دیارِغیر جانے والوں کے نام

Abu Abdul Quddos M Yahya
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

اس نوجوان کا واقعہ  جو یورپ جانے کو تمام مسائل کا حل سمجھتا تھا۔وہ سمجھتا تھا ہرپریشانی،مصیبت اورمسئلہ کا حل دولت ہے۔ دولت کا دوسرانام یورپ ہے۔ وہاں جانے کی دیر ہے بس زحمت رحمت میں،غم خوشی میں،بدحالی خوشحالی میں،ذلت عزت میں الغرض لوگوں کی نفرتیں وحقارتیں تک محبت و تکریم میں تبدیل ہوجائیں گی۔اور وہ رب کا یہ فرمان بھول جاتاہے کہ “اورکتنے شہر ہم نے ہلاک کردیئے جو اپنے عیش پر اتراگئے تھے تو یہ ہیں ان کے مکان کہ ان کے بعد ان میں سکونت نہ ہوئی مگر کم اور ہمیں وارث ہیں۔”القصص :58

یہ 1980 سے پہلے کا  واقعہ ہے۔ ایک نوجوان کو اس کے والدین نے  بہت تنگی ترشی  میں گزارا کرکے بلکہ اپنا پیٹ کاٹ کر کسی طرح بی اے تک تعلیم  دلوائی ۔ جب اس نے بی اے کرلیا تو اس پر یورپ جانے  کی دھن سوار ہوگئی  گھر والوں نے بہت منع کیا۔اس کے والد نے اسے سمجھایا کہ بیٹا “السفر سقر ولوکان میلا”سفر اگرچہ ایک میل ہی کیوں نہ لیکن عذاب سے کم نہیں ۔تم وہاں تنہا ہوگے  کوئی تمہیں سنبھالنے والا اورتمہاری دیکھ بھال کرنے والا نہ ہوگا۔

اس نے جوابا کہا ابا جان” السفر وسیلۃ الظفر”یعنی سفر کامیابی کا وسیلہ  بھی تو ہے۔گھر بیٹھے رہنے سے تو کچھ حاصل نہ ہوگا۔رہی بات سنبھالنے اورخیال رکھنے کی میں اپنے قدم پر کھڑا ہوچکا ہوں اور ہر طرح کی مشکلات و مصائب کا سامنا کرنے کو تیارہوں۔ اس طرح اس کے سامنے اس کے والد کی ایک نہ چلی اور  یہ بضد رہا کہ وہ  یورپ ہی  میں کمانے جائے گا۔جب اس کی والدہ نے دیکھا کہ عقلی دلائل سے تو یہ مانے گا نہیں تو انہوں نے دوسرا حربہ(جذباتی دلائل ) استعمال  کرتے ہوئے  کہا کہ وہاں جو جاتاہے وہ سبز نینوں ،سنہری زلفوں اور گوری رنگت   کا اسیر ہوجاتاہے ۔جس  قید سے نکلنا ناممکن ہوجاتاہے۔  وہ ظاہراً خوبصورت   لیکن باطناً  ساحرہ(جادوگرنی)  ہوتی ہے اور انسان کے حواس پر چھاجاتی ہیں۔جس کے بعد  بیچارہ غلام اس کے سحر کے سامنے بے بس ہوجاتاہے اوریوں اپنے والدین ،بہن بھائیوں اورملک کو بھی چھوڑدیتاہے۔

اس نے ماں کو یقین دلایا کہ  ایسا ویسا کچھ نہیں ہوگا ۔میں اپنے وطن سے محبت کرتا ہوں آخر پاکستان آؤں گا۔ابھی پانچ  سال لگاکر آجاؤں گا پھر شادی یہیں آکر کروں گا۔ وہاں میں صرف کمانے جارہا ہوں شادی کے لئے تو نہیں جارہا۔ماں جانتے بوجھتے کہ “کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک” کے مصداق طوعا وکرہا اس کی ضد سے مجبور ہوکر اس کے سامنے ہتھیار پھینک دیتی ہے۔

اب آتے ہیں اس نوجوان کی جانب وہ یورپ جانے کو تمام مسائل کا حل سمجھتا تھا۔وہ سمجھتا تھا ہرپریشانی،مصیبت اورمسئلہ کا حل دولت ہے۔ دولت کا دوسرانام یورپ ہے۔ وہاں جانے کی دیر ہے بس زحمت رحمت میں،غم خوشی میں،بدحالی خوشحالی میں،ذلت عزت میں الغرض لوگوں کی نفرتیں وحقارتیں تک محبت و تکریم میں تبدیل ہوجائیں گی۔اور وہ رب کا یہ فرمان بھول جاتاہے کہ  مال ودولت وعیش کی فراوانی کامیابی ،شادمانی ،عزت اور رحمت کی دلیل نہیں۔رب کا فرمان ہے:”اورکتنے شہر ہم نے ہلاک کردیئے جو اپنے عیش پر اتراگئے تھے تو یہ ہیں ان کے مکان کہ ان کے بعد ان میں سکونت نہ ہوئی مگر کم اور ہمیں وارث ہیں۔”القصص :58

نیزوہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ خواہشات کا سیلاب  نہ ختم ہونے والا ہے ۔ اس کے سامنے بند باندھے بغیر فلاح ممکن نہیں۔ اور سیلاب میں بہنے والا گمراہی اورہلاکت میں مبتلا ہوجاتاہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:”اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون  ہے جو اپنی خواہش کی پیروی کرے” القصص: 50

بہرحال مجبور ہوکر اس کے والدین نے اس کی خاطر اپنی آبائی زمینیں  بیچ  اور کچھ قرض لے کر اس کے یورپ جانے کا سامان کیا۔اب وہ بہت خوش ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستانیوں کی بڑی تعداد یورپ  اورامریکا کا رخ کررہی تھی۔ اس وقت تک امیگریشن کے مسائل اتنے سخت نہ تھے۔ ماں سے پروانہ ملنا تھا کہ باقی تمام مراحل خود بخود خوش اسلوبی سے طے ہوگئےاور اس کا یورپ (برطانیہ) جانے کاخواب پوراہوگیا۔

وہاں پہنچ کرقسمت نے بھی اس کی خوب یاوری کی اس کا مقدر خوب چمکا اور جلد ہی اسے مناسب جاب مل گئی۔فکرمعاش سے آزاد ہونے کے بعد وہ فارغ وقت میں  ادھرادھر سیروتفریح کرنے لگا۔ جب اس نے وہاں کی چکا چوندورعنائی  دیکھی تو یہ کچھ بدحواس سا ہوگیا۔اس ملک کا حال جیسا سنا تھا  اس سے بھی سوانکلا۔ ویسے بھی  یہ جس علاقے سے گیا تھا وہاں ابھی بجلی بھی نہ پہنچی تھی ۔ جب کہ وہاں جاکر جو اس نے دنیا دیکھی تو افسوس کرنے لگا اتنی زندگی بے کار ضائع ہوگئی۔ یہاں تو بہت پہلے آجانا چاہئے تھا۔

 ابھی چھ ماہ بھی نہ ہوئے تھے کہ اس کی والدہ کا ڈر  عملی روپ دھارنے لگا۔ اس کا سامنا ان ہی خصوصیات واوصاف کی حامل ساحرہ سے ہوگیا جس نے بہت جلد اس مرعوب شخص کو اپنی زلفوں کے جال میں جکڑ لیا اور وہ ساحرہ اسے سرتاپا گلابوں کا شجر محسوس ہونے لگی اور اس کی حالت بشیر بدر کے اس شعر کی طرح ہوگئی:

وہ سرتاپا گلابوں کا شجر لگتا ہے

باوضو چھوتے ہوئے بھی ڈر لگتاہے

بہرحال اس محبت کے قصے کو طول دینے کے بجائے اصل مدعا کی طرف آتے ہیں۔

دوڈھائی سال کا عرصہ گزرنے تک یہ صاحب اس بھولی بھالی سی  ساحرہ(لڑکی) سے شادی کرلیتے ہیں۔ اور برطانیہ کی شہریت کے حامل ہوجاتے ہیں۔ماں سے خط وکتابت جو آہستہ آہستہ کم ہوچکی تھی بالکل ہی ختم ہوجاتی ہے۔

کچھ عرصہ بعد اس کا ایک بیٹا اورایک بیٹی ہوتی ہے۔ پھر وقت پرلگا کر گزرتاجاتا ہے۔ یہاں تک اس کا بڑا بیٹا دس برس کا ہوجاتاہے۔جوں جوں بچوں کی عمر بڑھتی جاتی ہے تھے اس شخص کی پیشانی پر بل پڑتے جاتے ہیں۔  بیٹا اوربیٹی  کے بڑھنے  اوراپنے  باپ کو کسی خاطر میں نہ  لانے کی وجہ سے یہ شخص کچھ زیادہ پریشان رہنے لگا۔ ایک دفعہ توحد ہی ہوگئی  اس کا بیٹا کسی بات پر خفا ہوگیا اوراس نے پولیس کوبلالیا۔جہاں اسے  جیل کی ہوا کھانا پڑگئی ۔ اب وہ بہت پریشان ہوا۔پولیس نے بچے کے معاف کرنے اور اس عہد پر کہ آئندہ وہ بچے کو کچھ نہ کہے گا معافی تلافی کرادی۔ اور یوں “جان بچی تو لاکھوں پائے لوٹ کے بدھوگھر کوآئے” کے مصداق گھرواپس آگئے۔

اب حسن وجوانی کا سارا نشہ ہرن ہوچکا تھا۔ اسے والدہ کے وہ الفاظ یاد آنے لگے کہ بظاہر خوبصورت ہیں لیکن ۔۔۔ اب یہاں سے چھٹکارا بھی بہت مشکل لگ رہا تھا۔ بچے  اوران کی ماں تو کبھی بھی نہ چاہیں گے کہ پاکستان واپس چلیں جائیں۔نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ اب ان صاحب کو ایک” چپ” سی لگ گئی۔یہ “چپ” کیا چیز ہے ،ہر وہ شخص اس سے بخوبی واقف ہے جس کے بچے بڑے ہوجائیں اور باپ ان کی کسی بھی خطا بلکہ بغاوت پر “اف” تک نہ کرسکے ۔ اب اسے پاکستان کی یاد ستانے لگی۔ اب اسے یہاں کی اچھائیاں بھی برائیاں لگنے لگی  کہ یہ کیسا ملک ہے نہ تو وہ اپنی مرضی سے کہیں تھوک سکتا ہے، نہ کہیں کچرا پھینک سکتاہے، نہ اپنے بچوں کو جھڑک سکتا ہے، نہ اپنی بیوی کو ڈانٹ سکتاہے اور اس طرح کی بے شمار باتیں اب اسے بہت بری لگنے لگیں۔اسے اپناماضی یاد آتا جب وہ باپ کی ایک پکار پر بے ساختہ دوڑتا ہوا آجاتا تھا اورذرا سی ڈانٹ ڈپٹ پر ڈر سہم جاتاتھا لیکن وہ تو پاکستان تھا اور یہ یورپ۔ اپنی اولاد سے تو یہ خود ڈرتاتھا۔، یہ کیسی آزادی ہے؟ اس نے سوچا اصل آزادی  تو پاکستان میں ہے یہاں نہیں ہے۔ آزادی اظہار کا نعرہ یہاں ہے لیکن  آزادی پاکستان میں ہے!

بہرحال وقت یوں ہی گزرتا رہا۔ جب بچےجوان ہونے لگے  تو انہیں اپنے سر سے پانی  اور پاؤں کے نیچے سے ریت پھسلتی ہوئی محسوس ہوئی ۔اس نے سوچا یہی چند ماہ ہیں اگر کچھ نہ کیا تو ساری زندگی کی جمع پونچی لٹ جائے گی۔ بہرحال وہ جو پچھلے چند  برس سے  گھر والوں   سے ہوں ہاں کے علاوہ بات نہ کرتا تھا ایک دن موم  کی طرح پگھل گیا۔ دوبارہ  بچوں میں گھل مل گیا۔ ان پر خزانے کا منہ کھول دیا۔آئے دن بچوں کو گھمانےاورسیروتفریح کے لئے لے جانے لگا۔ گھروالوں کو بھی خوشگوار حیرت ہوئی یہ کیا ماجرا ہے۔بقول اسماعیل میرٹھی

یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا

کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا

بہر حال انہوں نے سوچا دیرآید درست آید۔

لیکن اب سیروتفریح میں ایک چیز پہلے سے ہٹ کر تھی ۔اب جب بھی کسی مقام کی سیر کراتے تو بولتے یہ کتنا خوبصورت ہے  ارے لیکن میرا وطن تو اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ کشمیر کی وادیاں،کے پی کی پہاڑیاں،بلوچستان کے پہاڑ اورسنگلاخ،خوبصورت وادیاں،حسین باغات،جھیلیں ،ساحل سمندراوردیگر قدرتی مناظر، کچھ اس انداز سے نقشہ کھینچتے کہ بچوں کے دل کھنچے چلے جاتے۔انہوں نے فرمائش کردی کہ ہمیں پاکستان بھی گھمایا جائے۔ ان کی ماں اگرچہ مخالفت کرتی رہی ۔ لیکن ان کی باتیں ہی کچھ ایسی دل موہ لینے والی تھیں کہ وہ  نوعمر نوجوان  پاکستان جاکر  سیرکرنے کے درپے ہوگئے۔بچوں  کی خاطر ان کی ماں بھی ایک مہینہ کے لئے ان کے ساتھ پاکستان جانے پر رضامند ہوگئی ۔انہوں نے جھٹ پٹ سارا انتظام کیا اور وہ اپنی بیگم اوربچوں کو لے کر کراچی ایئرپورٹ  کے لئے جہاز پر سوار ہوگئے ۔ یہ تقریباًبیس برس کے بعد پاکستان واپس جارہے تھے۔جیسے جیسے پاکستان آرہا تھا اس شخص میں ایک توانائی ،چہرے پر(طنزیہ)مسکراہٹ،لب لہجہ میں درشتگی آرہی تھی۔ یہاں ایئرپورٹ پر جہاز کے اترتے ہی ان کا رنگ ڈھنگ  بالکل ہی بدل گیا۔ایئرپورٹ سے نکلتے ہی انہوں نے تمام سفری کاغذات اورپاسپورٹ وغیرہ اپنی تحویل میں لے لئے۔ جب ماں نے شور کیا تو انہوں نے وہیں سب کے پاسپورٹ ودیگر تمام ضروری سفری کاغذات کوپھاڑ کر آگ لگادی۔ اب ان  کے بدلے ہوئے تیور  دیکھ کر بچے ہکا بکا رہ گئے ۔ ابھی جب یہ سب کچھ کررہے تھے تو بڑے بیٹے نے کہا ڈیڈ آپ نے  پولیس کے سامنے وعدہ کیا تھا آئندہ سختی سے بات نہ کریں گے اور آج تو آپ نے تھپڑ بھی ماردیا۔بچے کا یہ کہنا تھا کہ باپ نے گھما کر زور دار قسم کا تھپڑ رسید کیا اور کہا یہ میرا پاکستان ہے۔ بچے نے دوبارہ پولیس کو بلانے کی دھمکی دی۔ اس نے کہا جسے بلانا ہے بلالاؤ۔ یہ کہہ کر بچے کو ایک  اورزوردارتھپڑرسید کردیا۔بچہ ایئر پورٹ پر موجود ایک پولیس والے کے پاس گیا اور بولا میرے ڈیڈ نے مجھے تھپڑماراہے۔پولیس والے کے لئے یہ صورت حال بالکل نئی تھی۔ اس نے پوچھا وہ تمہارے ابو ہیں ۔اس نے کہا ہاں ۔اس نے جوابا کہا بیٹا جاؤ اپنے ڈیڈ سے سوری کرلو وہ مان جائیں۔باپ جنت کا دروازہ ہوتا ہے اس کا دل نہیں دکھایاجاسکتا۔

بچہ ایک ہاتھ سے اپنا گال سہلارہاتھا وہ سب کچھ بھول بھال  کر پولیس  کی جانب متوجہ ہوا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے بلاوجہ مارا ہے۔ اورآپ اس کی طرف داری کررہے ہیں۔مجھے اپنے افسر سے ملواؤ ۔جب بچے نے وہاں چیخ کر یہ کہا تو اس کا باپ سینہ تان کر وہاں آیا اور ایک اورزوردار تھپڑ رسید کرکے کہا اب بلا اپنی پولیس کو۔یہ ہماری پولیس ہے۔ یہ پاکستان کی پولیس ہے۔ اب تم لوگ کان کھول کر سن لو کوئی واپس نہیں جائے گا۔ پولیس والا بھی یہ کہہ کر ایک جانب چلا گیا بیٹا اپنے ابو سے معافی مانگ لو اورجو کہہ رہیں وہ کرلو۔

اب اس شخص نے کہا :میں مستقل یہیں رہوں گا۔ یہ یورپ نہیں کہ میرے ہاتھ پاؤں بندھے ہوں اب میں آزاد فضاؤں میں آگیا ہوں۔ اگر کسی نے میری حکم عدولی کی  میں اس کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دوں گا۔   میں جو،جیسے اورجب کہوں بلا کسی لیت ولعل  فوراً  میرے حکم کی تعمیل کرنی ہوگی ۔یہ کہہ کر وہ سینہ تان کر اکڑ کرکھڑاہوگیا اورچند ہی منٹ میں بچے کے تمام کس بل نکال دیئے جو یورپ کی فضاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ جس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ وقتی طور پر وہ اس کی بیٹی اوربیوی بھی خاموش ہوگئیں۔ اور یوں یہ انہیں اپنے گاؤں لے گیا۔ یوں وہ وقتی طور پر اپنے بیوی بچوں پر دوبارہ غالب آجاتاہے جو اس اچانک پڑنے والی افتاد سے سنبھل بھی نہیں پاتے کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہوچکا ہے۔

آگے قصہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس وقت میڈیا کا دور اتنا نہیں تھا ۔ اس لئے سب کچھ خاموشی سے طے پاگیا اس کی بیوی بچوں  کے پاس واپس جانے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ گاؤں میں وہ وہاں امیگریشن آفس  تو تھا نہیں کہ اس کے چکر  کاٹ  لیتے۔ رودھو کر وہ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں اب ان صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔ سوسنار کی ایک لوہار کی ۔غالب لوہار کی ہی ٹھہری ۔

لیکن اپنی ناعاقبت اندیشی سے  وہ صاحب  یہ بھول گئے کہ منفی انداز میں دبانے اورجبر سے محبت نہیں خریدی جاسکتی  بلکہ یہ نفرت بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔  یہی ہوا اس کے طرز عمل سے اس کے بیوی بچے اس سے نفرت کرنے لگے۔ جب تک اس کے بچے اس کے دست نگر رہتے ہیں وہ بامر مجبوری اس کے پاس رہتے ہیں لیکن جب وہ بڑے ہوجاتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح  اپنی ماں کے ساتھ واپس برطانیہ چلے جاتے ہیں اوردوبارہ اس کی طرف رخ بھی نہیں کرتے۔ اور تمام تر آسائشوں اورجدید آلات مواصلات کے اس سے رابطہ بھی نہیں کرتے۔ وہ اپنی جوان  اولاد کے ہوتے ہوئے بھی  تنہائی کا شکار ہوجاتا  ہے۔ یہ تنہائی کا زہر کِس قدر مہلک ہے اس کا احسا س صرف تنہائی  سے ڈسے ہوئے فرد ہی کو ہوتا ہے ۔ یہ وہ  زہرہے جو صرف جسم کو نہیں بلکہ روح تک کو گھائل کردیتا ہے، یوں یہ اس کے لئے  سوہان روح بن جاتاہے ۔  لمحہ لمحہ اس کے لئے اذیت ناک ہوتا ہے۔اس کی زندہ رہنے کی خواہش ختم ہوجاتی ہے وہ  زندگی  کے بجائے موت کی آغوش میں  جانا چاہتا تھا۔لیکن وہ بھی شاید اس سے روٹھی ہوئی اورخفاتھی ۔لہذا اس کے اندر ایک نہ دکھائی دینے والی آگ سلگنے لگتی ہے۔جس کا کسی دوسرے کواحساس تک نہیں ہوتا کیونکہ اس آگ کا کوئی دھواں تک نہیں تھا بقول حامد جیلانی

دیکھنے والے کو باہر سے گماں ہوتا نہیں

آگ کچھ ایسے لگائی ہے دھواں ہوتا نہیں

اور وہ اکثر تنہائی میں سوچا کرتا تھا کہ وہ جس مال و دولت کو جمع کرنے یورپ گیا تھا اب جمع کرنے کے باوجود وہ کس قدر بدحال ہے۔وہ مال  اس کے  کسی کام  کا نہ تھا۔اب اسے اندازہ ہوا کہ دولت تو اپنوں کی اجنبیت و نفرت کو محبت میں نہیں تبدیل کرسکتی کجا دشمنوں کی نفرت کو۔ دولت کے بجائے صرف اچھے اخلاق ہی سے لوگوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔

آخر میں دیارغیر جانے والوں کے نام پیغام :ذراسنبھل کررہیں۔ ضروری نہیں ہر دفعہ پھسلنے کے بعد مہلت ملے ۔ یہ بھی ممکن ہے کوئی پہلی دفعہ پھسلے اور ہلاکت کے گڑھے میں گرجائے۔یہاں پھسلنے سے میری مرادجسمانی نہیں بلکہ  ذہنی وروحانی ہے۔ جیسا کہ عربی کا شعر ہے:

یموت الفتی من عثرۃ لسانہ

آدمی زبان کی لغزش سے ہلاکت میں مبتلا ہوجاتاہے (یہاں زبان  ذہن وباطن کوظاہرکرتی ہے)

ولیس یموت المرء من عثرۃ الرجل

جب کہ ٹانگ پھسلنے سے مرتا نہیں ہے

فعثرتہ من فیہ ترمی برأسہ

کیونکہ زبان کی لغزش اس کے منہ کے گراتی ہے

وعثرتہ بالرجل تبری علی المہل

جب کہ ٹانگ پھسلنے کے باوجود اسے مہلت مل جاتی ہے

اللہ رب العزت ہمیں خواہشات کے سیلاب کے سامنے بند باندھنے کی اور اولاد کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو بڑھاپے میں سہارا اور آخرت  کے  لئے توشہ ثابت ہو۔آمین

Short URL: http://tinyurl.com/yxzkeu6h
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *