غیر فطری قانون سازی۔۔۔۔ تحریر: نمرہ ملک

Nimra Malik
Print Friendly, PDF & Email

تحفظ نسواں بل کے مطابق اب گھریلو تشدد میں ملوث مرد اگلے دو دن گھر سے باہر رہے گا۔اس دوران نہ صرف یہ کہ اسکا رابطہ اپنی ہی بیوی سے نہ ہوگا بلکہ249249عورت کا بھی دو دن اپنے شوہر سے تعلق واسطہ ختم ہو گا،،مرد کسی بھی ایسے ایریا میں پھٹک نہ سکے گا جہاں متاثرہ عورت رہتی ہے۔اگرچہ اس طرح عورت کو تو اتھارٹی مل گئی ہے کہ وہ شوہر کو 249249اڑیکے ،، لگوا سکے،مگر اس طرح بہت سے شوہروں کی گھر سے بھاگنے اور چخ چخ سے دور ہونے کی دیرینہ خواہش بھی پوری ہو گئی ہے۔قارئین !قدرت نے جو قوانین بنائیے ہیں ان سے جب بھی کوئی تجاوز کرتا ہے ،منہ کی کھاتا ہے۔یہ بھی قانون قدرت ہے کہ اس نے مرد کو اک خاندان کی زمہ داری سونپ دی تا کہ اس کی کفالت کرے اور انکی حفاظت کرے۔عورت کو تحفظ دے اور اسکی ضروریات کیلیے محنت کرے۔عورت کو اللہ نے فطری طور پہ جو صلاحیتیں دی ہیں وہ صرف عورت کو ہی ملی ہیں،مثلا اک خاندان کو جنم دیتی ہے تربیت اور بڑھوتری عورت کے اصل کام ہیں جو اسے قدرت نے انعام میں دئیے ہیں،اب دیکھا جائے تو عورت کی نزاکت تو اک طرف اور شرف دوسری طرف ہے۔ قرآن نے عورت کو نازک آبگینہ قرار دیا ہے اور شیشہ جب بھی کسی غیر محفوظ جگہ رکھا جائے گا نقصان دے گا یا نقصان اٹھائے گا،عورت بھی نازک ہے یہ نزاکت ہی اس کی خوبصورتی اور مرد کیلئے آسائش اور سکون کا باعث ہے۔عورت فطری طور پہ کمزور ہے،وہ بھاری یامردوں کی طرح زیادہ طاقت والا کام نہیں کر سکتی۔گویا کہ عورت اور مرد کے اپنے اپنے خانے ہیں ،اگر کوئی اپنے حصار سے نکلے گا، تو یہ غیر فطری یا ایب نارمل بات ہو گی۔اک عورت نو ماہ تک پریگنینسی پیریڈ میں بچے کو اپنے وزن میں سنبھالتی ہے۔اس دوران وہ نارمل کام نہیں کر سکتی،اس کے بعد بچے کی پیدائش کی تکلیف اٹھاتی ہے۔اللہ نے عورت کے اندر فیڈنگ سسٹم بھی رکھ دیا ۔بچے کی پیدائش سے اسکی تربیت تک عورت ہی سنبھالتی ہے۔جب کہ مرد کے زمہ اس کا نان و نفقہ ہے۔اک نرم و نازک عورت کو جو تحفظ اورعزت اس کا اپنا مرد دیتا ہے ،وہ دنیا کا کوئی تحفظ نسواں بل دے سکتا ہے اور نہ ہی تھانے اور کچہریاں۔ ہمارا معاشرہ وہ معاشرہ ہے جہاں عورت کا گھر سے باہر نکلنا ہی بہت برا سمجھا جاتا ہے،کجا کہ وہ اپنے ہی مرد کی شکایت لگانے کیلئے تھانے جیسی جگہ جائے گی جہاں اک شریف مرد بھی جاتے ہوئے گھبرائے وہاں عورت کا جانا اک غلط اور معاشرتی تقاضوں سے بغاوت کا عمل ہے ۔اک عورت اگر کلچر یا فطرت کے خلاف جائے گی تو ہمارے معاشرے میں اک مرد کی مجبوری ہے کہ وہ اسے روکے۔ہماراکلچر یہ بھی ہے کہ لوگ آج بھی عورت کو دیکھ کے سیٹ خالی کر دیتے ہیں،آج بھی بیٹی پیدا ہونے پہ لوگ گناہوں سے تائب ہو جاتے ہیں۔آج بھی اک عورت بھرے بازار میں اگر کسی مرد کو برا بھلا کہتی یا شکایت کرتی ہے تو لوگ اپنے ہی ہم جنس کومارنا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں،اک عورت کی عزت کی عزت پہ کمپرو مائز نہیں کرتے بلکہ مرد کو ہی جوتے مارتے ہیں۔یہ عزت اسی معاشرے کی دین ہے جہاں عورت کو گھر کے سکون کے اور مرد کی رہنمائی کے ساتھ تحفظ بھی حاصل ہے ۔ہماری حکومت اور قومی ا سٹیبلشمنٹ میں مغرب کی دیکھا دیکھی عورت کو جو برابری کے حقوق دے رہی ہے ،در حقیقت یہ غلط عمل ہے ۔اسکا استعمال اپلے تھاپنے والی،بچے پالنے والی اور روز اپنے شوہروں سے ماریں کھانے والیوں کیلیے نا قابل قبول عمل ہے۔نہ ہی کاری ہونے والی اور ونی میں جانے والیوں تک اس کی پہنچ ہے۔رہ گئیں شہری خواتین ،تو ان کیلیے یہ قانون بنا دینا ماڈرن عورت کو مذید بے لگام کرنا ہے۔مرد ہو یا عورت،اس کیلیے تشدد کے خلا ف قانون موجود ہے۔وہ پہلے بھی ایف آئی آر درج کروا سکتے ہیں۔لیکن موجودہ قانون نہ صرف یہ کہ آزاد عورت کو مزید خطرناک حد تک آزاد کر دے گا بلکہ یہ قانون معاشرے میں جرائم کی طاقت بھی بنے گا۔طلاق کی شرح بھی بڑے گی۔بچے کرمنل ہوں گے اور فیملی سیٹ اپ متاثر ہو گا۔غور کرنے کی بات ہے کہ اک طرف بلاول زرداری غیرت کے خلاف قانون سازی کا کہہ رہے ہیں ،دوسری طرف اک عورت جب تھانے میں جا کہ رپورٹ کرے گی تو مسائل نہیں بڑھیں گے؟مرد میں غیرت کا جزبہ بھی لازمی بغاوت کرے گا اور اس قانون کے رکھوالوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ غیرت کے نام پہ قتل ہو جایا کرتے ہیں۔اس قانون کے بعد ایسے قتل ہونے والیوں اور والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گاخاندان کے خاندان تباہ و بربادہو جائیں گے۔لوگوں کا رجحان مزہبی تعلیمات سے ہٹے گا اور وہ سکون کیلیے غلط کاریوں میں پڑیں گے۔اس کی بڑی مثال وہی مغربی معاشرہ ہے جسکی اندھا دھند تقلید کے ہم دیوانے ہوئے جا رہے ہیں۔امریکہ میں مریضوں کی تعداد بڑھنے کی بڑی وجہ زہنی دباؤ،اعصابی تناؤ اور گھریلو سیٹ اپ کا پرا پر نہ ہونا ہے۔مرد اور عورت کو گھر آ کے جو سکون چاہیے ہوتا ہے وہ نہیں ملتا۔جیسے کہ ہمارے یہاں کی خوبصورت روایات ہیں۔وہاں آسائشات زیادہ ہیں ،ہمارے ہاں کم ہیں مگر زہنی سکون ہمارے یہاں ذیادہ، ان کے ہاں کم ہے۔ہمارے ہاں بھی بعد معاشرتی تقاضے اور روایات ایسی ہیں جو اک پڑھے لکھے شوہر کو پسند نہیں مگراپنے کلچر اور معاشرے کے ساتھ چلنا انکی مجبوری ہوتی ہے۔اس لئے اگر واقعی عور ت کو تحفظ دینا ہے تو یہ اک عورت کی التجا ہے کہ اس قانون پہ نظر ثانی کی جائے۔ماحول اور ثقافت کے مطابق قانون سازی کی جانی چاہیے ۔ آپ عورت کو حقوق ضرور دیں مگر ایسے قوانین اور حقوق کا اک ڈیزرونگ عورت کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔اس قسم کے قانون عورت میں بغاوت کا رجحان پیدا کرے گا۔جب کہ بنیادی طور پہ اس جہالت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے اک عورت پہ ظلم ہوتا ہے۔وہ ونی چڑھائی جاتی ہے اور بدلے کی آگ میں جھونکی جاتی ہے۔اس جہالت اور علم سے دوری ختم کرنے کا قانون بنایا جائے جس کی بدولت اک مرد تنگ نطری کا مظاہرہ کرتا ہے۔دنیا میں آج تک کوئی ایسا قانون کامیاب نہیں ہوا جس کی بنا پہ آپ اک گندی اور بیمار سوچ کو بدل سکیں یا کسی کی ذہنی سطح کو شفاف اور پاک کر سکیں۔جہالت کا خاتمہ اس قانون کی سرے سے ضرورت ہی ختم کر دیتا ہے۔جب اک معاشرے میں پڑھے لکھے افراد زیادہ ہوں گے تو وہ لازمی طور پہ عورت کے عزت و احترام کے ساتھ تحفظ کو بھی زمہ داری جانیں گے ۔عورت پہ تشدد کی بنیادی وجہ جہالت ہے نہ کہ عورت کی مظلومیت؟ہمارے قومی رہنماؤں،مفکرین اور اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے تھنک ٹینک کو سوچ سمجھ کے قدم اٹھانا ہونگے۔اور ایسا نظام متعارف کروانا ہو گا جس سے ہمارا گھریلو نظام بھی متاثر نہ ہو اور عورت کی عزت بھی باقی رہے۔جب کہ اس کے منفی اثرات بھی کم از کم ہوں۔ہمارے حکمرانوں کی مغرب نواز پالیسی معاشرے پہ غلط اثرات مرتب کرے گی۔مغرب کو خوش کرنے کیلیئے جو اقدامات کیے جاتے ہیں،اس کا فائدہ بہرحال اک عام عورت کو نہیں ہے۔یہ شوگر کوٹڈ آزادی دینے والے جو عورت کیلیئے بھیڑ کی کھال میں بھیڑیئے کا کام کر رہے ہیں،عورت کی آزادی کے قائل نہیں بلکہ آزادیء عورت کی آڑ میں عورت تک پہنچنے کی آزادی کے خواہاں ہیں۔اس سے صرف اک مخصوص طبقے کو بے ہنگم آزادی ملے گی جس سے معاشرتی بگاڑ اور انتشار پیدا ہو گا۔ ہمارے حکمرانوں اور مفکروں کو غور کرنا ہو گا کہ کہ ہمارا معاشرہ اک بے ہنگم معاشرہ نہ بن جائے اور کلچر اور فطرت سے ہٹ نہ جائے۔ کیونکہ فطرت سے ہٹ کر اور اس خلاف چلنے والا غیر فطری کام کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔یہ قانون مس یوز ہو گا۔قانون بنانا ٹھیک مگر اس کا استعمال غلط ہو جائے گا۔یہاں اک سوال اور پیدا ہوتا ہے اور ہمارے قومی سط ہی قانون سازی کرنے والوں کیے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا قانون پہ عمل درآمد کرنے والے اداروں کو آپ نے ٹھیک کر لیا ہے؟کیا گارنٹی ہے کہ اس قانون کے بعد گھر سے بھاگنے والی ،غیر اخلاقی حرکات کرنے والی اور شوہر کی غیر موجودگی میں کوئی بھی غلط کام کرنے والی اس معاشرے میں عزت پا جائے گی؟جب کہ یہ نہ تو ہمارے دین کی تعلیمات میں ہے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ اسکو قبول کرتا ہے۔عورت کو حقوق ضرور دیں اسکو برابری کے نام پہ بغاوت کی شہ نہیں ملنی چاہئیے۔عورت کیلیئے احترام کا بل منظور کروایں مگر پہلے اس کے گھر کے مرد کی اس جہالت ختم کریں جواس سارے سیٹ اپ کی خرابی کی جڑ ہے۔آپ عورت کو مغرب کی تقلید میں وہ حقوق کبھی نہیں دے سکتے جو اسے اسلام دیتا ہیے ا سلیے ان سطور کے زریعے گزارش ہے کہ اس قانون پہ ضرور نظر ثانی کی جائے۔ورنہ اس قانون کا استعمال مرد کو بھی بے لگام کرے گا اور عورت کو بھی؛؛اور مردوں کیلیے آسانی پیدا ہو جائے گی کہ وہ دو ،دو شادیاں کرے ،اک دن اک کو تھپڑ مارے اور دو دن سکون سے دوسری کے ساتھ رہے،اس کے بعد دوسری کا سر بجائے اور پہلی کے پاس دو دن کیلیے لوٹ آئے۔اس ظرح واقعی دونوں کو برابری کے حقوق مل جائیں گے۔

Short URL: http://tinyurl.com/hwp865x
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *