قلعہ گولگنڈہ سے اُردو غائب

Print Friendly, PDF & Email

(حیدرآباد کے محکمہ آثار قدیمہ کو اردو نہیں آتی)

تحریر: احمد نثارؔ ، انڈیا


محکمہ آثارِ قدیمہ بھارت سرکار، جسے آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، بھارت کی کئی قدیم اور تاریخی عمارتوں کی نگہداری کرتا ہے۔ جب سے بھارت آزاد ہوا، ملک کے مختلف عمارتوں، قلعوں، مندروں، مسجدوں، میناروں اور دیگر ملکی ثقافتی ورثہ کی دیکھ بھال، نگرانی کرنے کی ذمہ داری اس ادارے کو سونپی گئی ہے۔
شہر حیدرآباد کے قریب قلعہ گولکنڈہ اپنی ایک مخصوص تاریخی پہلو رکھتا ہے۔ اس کی خاصیت یہ رہی کہ یہ قلعہ قابلِ ناتسخیر رہا۔ آج بھی یہ قلعہ جوں کا توں کھڑا ہے۔ وقت کا پہیہ اس مایہ ناز قلعہ کی شان کو تھوڑا مدھم ضرور کیا ہے مگر ابھی کھنڈرات میں تبدیل نہیں کیا ہے۔چند مقامات پر بہت سارا حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہونے کے دہانے پر ہے۔ یہ کھنڈرات بھی اپنی شان و شکوہ کو یوں بیان کرتے ہیں جیسے یہ قلعہ پانچ سو سالہ نہیں بلکہ ایک سو سال پرانا ہے۔ اس کے زائرین کی تعداد ہر روز ہزاروں میں رہتی ہے۔ اس کے اندر داخلے کے لیے ٹکٹ بھی رکھی گئی ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کو یہ قلعہ اچھی خاصی آمدنی کا ذریعہ بھی بنا ہوا ہے۔
golcondaاس قلعہ کے اندر دیکھنے کے قابل کئی تعمیرات ہیں جن میں بارادری، امبار خانہ، زنانہ مسجد، خلوت خانہ و دیگر۔ اب یہاں تاریخ دہرانا مقصد نہیں ہے، مقصد ایں کہ اس تاریخی قلعہ کی نگہداشت کی ذمہ داری سنبھال رہے محکمہ آثارِ قدیمہ
(Archeological Survey of India – ASI)
کو متنبہ کرانا ہے کہ آیا اس تاریخی عمارت کے زائرین کی رہنمائی کے لیے قلعہ کے اندر جگہ جگہ پر لگائی گئی تختیاں اور کتبے اردو سے بے بحرہ کیوں ہیں؟
جب زائرین گولکنڈہ قلعہ دیکھنے جاتے ہیں ، ایسے زائرین جو اردو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں انہیں حیرت ہوتی ہے کہ اس قلعہ کے اندر جتنی بھی تختیاں جو مقامات کو اور ان کی تواریخ کو ظاہر کرتی ہیں وہ انگریزی، ہندی اور تیلگو زبانوں میں ہیں۔
ان تینوں زبانوں میں ہونا بھی بہت اچھی بات ہے۔
مگر اردو میں نہ ہونا بہت بری بات ہے۔
تمام عبارتیں اردو کی ہیں کتبہ کردہ زبانوں میں اردو نہیں۔
حیرت کی بات ہی نہیں بلکہ افسوسناک بات بھی ہے۔
golconda-2قلعہ گولنڈہ سے حیدرآباد کا رشتہ چولی دامن جیسا ہے۔ شہر حیدرآباد دکن اردو کا سرچشمہ مانا جاتا ہے۔ اس شہر کی فوقیت صرف بھارت میں نہیں بلکہ دنیا میں مشہور ہے۔ یہاں تک کہ اس شہر کو ’’اسفہانِ ہند‘‘ کا نام اور خطاب بھی ہے۔ یہاں کئی جامعیات اردو کے ہیں۔ اردو کے شعبہ جات ہیں۔ نوابوں کا شہر ہے۔ مگر افسوس کہ قلعہ گولکنڈہ کی تختیوں پر اردو نہیں۔
کیا وجہ ہوسکتی ہے اس کی؟
محکمہ کی کوتاہی؟
اردو والوں کی لاپرواہی؟
اردو اداروں کی بد سلوکی؟
شہر میں دم توڑتی اردو کا خاکہ؟
یا پھر آخری سانسیں لے چکی اردو کی مردہ تصویر؟
کچھ تو ہے!
چلئے، مثبت ہی سوچتے ہیں،
محکمہ آثار قدیمہ کی توجہ اس طرف نہیں ہو پائی۔
اردو والوں کی نگاہیں اس پر نہیں پڑیں۔
اردو اداروں کا دھیان اس طرف نہیں گیا۔
اردو زندہ ہے اور اس کی بقا کے لئے روح پھونکنے والے ادارے اور شخصیات موجود ہیں۔
ہم ایسے ہی ادارے اور شخصیات سے گوش گزار ہیں کہ محکمہ آثار قدیمہ کو اس بات کی طرف توجہ دلائیں اور تختیاں اور کتبے اردو میں بھی لکھنے کی ہدایت دلوائیں۔تاکہ اردو جاننے والے زائرین کوبھی پتا چلے کہ گولکنڈہ کی تاریخ کیا ہے۔
ورنہ شہر حیدر آباد دکن کی عظیم تاریخ اور اردو کی شایان شان روایات ،کاکاتییہ، بہمنی، قطب شاہی و مغل سلاطین کے زیر اثر رہا۔ پھرریاست حیدرآباد کا حصہ رہا۔ اس گہوارہ کے آبا و اجداد کی روح تڑپ اٹھے گی کہ جس تہذیب کو قائم اور آراستہ کرنے میں صدیاں لگ گئیں، جدید نسل اس عظیم ثقافتی ورثہ کو چند سالوں میں ہی پامال کرگئی۔

Short URL: Generating...
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *