاسی کو کلرک، کسی کلرک کو ایم پی اے یا ایم این اے لکھ دیا جاتا تو در گزر ہوسکتا تھا یہاں تو معاملہ ختم نبوت ﷺ کا ہے. یہ بہت حساس معاملہ ہے، اس معاملے پر زبان کا لڑکھڑا جانا، قلم کا غلطی سے کچھ اور لکھ دینے کا سوال ہی پید انہیں ہوتا۔ جو کچھ کیا گیا وہ منصوبے اور ارادے کے تحت کیا گیا، جب اس مسئلہ کی حساسیت اور سنگینی کا احساس ہوا، لوگوں نے سنگین کوتاہی کی نشاندھی کی تو حکومت کو ہوش آیا کہ وہ اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارچکی ہے۔ اب وقت گزر چکا تھا۔ مانا حکومت نے وہ اقدام واپس لے لیا، لیکن قوم یہ حق رکھتی ہے کہ وہ جواب طلب کرے،  اسے بتایا جائے کہ ختم نبوت ﷺ کے حوالے سے اگر غلطی ہوئی بھی تو اس غلطی کا مرتکب کون تھا، ایک شخص تھا یا کہی لوگ تھے، احکامات ملے تو کس کی جانب سے، بات واضح ہونی چاہیے۔ ایکٹ پاس کرنے میں دونوں ایوانوں کے اراکین شال تھے، تحقیقات ہوں گی تو دائرہ بہت وسیع ہوتا ہوا اراکین تک جا پہنچے گا۔

سیاسی جماعتوں نے اس اہم ترین معاملے پر خاموشی اختیار کی البتہ تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ جس کے قائد مولانا خادم حسین رضوی ہیں نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد پر دھرنے کا اعلان کیا اور ختم نبوت ﷺ کے حوالے سے قانون میں تبدیلی کرنے والوں کو حکومت سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔ دھرنے والے لاہور سے انتظامیہ کی آشیربادسے چلے تھے۔ اس یقین دیہانی کے ساتھ دھرنا شروع ہوگا تو انہیں راجہ ظفر الحق کی رپورٹ فراہم کردی جائے گی، وہ دعائے خیر کریں گے اور چلے جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دھرنے والوں کا بنیادی مطالبہ نا اہل نواز شریف کے ساتھی وزیر قانون زاہد حامد کو برطرف کرنے کا تھا۔

حکومت کی جانب سے روزنامہ جنگ (25نومبر2017)فل پیج کا اشتہار شائع کیا گیا ہے ممکن ہے دیگر اخبارات میں بھی ہو۔ اس مین ختمِ بنوت کے حلف نامہ کے عنوان میں تبدیلی کا الزام حقیقت کیا ہے؟ کے عنوان سے حلف نامے کے الفاظ درج کیے گئے ہیں اور 25جولائی2017کو چیرمین سینٹ اور دیگر پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین کے مشورے سے 34اراکین (تمام جماعتوں کے نمائندہ سینیٹرز اور قومی اسمبلی ممبران ) مشتمل انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی نے ایک 16رکنی ذیلی کمیٹی بنائی۔ اس ذیلی کمیٹی نے تجاویز کی روشنی میں 18انتخابی قوانین کو یکجا کر کے ایک قانون کا بل مرتب کیا۔ کچھ مراحل کو میں چھوڑ رہا ہوں. جو مسودہ قانون کمیٹی نے تیار کیا یقیناً اس میں وزیر قانون لازمی شامل ہوں گے۔

اس قانون پر سب سے پہلے سینیٹر حافظ حمد اللہ نے الیکشن ایکٹ کے نام پر اعتراض اٹھایاجس میں لفظ
solemnly swear
کے لفظ کی جگہ
solemnly affirm
کا لفظ کر دیا گیا تھا۔ یہ غلطی کسی بھی صورت ٹائپنگ غلطی نہیں تھی، جیسا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق صاحب نے کہا تھا۔ دونوں لفظ مختلف ہیں دونوں کے ہجے بالکل مختلف ہیں. اس لیے اس بات کا امکان نہیں کہ یہ ٹائیپنگ کی غلطی ہے۔ اب اگر حکومتی منطق مان لی جائے کہ دونوں لفظوں کا مطلب ایک ہی ہے تو پھر حکومت کو کیا مصیبت آئی تھی کہ جب شور مچا تو بل کو اپنی اصل حالت میں منظور کرایا۔ اسٹینڈ لیتے اس بات پر کہ دونوں لفظ مفہوم کے اعتبار سے ایک ہی ہیں۔ معاملہ ان دو لفظوں کا نہیں بلکہ اور بھی ترامیم کی گئیں۔ یہاں سے حکومت کے دل کا چور سامنے آیا، جو غلطی حکومت خاموشی سے کرنا چاہتی تھی اس کی نشاندھی ہوئی۔

ابب کیوں کہ یہ بل پہلی بار اور دوسری بار وزیر قانون زاہد حامد نے ایوان میں پیش کیا تھا، وہ اس کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔ اس لیے کہ تقریر لکھ کر خواہ کوئی بھی دے تقریر پڑھنے والا تقریر کے سیاق و سباق کا ذمہ دار ہوتا ہے لکھنے والا نہیں۔ آجکل نا اہل نواز شریف لکھی ہوئی تقاریر پڑھ رہے ہیں، جو بقول ڈاکٹر شاہد مسعود انہیں عرفان صدیقی صاحب لکھ کر دیتے ہیں تو جو کچھ نواز شریف صاحب کہتے یا پڑھتے ہیں، وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ کیا نواز شریف صاحب عدلیہ اور دیگر اداروں کی جوتوہین کر رہے ہیں وہ نواز شریف نہیں بلکہ عرفان صدیقی کر رہے ہیں؟ نہیں یہ عمل نواز شریف کا ہی کہلائے گا۔ اسی طرح ذمہ دار تو زاہد حامد اس اعتبار سے بنتے ہیں کہ بل پیش کرنے والے و ہی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک لبیک یا رسول اللہ صؤﷺ کا مطالبہ ہے کہ زاہد حامد مستعفی ہوجائیں، کسی حد تک جائز ہے۔ جب وہ مستعفی ہوجائیں گے پھر یہ بات سامنے آئے گی کہ اس ختم نبوت کے حلف نامے کے عنوان میں تبدیلی در اصل کس نے کی تھی؟

زاہد حامد یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اگر انہیں نکالا گیا تو وہ یہ بات بتا دیں گے کہ اس کا اصل محرک کون تھا۔ یہ مسئلہ بہت سنگین ہے، پیچیدہ در پیچیدہ ہے، 34رکنی پارلیمانی کمیٹی، 16رکنی ذیلی کمیٹی میں کون کون لوگ شامل رہے؟ ان کے چہرے سامنے آئیں گے، یہاں تک کہ پورا ایوان اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے.  اگر زاہد حامد صاحب کسی خاص شخصیت کا نام لیتے ہیں تو وہ بھی اس میں ذمہ دار ہوگا. اس طرح یہ معاملہ اپنی لپیٹ میں زاہد حامد کو ہی نہیں لے گا بلکہ اس میں کئی نامور پارلیمنٹیرین کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا.  یہی تو وجہ ہے کہ ن لیگ زاہد حامد کی قربانی سے بچنا چارہی ہے، آنا کانی کررہی ہے، اس سے قبل جن کی قربانی دی گئی جیسے پرویز رشید اور فاطمی چپ ہورہے۔ زاہد حامد کا سیاسی ریکارڈ پرویز رشید کی طرح درباری نمبر ون والا نہیں ہے، یہ تو خود لوٹے ہیں، پرویز مشرف کے دور میں وزیرتھے، میاں صاحب سے مافی مانگ کر دوبارہ ن لیگ میں آگئے اور وزارت بھی مل گئی. جیسے بڑے میاں صاحب کے سمدھی جی نے دھمکایا ہوا ہے کہ خبر دار! اگر میرا استعفیٰ لیا گیا اور مجھے گرفتار کیا گیا تو’ میں سب کچھ اگل دوں گا، میں پہلے بھی سلطانی گواہ بن گیا تھا اب بھی ایسا ہی کروں گا‘۔ تو زاہد حامد بھی مستقبل کا سلطانی گواہ ہوسکتا ہے اور میاں صاحب کے لیے زہر قاتل ثابت ہوسکتا ہے، مشکلات میں اور اضافے کا باعث بھی۔

دھرنے کو ختم کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات کے علاوہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو فون کر کے کہا کہ اسلام آباد دھرنے کو پر امن طریقے سے حل کیا جائے۔ ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل آصف غفور کے مطابق ’ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو فون کیا جس میں انہوں نے اسلام آباد دھرنے کو پر امن طریقے سے حال کرنے کی تجویز دی ۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں اطراف سے تشدد کو روکا جائے۔ تشدد قومی مفاد اور ہم آہنگی کے لیے ٹھیک نہیں‘۔ جنرل باجوہ کے مشورہ کے برعکس حکومت نے دھرنے والوں کے خلاف آنسو گیس اور ربر کی گولیاں برسائیں. آنسو گیس کے گولے دھرنے سے اتنی دور سے پھینکے گئے کہ گیس کے وہ گولے نزدیکی رہائشی آبادی میں جا گرے جس سے شہریوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

حکومت کی حکمت عملی میں عوام کو صورت حال سے بے خبر رکھنا بھی ہے یہی وجہ ہے کہ آج صبح سے نیوز چینل بند ہیں، انٹرنیٹ سروس میں رکاوٹ ہے۔ صحیح صورت حال سامنے نہ آئے تو طرح طرح کی افواہیں جنم لیتی ہیں۔ مظاہرہ ایک جگہ ہوتا ہے تو اسے دس جگہ بتایا جاتا ہے۔ اس طرح شہریوں میں بلاوجہ خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے۔ حکومت کی ناقص حکمت عملی کے باعث فیض آباد کے ایک دھرنے نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ٹی وی چینل کے مطابق آج شام تک ملک کے چھوٹے بڑے 350شہروں ، گاؤں اور دیہاتوں میں مظاہرین نے علاقے کو بند کرایا ہوا تھا اور دھرنے جاری تھے۔ کراچی میں صورت حال صبح ہی سے خراب رہی، جگہ جگہ مظاہرے ، اسلام آباد دھرنےکی حمایت میں مظاہرے ہوئے، جس سے پورے پورے علاقے بند، ٹریفک میں مشکلات، لوگ پھنس کر رہ گئے۔ اس وقت تک کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کی بھونڈی حکمت عملی،  وزیر داخلہ کی نااہلی کی وجہ سے حکومت بند گلی میں آگئی ہے۔ پولیس کے بس کی بات نظر نہیں آتی، فوج اس میں شامل نہیں ہوگی، نہ ہی وہ کسی صورت گولی چلائے گی۔اب بھی زاہد حامد کی قربانی دھرنے کو ختم نہیں تو صورت حال کو بہتری کی جانب لے جانے میں ابتدا ہوسکتی ہے۔ حکومت کے پاس یہی ایک آپشن موجود ہے، سب کو معلوم ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے واضح طور پر جلسہ عام میں بڑے میاں صاحب کو کہا تھا کہ زاہد حامد کو کابینہ سے الگ کر دیا جائے، گویا شہباز شریف کو اس معاملے کی سنگینی کا ادراک بہت پہلے ہوچکا تھا لیکن نا اہل میاں صاحب کو صرف اور صرف اپنی فکر ہے، چاہے اس کے مقابلے میں ملک و قوم کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔

Short URL: http://tinyurl.com/y82s6jua
QR Code: