عیدی

Print Friendly, PDF & Email

افسانہ نگار: نبیلہ خان

موبائل  کی سکرین پر ٹرانزیکشن میسج  جگمگا رہا  تھا  . مبلغ 2000 روپے کا  بیلنس موصول ہوا تھا ۔۔یہ دو ہزار اس کی زندگی میں  دوہزار  خوشیاں لانے کے مترادف تھے  ۔۔

حمیدہ بیگم کی خوشی “دیدنی ” تھی جب خلیل احمد  بھائی کی طرف سے “دوپٹہ” اڑھانے کی مد میں  تیس ہزار  موصول ہوئے ویسے تو انہوں نے کہا تھا کہ ایک لاکھ دیں گے مگر تین سال بعد تیس ہزار روپے بھی  غنیمت ہی لگے ۔۔ تو حمیدہ بیگم نے  سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے  اپنے دیرینہ “خواب ” کو پائہ تکمیل تک پہنچا نے کی دعا میں  اور شدت پیدا کرتے ہوئے  پہلی  بار عملی کوشش کرنے کی ٹھانیاور.  کچھ رقم بھائیوں  سے مستعار  لینے کا ارادہ کیا اور بیٹے سے منت سماجت کرتے ہوئے کہا کہ اب پاسپورٹ بنوا دو تاکہ “عمرہ “کی سعادت حاصل  کر پاوں مگر ان کا “اکلوتا” سپوت برہان الدین  دنیا جہان کا سست انسان واقع ہوا تھا وہ گھر کے ہر کام سے ایسا بیزار کہ جیسے دنیا کامشکل کام اس سے  کروانے کا ذمہ اسے دے دیا  ہو اور وہ بے چارگی کی اس انتہاء پہ پہنچ جاتا جیسے کوئی  لولا لنگڑا، اپاہج… اور بد تمیزی کے مظاہروں میں  اس کا “ثانی” شاید ہی کوئی ہو”نوکری ” بھی لگے بندھے ہی کر رہا تھا بس گھر کی گاڑی کو بمشکل گھسیٹے ہوئے تھا،، مگر حمیدہ بیگم کی جان اس میں  بستی تھی اور کیون نہ بستی؟ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی  ہونے کی سعادت رکھتا تھا ۔ 

برہان  بیٹا بات سن،،  میرے عمرے کا کچھ  کر دے  ایسا نہ ہو دل میں حسرت لئے ہی اس دنیا سے  گزر جاوں؟  اماں اچھا ہے  نہ تو تو، گزر ہی جائے  اگلے جہاں میں ہی کرتی رہنا، حج اور عمرہماں کے دل پہ  برہان کی بات کسی پتھر سے کم نہ لگی مگر بیچاری دل مسوس کر رہ گئی اللہ نہ کرے کہ میں  ایسی نامراد  مروں بیچاری ماں نے دل ہی دل میں  بیٹے کی ہدایت  کی دعا مانگی اوراٹھ کر اندر کی راہ لی 
جہاں پوتے صاحب نے چیزوں کی اٹھا پٹخ لگا رکھی تھیاور بہو بیگم منہ سر لپیٹے ہر چیز سے بے نیاز  گدھے گھوڑے  بیچ کہ سوئی ہوئی تھی  کیونکہ وہ “مظلوم ” بیچاری   سارا دن نوکری کر کے  آتی  اور گھر کے نادیده  کاموں میں  ہلکان ہوتی  رہتی  جو حمیدہ  بیگم نے  اسکی غیر موجودگی میں نمٹائے ہوتے تھے مگر بقول “بہو” کے سکول سے  واپسی پر ڈھیروں  کام میرے منتظر ہوتے ہیں  ۔جن میں  سر فہرست  تو دو چار گھنٹوں کی نیند ہی ہوتی۔۔۔۔
 برہان الدین کو ترکے میں  ایک کنال زمین کا ٹکڑا نصیب ہوا تھا جو کہ اسکے دادا کی ملکیت تھی باپ بیچارہ تو، اس زمین  کو ترستے ہوئے ہی گزر گیا ترکے کی مشترکہ زمین  کے وارثوں میں سے دو تو اللہ کو پیارے  ہوچکے تھے باقی ایک چچا اور دوپھپیاں بچی تھیں  جن کو اس ترکے سے فائدے کی امید کم ہی تھی کیونکہ “چار کنال” کا یہ رقبہ کسی نے غاصبانہ  قبضے سے  ان لوگوں سے  ہتھیا رکھا تھا مگر خدا خدا کر کے اونے پونے بکنے کے بعد برہان الدین کو اتنا پیسہ ملا کہ اس کی شادی باسانی ہو سکی اور باقی مانده  کچھ رقم ویسے ہی تتربتر ہوگئی تب زمین کے خریدار نے “حمیدہ بیگم  ” کو دوپٹہ اڑھانے کی “مد ” میں  کچھ اضافی رقم دینے کا وعدہ کیاجوتین سال گزرنے کے بعد  “تیس ہزار” کی صورت میں ایفا کو پہنچا کر  وہ تو بری الذمہ ہو گیا  مگر حمیدہ  بیگم کے دل میں  اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی جوت جگاگیامگر ہائے یہ “دنیا ” اور  اسکے دھندے کب جان چھوڑتے

بیٹا رمضان کا آخری عشرہ  آن پہنچا ہے  بہنوں کی “عیدی ” کا کیابندوبست کیا؟  اماں نے امید بھری نظروں سے  برہان الدین  کو دیکھا جو چہرے پر دنیا جہان کی بیزاری طاری کیے ہوئے  رمضان کی ٹرانسمیشن دیکھنے میں  مگن تھااماں اب بس بھی کر دو یہ چونچلے میں  اپنا پورا کروں  یا تمہاری  ان اولادوں  کو پورا کروں  سب ماشاء اللہ سے گھر بار والیاں ہیں  ،کسی کو کمی تھوڑی ہے ؟ اب کہاں سے عیدیاں دیتا پھروں؟  برہان کی تو دکھتی رگ پہ جیسے پاوں پڑگیا 
بیٹا، سال میں  ایک ہی تو موقع  ہوتا دینے دلانے کا اور کیا مانگتی وہ بیچاریاں تم سے  ؟   اماں میں  دینے کے  قابل ہونگا تو دونگا نا  ۔ مجھ سے نہیں ہوتے یہ چونچلے اور اماں تو نے تو ویسے بھی قسم کھا رکھی مجھے نیچا دکھانے کی۔۔۔ ہمیشہ ان کی ہی طرفداری کرتی رہنا ۔۔میں بھر پایا ۔۔۔برہان نے غصے سے چیختے ہوئے دونوں ہاتھ ماں کے سامنے جوڑتے ہوئے کہا اور یکدم سے اٹھ کر باہر چل دیا ،تو حمیدہ بیگم کی آنکھوں مین نمی تیرنے لگی 

رومانہ نے بے یقینی کے ساتھ  موبائل  سکرین کو بیسویں  بار دیکھا،   جہاں 2000کا فگر اس کی غم ذدہ زندگی میں  مثل بہار جگماگا رہا تھا  عید کی آمد آمد تھی اور ابھی تک اسکے بچوں کے کپڑوں کا کوئی  انتظام نہیں  ہو سکا تھا وہ ابھی تک اسی حیرت میں  مبتلا تھی کہ یہ پیسے کس نے  بھیجے  ؟ کیونکہ اس نے اپنی پریشانی کسی سے بھی نہیں کہی تھی اسکا ایمان تھا کہ جس “رب ” نے پیٹ دیا رزق بھی وہی دے گا ۔۔۔مگر وہ اس “رقم “کو دیکھ کربھی ابھی تک خوش ہونے سے زیادہ پریشان  ہی تھی کہ اگلے لمحے موبائل  کیسکرین پر “امی جان” کالنگ جگمگانے لگاالسلام عليكم  امی جان رومانہ نے چہچہاہٹ بھرے لہجے میں ہمیشہ کی طرح  ماں کو سلام کیا وعلیکم السلام  بیٹا کیسی ہے میری بچی؟  بچے کیسے ہیں  ؟گھر میں  سب کیساچل رہا؟  حمیدہ بیگم نے ایک ہی سانس میں  سب پوچھ ڈالا اللہ کا کرم ہے  اور آپکی دعاؤں کا  اثر سب بہترین   ہے اچھا بیٹا میں نے تم سب بہنوں کو “عیدی” کی مد میں 2000 بھیجے ہیں  اپنے لئے  کچھ لے لینا،  بچے زیادہ تو نہیں  ہیں  مگر میری محبت  سمجھ کر قبول کر لینا ۔۔امی آپ نے کہاں سے دس ہزار لئے؟  بیٹا اللہ کے گھر جانے کے لئے  جمع کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔مگر میرے  بچوں  کی “عیدی” اس دید سے  زیادہ  اہم نکلی  اللہ بہتر  کرنے والا ہے  اور رومانہ کو ماں کے دل پر بے تحاشہ  پیار آیا  جس نے اپنے دیرینہ خواب کو اولاد کی عیدی کی نذر کر دیا  

Short URL: http://tinyurl.com/yxa6t9lu
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *