رشوت لینے اور دینے والا جہنمی ہے

Akhtar Sardar Chodhary
Print Friendly, PDF & Email

کرپشن کے خاتمے کاعالمی دن ۔9 دسمبر 2016ء۔ ایک خصوصی تحریر

تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال


کرپشن کیا ہے ؟ ہم رشوت لینے اور دینے کو کرپشن کہتے ہیں ۔ہر عمل جو قانونی ، سماجی ،معاشرتی ،ا خلاقی اور مذہبی قوانین و ضوابط سے ہٹ کر ہو وہ کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔کرپشن ایک بیماری ہے اور یہ معمولی نہیں ایک خاص قسم کی چھوت کی بیماری ہے جو کسی ایک سے دوسرے کو منتقل ہوجاتی ہے اور بڑھتی ہوئی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس بیماری کا علاج کیسے ممکن ہے؟ کرپشن سے پاک کرنے کے لئے اینٹی کرپشن کاعالمی دن منایا جاتا ہے، آگاہی مہم چلائی جاتی ہے۔اس دن کی مناسبت سے ٹی وی پروگرام کئے جاتے ہیں اخبارات میں خصوصی ایڈیشن شائع کئے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 31 اکتوبر2003 ء میں اعلان کیا تھا کہ ہر سال نو دسمبر کو اینٹی کرپشن ڈے منایا جائے، اس طرح پہلی بار اینٹی کرپشن ڈے 9 دسمبر 2004 ء کومیکسیکو میں منایا گیا ۔جو کہ اب ہرسال کرپشن کے خلاف جنگ کے عزم کی ازسرنو تجدید کے ساتھ دنیا بھر میں منایا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد عالمی معاشرے کو کرپشن سے پاک کر نے کے عزم کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات بھی اٹھانا ہے، جس سے کرپشن کی مکمل روک تھام ممکن ہو سکے۔
کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسلہ کرپشن کا ہی ہے ،لیکن کرپشن صرف پاکستان کا نہیں بلکہ ایک عالمی مسلہ ہے ۔اس دن پوری دنیا میں اینٹی کرپشن ادارے اپنے اپنے سرکاری اداروں کا محاسبہ کرکے میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کرتے ہیں ۔ہمارے ملک میں اس دن سچائی کہیں دور سسکتی رہتی ہے ۔سچائی یہ ہے کہ ہمارا ملک پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور اس میں اسلام کا مذاق اڑایا جاتا ہے ،جس کے ہر پولیس اسٹیشن کی دیوار پر لکھا ہوتا ہے ’’رشوت لینے اور دینے والا جہنمی ہے ‘‘ اور یہ محکمہ کرپشن کے حوالے سے ملک کا کرپٹ ترین محکمہ ہے ۔اسے اسلام کے مذاق اڑانے کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے ۔
کرپشن کے حوالے سے محکمہ پولیس پہلے،سرکاری دفاتر دوسرے ، سیاسی پارٹیاں تیسرے ، پارلیمنٹ چوتھے ، صحت کا شعبہ پانچویں ، عدلیہ چھٹے اور تعلیم کا شعبہ ساتویں نمبر پر ہے۔ہمارے ملک میں صحت ،عدل و انصاف،تعلیم وکھانے پینے کی اشیاء میں کرپشن ہے ۔جائیداد و دیگر رجسٹریشن کے شعبے ، یوٹیلیٹی بلز ،بجلی ، گیس ، پانی ، ٹیلی فون وغیرہ ،ٹیکس ،مزارات وغیرہ پر کرپشن کاراج ہے ۔
قانون نافذ کرنے والے حکام معاشرے میں افراد کے حقوق کے تحفظ اور خدمات پر مامور ہوتے ہیں۔یہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتے ہیں۔یہ ہی وہ ادارے ہیں، جنہوں نے کرپشن کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے اگر یہ ادارے خود کرپشن میں ملوث ہوں گے تو کرپشن کو کنٹرول کرنا کس طرح ممکن ہے ۔ان ا داروں میں اختیارات کا غلط استعمال عام سی بات بن چکا ہے ۔
اخبارات بڑے پیمانے پر قومی خزانے کی لوٹ مار کی کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ کرپشن جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، جس کا تدارک ناگزیر ہے ۔ پاکستان میں کرپشن کی تحقیقات کرنے والا سب سے بڑاادارہ قومی احتساب بیورو(نیب) کا جو حال ہے، وہ سب کے سامنے ہے، قومی احتساب بیورو کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے ،جیسے انہوں نے ملک میں کوئی کرپشن کرنے والا نہیں چھوڑا لیکن حقیقت میں وہ صرف ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔پیپلزپارٹی کا پانچ سالہ دور حکومت ، سابقہ صدرمشرف کا دور حکومت اور موجودہ حکومت کے سا ڑھے تین سال کے دوران نیب کی کارکردگی میں کچھ خاص فرق نظر نہیں آیاہے ۔بدعنوانی کے بڑھتے ہوئے اس ناسور کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب لوگ بدعنوانی کے مرتکب ہو کر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ اس پر فخر محسوس کرتے ہیں، اسے عقل ،عیاری ،چالاکی ،ذہانت ،ہنر سمجھتے ہیں ۔
کرپشن،بد عنوانی آج ایک حق کی صورت اختیارکر چکی ہے ۔اسے برائی سمجھا ہی نہیں جاتا ۔جس نے کرپشن کی ہووہ الزام میں گرفتار ہو تو وکٹری کا نشان بنا کر قانون کا مذاق اڑا رہا ہوتا ہے، دوسری طرف عوام اس کے حق میں مظاہرے کرنے سڑکوں پر آ جاتے ہیں، جیسے اس نے بڑا نیک کام کیا ہو ۔پھر عدلیہ جیسے محکمے میں وہی مجرم باعزت بری ہو جاتا ہے ۔ایسے قانون اور اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کی وجہ سے معاشرے میں بد عنوانی کو قبول کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے ۔ہمارے ملک میں ناجائز ہی نہیں اپنا جائز کام کروانے کے لیے جیب گرم کرنے کا عمل تقویت حاصل کررہا ہے ۔
ماہرین اس امر پر بھی متفق ہیں کہ بدعنوانی منظم جرائم اور دہشت گردی کے فروغ کا باعث ہے ۔کرپشن کی جڑیں ملک میں بہت مضبوط ہو چکی ہیں ۔اتنی کہ ان کو اب برائی ہی نہیں سمجھا جاتا ۔رشوت کو حق سمجھ لیا گیا ہے ۔ملاوٹ کو کاروبار ۔اس لیے اب ان جڑوں کو کاٹنے کی اشد ضرورت ہے ،یہ جڑیں کاٹنے کیلئے نوجوان نسل کے اندر جذبہ موجود ہے ۔خا ص کر ان میں جو مڈل طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ کرپشن کے خاتمے کے لیے کافی متحرک ہیں ۔لیکن ان کے سامنے کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے ۔کرپشن سے پاک کوئی جماعت نہیں ہے ۔ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے، جس کے قوم و فعل میں تضاد نہ ہو ۔اکثریت ایسے رہنماؤں کی ہیں۔وہ جن کے خلاف دھواں دار تقریر کرتے ہیں، ان کو ہی دوسری جگہ اپنا بھائی کہہ رہے ہوتے ہیں۔اور اسے سیاست کا نام دیتے ہیں ۔یہ تضاد ہی کرپشن ہے۔
کرپشن کے خاتمے کے لیے دو رائے پائی جاتی ہیں ،ایک یہ کہ بد عنوانی کی لعنت کا خاتمہ صرف قوانین سے نہیں بلکہ معاشرے میں اس کے خلاف ہر فرد میں اس کی ذمہ داری کا احساس اجاگر کرنے سے ہو گا ۔اساتذہ ،سول سوسائٹی اور میڈیا جس میں کالم نگار ،اینکر بھی شامل ہیں کو مل کر کرپشن کے خلاف تحریک آگاہی چلانی چاہئے ۔دوسری رائے یہ کہ ملک میں کرپشن کے خاتمے کے لیے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے ۔بے شک کہ یہ دونوں باتیں اپنی جگہ درست ہیں ۔لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک کے موجودہ حالات کی سب سے بڑی وجہ کرپشن ہے ،کرپشن کی وجہ قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے ہمارا ملک ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں ہو پا رہا ۔
ملک میں کر پشن اور ناانصافی کے خاتمہ اور ہر کام میرٹ کے مطابق چلانے کے لئے ضروری ہے ،سب سے پہلے ہمیں خود کا احتساب کرنا ہو گا۔ کیونکہ ہم کسی نہ کسی حوالے سے اس کا حصہ ہیں، دوسرا عوام میں بڑھتی ہوئی ما یوسی اور ناامیدی کو ختم کیا جائے، قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے تاکہ کرپشن کا خاتمہ ہو۔

Short URL: http://tinyurl.com/jgqm9oj
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *