ضلع قصور رپورٹ کارڈ

Mehar Sultan Mehmood
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: مہر سلطان محمود
ضلع قصور کے جملہ مسائل پر مندرجہ بالا’’ عنوان ‘‘ سے ایک مختصر مگر جامع
تحریر لکھی جاتی ہے ضلع کے دو بڑے افسران کی تبدیلی موجودہ سرکار کے وژن
کے مطابق یقینا ہوچکی ہے فی زمانہ عوام مسائل کی دلدل میں گردنوں تک
پھنسی ہوئی کسی مسیحاکی منتظر ہے دیکھنایہ ہے کہ ضلع کی ایڈمنسٹریشن اپنی
صلاحیتوں کے ذریعے بطریق احسن نمٹنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں سابقہ ڈی
سی صاحبہ کا خود ٹرانسفر کروانا ناکامی تسلیم کرنے کے مترادف ہے نئے ڈی
سی اظہر حیات صاحب جن کی ماضی کے پوسٹنگ اضلاع کی شاندار کارکردگی میں
حصہ دار افسران کی آپ بیتیاں سننے کو ملیں کچھ یار دوستوں کیساتھ شیئر
بھی کیں کہ بھیاہنی مون پیریڈ ختم ہوچکا ہے تبدیلی کا اب کام ،کام اورکام
کے معینہ وقت کا آغاز ہواچاہتا ہے تلخ سچائی ہمارے ضلع کو ایسے ہی
ایڈمنسٹریٹر کی اشد ضرورت تھی مگر کچھ ضروری ترامیم کیساتھ ،نئے صاحب
بہادر کی ہدایات لینے سے پیشتر ہی کچھ افسران اس ضلع سے ہجرت کرگئے ہیں
شاید کچھ دیگر پنچھی بھی آنیوالے دنوں میں بقول اس شاعر کے !

پرندہ اڑ گیا آخر ،یہ کہہ کر خشک جھیلوں سے

مجھے مجبور ہجرت پہ،میرے حالات کرتے ہیں

مزید تفصیل لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے افسران کو پتہ چل چکا ہے مستقبل
میں کیسے داخلی وخارجی مسائل سے نبردآزماء ہوناہے چند حقیقتیں پیش خدمت
ہیں محکمہ پولیس کے کمانڈر بھی پیشہ ورافسران کی لسٹ میں شمار ہوتے ہیں
سیالکوٹ کی کھلی کچہریوں کے بیانات کے بعد ادھر بھی پرامید الفاظ کیساتھ
کرائم کی شرح کو کنٹرول کرنے سمیت تھانوں میں ٹاوٹ کلچر کا خاتمہ ،جھوٹی
درخواستوں کی حوصلہ شکنی چاہے دینے والے صحافی ہی کیوں نہ ہوں ،سود خوروں
کے خلاف فیصلہ کن کاروائی خاص کر پتوکی کے گاوں منڈیاوالاوضلع بھر
،منشیات فروشی کے حقیقی خاتمے کیلئے موثر ترین سنجیدہ اقدامات شامل ہیں
کپتان قصورکا بغیر کسی پیشہ ور وڈیرے کی سفارش کے ڈائریکٹ عام آدمی کی
بات سننا تبدیلی کا عملی نمونہ ہے عوام الناس کو بھی ڈی پی او آفس کا رخ
بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کرنا چاہیے سول انتظامیہ کو پہلے اپنے دفتر میں
پودوں کی طرح کانٹ چھانٹ کی اشد ضرورت ہے کالونی برانچ وکیئرٹیکر کلرک کی
کہانیاں ثبوتوں کیساتھ زبان زد عام ہیں خاص کر محکمہ ایجوکیشن جس کا طرہ
امتیاز متعدد سکولوں کی آڈٹ رپورٹس دبانا سمیت ہر انکوائری کو ہضم
کرناہے ماضی میں جعلی رپورٹنگ کرواکر ٹاپ پوزیشن پر جاناشامل ہے محکمہ
ہیلتھ کی کانٹ چھانٹ بھی ادارے کی بہتری میں معاون ثابت ہوگی اگر ڈی سی
صاحب کرپائے تو ورنہ ہر طرح سے لتھڑا ہواسسٹم تو چل ہی رہا ہے ہر قسم کی
کمیشن وصولی من سلوی سمجھی جاتی ہے ادویات فراہم کرنیوالی کمپنیوں کی
ازسرے نو سکریننگ بھی ضروری ہے کہیں کوئی کنگ میکر ناجائز فائدہ تو نہی
اٹھارہا ہے انکوائریاں ادھر بھی ایجوکیشن کی طرح دبا لی جاتی ہیں بطور
ثبوت ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کوٹ رادھاکشن اسی طرح محکمہ بلڈنگ کی طرف
بھی طائرانہ نظر ڈالنا ناگزیر ہے ضلع بھر میں ناجائزتجاوزات کا مسئلہ
ہنوز درستگی کا منتظر ہے افسران کی کارکردگی مایوس کن ہے ایک فیصلہ کن
گرینڈ مستقل سرجری کی اشد ضرورت ہے قرین قیاس ہے کہ بلدیاتی نظام کی بساط
لپیٹ دی جانیوالی ہے اختیارات پھر ملک کی بے تاج بادشاہ بیوروکریسی کے
ہاتھوں میں ہوں گے لہذابغیر کسی مصلحت کی بہتری لائی جانی چاہیے محکمہ
ریونیو میں بدنام زمانہ پٹواری بشیر عملی وپیٹی بھائیوں کو نکیل ڈالنا
بھی ایک چیلنج ہوگا گزٹڈ افسران تو بہت جلدی پروازیں پکڑرہے ہیں ان جیسے
ناسوروں کاخاتمہ کب ہوتا ہے عوام منتظر رہے گی سرکاری زمینوں پر قبضے
ہوچکے ہیں مزید کیئے جاررہے ہیں پٹواریوں کی ملی بھگت سے ان کے خلاف سول
وپولیس انتظامیہ کو فیصلہ کن ایکشن لینا ہوگا بڑے پیمانے پر ہیراپھیری کی
گئی ہے سابقہ ڈی سی رانا ارشد بھی بہتی گنگا میں کیئر ٹیکر کیساتھ مل کر
شاید مکمل غسل کرکے گئے ہیں افسران کا ریاست کیساتھ وفاداری کا عملی ثبوت
دینا ناگزیر ہوچکا ہے ورنہ تاریخ ان کو کبھی اچھے الفاظ میں نہ یادکرے گی
،دیرنہ مسائل کے حل کیلئے چند جرات مندانہ اقدامات ناگزیر ہیں ضلعی ہیڈ
کوارٹر میں موجود محکمہ مال کے افسران و ملازمین کی نوک پلک سنواریں تاکہ
سائلین تبدیلی کے حقیقی ثمرات سے فیض یاب ہوں نوزائیدہ تحصیل کوٹ
رادھاکشن میں ایک تھانے کا مزید اضافہ وریونیو ڈپارٹمنٹ میں عوام نقول کے
حصول کیلئے قصوردھکے کھاتی ہے نقل برانچ کی فوری منتقلی سمیت دیگر اداروں
کو منتقل کیے جانے و تحصیل کمپلیکس کا تعمیر کرنا اور تحصیل ہیڈ
کوارٹرہسپتال کوٹ رادھاکشن کے مسائل کو جنگی بنیادوں پر حل کرنا شامل ہے
نئے ڈی سی صاحب کی طرف سے تمام افسران کو چھٹی کے بعد ضلعی ہیڈکوارٹر نہ
چھوڑنے کی ہدایت دی گئیں ہیں سرکاری رہائش گاہیں تین سالہ پیریڈ والے
افسران کیلئے ہوتی ہیں جن پر مقامی رہائشی ماتحت افسران وملازمین قابض
ہیں ان کی رہائشیں شہر وگردونواح میں چند کلومیٹرز کے فاصلے پر ہے انہوں
نے ملی بھگت سے رہائشیں حاصل کررکھی ہیں سرکاری خبررساں ایجنسی سے رپورٹس
منگواکر ان سے رہائشیں خالی کرواکر افسران کو الاٹ کریں تاکہ وہ حکم کی
تعمیل کرسکیں مثال کے طور پرتحصیل کوٹ رادھاکشن میں سرے سے سرکاری رہائش
کاکوئی وجود نہیں ہے محکمہ لوکل گورنمنٹ اور محکمہ پبلک ہیلتھ کی طرف
توجہ دیں دونوں سفیدہاتھی ہیں محکمہ انہار بھی کرپشن کنگ ہے کسان حضرات
کی قسمت دھکے ہی دھکے ہیں زمینوں کو سیراب کرنے والے موہگوں کے سائزبھی
ازسرے نو درست کرنے ناگزیر ہیں عطائیت کا جن بھی محکمہ ہیلتھ کی نا اہلی
کی وجہ سے اپنا جادو جگارہا ہے عطائیوں نے واٹس ایپ گروپ بنارکھے ہیں جن
میں سرکاری ملازمین کی ملی بھگت سے آپریشن ہونے سے پہلے ہی چھپ جاتے ہیں
آخر پر عرض ہے کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کو ٹیچنگ ہسپتال کادرجہ
دلوانے کیلئے فی الفور عملی کام کا آغاز کیا جائے قصور کے اسلامیہ ڈگری
کالج کو کسی بھی سرکاری یونیورسٹی کے سب کیمپس کا درجہ دلوایا جائے یہ
چند تعارفی مسائل ہیں آئندہ کالم میں مزید تفصیلات سے آگاہ کریں گے
سیاسی اثرورسوخ اداروں میں پھر اپنا پھن اٹھارہا ہے جو کہ انتہائی تشویش
کی بات ہے حکومت پنجاب کواس پر توجہ دینی ہوگی ۔

Short URL: http://tinyurl.com/y5jzxeyo
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *