دسمبری عاشق

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: آکاش بلوچ


دسمبراور عاشقوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور جہاں تک میری معلومات ہیں دسمبر اور عاشق دونوں لفظ مذکر کے طور پہ استعمال ہوتے ہیں تو پھر اِن کا چولی سے کیا تعلق؟(ویسے آجکل کے ریڈی میڈ عاشقوں کا تعلق زیادہ تر چولیوں سے ہی ہوتا ہے۔) البتہ چولے سے ہوسکتا ہے ۔ تو فقرہ کچھ اس طرح ہو جائے گا کہ دسمبراور عاشقوں کا چولے دامن کا ساتھ ہے کیونکہ دسمبرکے آتے ہی سردی سے بچنے کے لئے چولے اوڑھ لئے جاتے ہیں ۔اگر عاشق ناکام ہوجائے تو مجذوب ہو کے چولے اوڑھ کے دنیا و مافیا سے بیگانہ ہوجاتاہے۔ویسے آپس کی بات ہے عاشق تو کہتے ہی اُس کو ہیں جو محبت میں ناکام ہوجائے اور جو محبت میں کامیاب ہوجائے وہ تو شوہر کہلاتاہے شوہرپھر عاشق نہیں رہتا بلکہ مظلوم طبقے میں شامل ہوجاتاہے اور ایسے مظلوم کا بھی دسمبر پہ ویسا ہی حق ہے جیسا کہ عاشق کا ۔ کیونکہ دسمبرمیں عاشق ناکامی کا دُکھ مناتا ہے اور شوہر کامیابی کا دُکھ مناتا ہے۔
دسمبرکا مہینہ بہت سے لوگوں کے لئے خاص ہوتا ہے۔کسی کے لئے وصل کی حسیں یادیں لے کے آتاہے تو کسی کے لئے ہجر کی آہیں اور آنسو۔ دسمبرکے آتے ہی عُشاق سوشل میڈیا پہ ایسے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں جیسے برسات کے بعد پتنگے اور پتنگے بھی تو عاشق ہوتے ہیں۔پتنگے تو جل جل کے جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور آجکل کے ریڈی میڈ عاشق موبائل سروس کا سہارا لے کے اپنا عشق مضبوط کرتے ہیں۔
دسمبرکے آتے ہی عاشق لوگ دسمبرکے پیچھے پڑجاتے ہیں حالانکہ کہ عاشقی، غم اور خوشی تو دنوں اور مہینوں کی قید سے آزاد ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت حملہ کر کے یادوں کی صورت میں اپنے اَن مٹ نقوش چھوڑ
جاتے ہیں
وہ درجن بھر مہینوں سے ذرا ممتاز لگتا ہے
دسمبرکس لئے آخرہمیشہ خاص لگتا ہے
ایک دور تھا جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے ایک دفعہ کا ذکر تھا جب ٹیلی فون اور موبائل کی سہولت نہیں ہوتی تھی تب عُشاق اپنے محبوب کو صرف دیکھنے کے لئے میلوں کا سفر کر کے دُور سے ہی محبوب کا دیدار کیا کرتے تھے اور اگرکوئی عاشق تھوڑا بہت لکھنا جانتا تھا تو پیار بھرے محبت نامے لکھے جاتے تھے پھر خط اور عاشق دونوں سفر کیا کرتے تھے۔خط اُردو والا سفر اور عاشق انگریزی والا سفر(Suffer)۔ اب موبائل فونز کے عام ہونے نے جہاں عُشاق کو سہولت دی ہے محبت کی پینگیں بڑھانے کی وہیں دسمبرکی اہمیت بھی بڑھادی ہے۔ رضائیوں اور کمبلوں میں گُھس کے ناکام عاشق آہ و زاریاں کرتے ہیں اور کچھ دوسرے عاشق اپنے گُر آزماتے ہیں اور مکڑے کی طرح محبوب کے گرد اپنے جالے بُنتے ہیں۔
اُستادِ محترم جناب گل نوخیز اختر(اِن سے میرا اُستادی شاگردی کا رشتہ ایسے ہی ہے جیسے یک طرفہ محبت ہوتی ہے ) فرماتے ہیں کہ دسمبر ناکام عاشقوں کا مہینہ ہے اسی لئے اس کے آتے ہی ہر عاشق کا غم حقے کی طرح تازہ ہو جاتاہے۔یہ بات سمجھ نہ آنے والی ہے کہ سال کے گیارہ مہینے عاشق کہاں ہوتے ہیں ، کیا کرتے ہیں اور دسمبرمیں ہی کیوں اپنا حقہ تازہ کرتے ہیں؟شاید رضائی اور کمبل کی گرمی کی وجہ سے چنگاری
شعلہ بن جاتی ہے۔عاشقوں نے دسمبرکو محبت سے ایلفی لگاکے اس طرح جوڑ دیا ہے کہ دسمبرکے آتے ہی ان کی محبت الہڑ مُٹیار کی طرح انگڑائیاں لینے لگ جاتی ہے حالانکہ ان کی محبت کو ہوشیاری تپتے جون میں چڑھی ہوتی ہے جب اُن کی نظر گرمی میں بے حال اور پسینے سے شرابورہونے والے محبوب پہ پڑی ہوتی ہے۔جون جولائی کے تپے ہوئے عُشاق بھی دسمبر کے آتے ہیں ٹھنڈی آہوں کی آندھیاں چلاکر موسم کو مزید ٹھنڈاکرنے کے چکر میں لگ جاتے ہیں حالانکہ اگر یہ جون جولائی میں ٹھنڈی آہیں بھریں تو شاید ان کی گرمی کچھ کام ہو جائے۔نوے فیصد عاشق اپنی ناکامی کا غصہ دسمبرکو تڑیاں لگا کر نکالتے ہیں
اب تیرے تنہا آنے نے، مجھے بڑا رُلایا ہے
جب وہ نہیں آیا تو، دسمبر! تُو کیوں آیا ہے
ٓاس سال تو دسمبر ختم ہونے پہ ہے اور سردیاں آنے کا نام ہی نہیں لے رہی، دُکان داروں کا دھندا تو مندا رہا ہی عاشقوں کا دھندا بھی مندا رہا۔پہلے تو سردیوں کے آتے ہی عُشاق کمبلوں اور رضائیوں میں چھپ کر
ایک دوسرے پہ میسجوں کی بارش کرکے خود کو گرماتے تھے پر اب سردیوں نے نہ آکر عاشقوں کی یہ کاروائی بھی ناکام کر دی۔آجکل کے ریڈی میڈ عاشق تو ہاتھوں کی لکیروں کو مانتے ہی نہیں وہ تو محبوب کی یاد میں آہیں بھرنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ کی لکیروں کو مٹانے کی کوشش میں اتنے نازک اور کمزور ہوجاتے ہیں کہ کمبل اور رضائی میں زیادہ دیر گھسنے کی صورت میں اُن کی سانسیں اُکھڑنے لگتی ہیں ۔کچھ عشاق کے محبوب تو اُن کو دسمبرکی آخری ٹھٹھرتے دنوں میں داغِ مفارقت دے کے کسی اور کی ڈولی میں بیٹھ کرسیج سجا لیتے ہیں ایسے عشاق یکم دسمبر سے ہی ماتمی آہوں کے جلوس نکالنا شروع ہو جاتے ہیں اور ایک ہی مرثیہ کہتے ہیں
مجھے اَب فرق نہیں پڑتا دسمبربیت جانے کا
اُداسی میری فطرت ہے اِسے موسم سے کیا لینا
بارشیں تو سال کے باقی مہینوں میں بھی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اُن کو بھیگا بھیگا مہینہ کیا جا سکتا ہے خاص طور پہ برسات کا مہینہ جس میں عاشق بے چارے بھیگ کے بھیگے چوہے اور بھیگی بلی جیسے نظر آتے ہیں پر سجاد علی پا جی نے ’’بھیگا بھیگا سا یہ دسمبر ہے، بھیگی بھیگی سے تنہائی ہے ‘‘گا کر دسمبر کو مزید سر چڑھا لیا اور عاشق حضرات سجاد علی کے اس گانے پہ اپنے غم کی چادر ڈال کے دُکھی آتما بننے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ بہرحال دسمبر جانے اور دسمبری عاشق جانیں سانوں کی۔آخر میں دسمبرکے حوالے سے چند ٹوٹی پھوٹی سطریں اُن عاشقوں کے نام جن کے دلوں کواُن کے محبوبوں نے دسمبرمیں جلا کے ہاتھ پاؤں سینکے ۔
اُو دسمبر!
تُو پھر لوٹ آیا ہے
میرے اَرمانوں کے لاشے دیکھنے
میرے دل کے تماشے دیکھنے

Short URL: http://tinyurl.com/hxkqz8e
QR Code: