بھارت کی خفیہ چالیں اور پاک فوج کی حکمت عملی

Mehmood moulvi
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: محمود مولوی (مشیربرائے وزارت بحری امور)
شمالی وزیرستان میں پی ٹی ایم کا چیک پوسٹ پر حملہ یقینی طورپر لمحہ فکریہ ہے ، واقعے کی پوری قوم نے ہی مذمت کی ہے ،آخر یہ سب کچھ ہوکیا رہاہے ،آج کی تحریر میں ہم اس پر بات کرینگے ۔رواں برس فروری کے آخر میںہندوستان کو جو پاکستان کے ہاتھوں منہ کی کھانا پڑی تھی اس کے بعد سے ہندوستان نے اپنی ان کوششوں کو مزیدتیز کردیاہے کہ کسی نہ کسی طرح سے پاکستان پر حملہ کرنے کی بجائے اس کے اندر سے حالات کو خراب کیا جائے ۔26 اور27فروری کو ہندوستان کو جو تلخ تجربہ ہواہے جس میں پاکستان نے بھارتی دراندازی کے نتیجے میں بھارت کے دوجہاز مار گرائے اور ان کا ایک پائلٹ بھی گرفتار ہواتھا اس میں بھارت کو سفارتی سطح پر سخت حزیمت کا سامنا کرناپڑاتھا جس سے بھارت آج تک سخت ازیت اور کرب سے دوچار نظر آتاہے ۔لہذااس عالمی شرمندگی کے بعد اب ہندوستان اپنے فوجی اور سیاسی حلقوں میں اس تصور کو آگے بڑھارہاہے کہ پاکستان سے براہ راست ٹکراﺅ کی بجائے ،پاکستان کے اندر خلفشار کو اس انداز میں پھیلا دیاجائے کہ کہ پاکستان کی اندرونی اور بیرونی یکجہتی اور ھم آھنگی کو نقصان پہنچے ۔اس سلسلے میں بھارت کی سوچ تو پہلے بھی اسی قسم کی تھی لیکن اب ہندوستان نے اپنے گھناﺅنے ارادوں کو زیادہ منعظم کرنے کا فیصلہ کیاہواہے جس کا اندازہ مجھے انڈیا کی خفیہ ایجنسی کے ایک افسر کی ویڈیو کو دیکھ کر ہوا جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بھارت کبھی پاکستان کا دوست نہیں بن سکتاوہ گفتگو کیا ہے اسے قائرین کی خدمت میں پیش کیئے بغیر تحریر کو مزید آگے بڑھانا درست نہیں ہوگا۔ویڈیو میں بھارتی افسر اپنی گفتگو میں کہتا ہوادکھائی دے رہاہے کہ پاکستان کو طاقت سے گرانا آسان نہیں ہوگا وہ اپنی تقریر میں پاکستان کی صلاحیتوں کااعتراف کرتاہے اور ساتھ ہی اپنے لوگوں کو ہدایات دیتاہے کہ ۔آ پ کو یہ کرنا چاہیے کہ جتنے بھی سندھی ہیں بلوچی ہیں پٹھان ہیں ان کے لیے دہلی میں زمین دیکھیں سرکار پیسہ خرچ کرے، فالتو کاموں میں بھی پیسہ خرچ کرتے ہیں یہ تو اچھا کام ہے، اس ایمبیسیز بنائیں دفاتر بنائیں اور سندھی ، بلوچ اور پٹھان قوم کے جو ٹاپ کے لیڈر ہیں ہر قوم کے چاہے سو ہیں یا دو سو ان کو سٹیزن شپ دیں ، ان کے لیے بلڈنگز خریدیں دفاتر خریدیں ، نیو یارک میں ، برسلز میں ، لندن میں ، پیرس میں قریب پانچ یا سات ملکوںمیں آفسزخریدیں ، پھر بلوچ ، سندھی اور پٹھان لڑکوں کو انڈیا میں بلا کر ٹریننگ دیں اور ان کو ان بیرون ممالک میں تعینات کریں ان کوتنخواہیں دیں مراعات دیں ، او ر ان سے کہیں پاکستان کی انفارمیشن ہمیں دے، اب اس انداز میں لڑائی لڑنی ہوگی ہمیں پیسہ خرچ کرنا ہوگا، اپنی فورسز کو بھی مضبوط کریں ، بلوچوں کے لیئے ایک بلڈنگ بنائیں نیو یارک میں بلوچستان ہاﺅس کے نام سے ، واشنگٹن میں بنائیں لندن میں بنائیں، یو کے پارلیمنٹ سے دس قدم دور بلوچوں کی بلڈنگ ہونی چاہیے، جس کے لیئے انڈیا فنڈ دے ہمارے پاس پیسہ ہے، ہمیں پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ایسے کام کریں جس سے مسلسل پاکستان کو نقصان ہو، پوری دنیا میں انفارمیشن وار لڑیں ، ان تمام ایمبیسیز کو انڈین ایمبیسی کے ساتھ منسلک کردیں ، ایک بڑی مہم چلانی ہوگی آپ کو ہزارو ں کروڑ خرچ کرنے ہونگے، امریکہ میں اور لندن میں جو پاکستان اپنی بسیں چلار ہا ہے وہ یہی تو کر رہا ہے جو ہمیں کرنے کی ضرورت ہے ، ان سب کے لیئے پیسہ چاہیے اور ہمارے پا س پاکستان سے زیادہ پیسہ ہے، ہمیں ایک چیک ہی تو کاٹنا ہے سو ملین ڈالر کا اور شروع کریں ، سندھی نیشنلزم ، بلوچ نیشنلزم اور پختون نیشنلزم اس کا نعرہ لگا دیں یہ پاکستان کی فالٹ لائنز ہیں یہ لوگ ہمیں نہیں چاہیے ہیں اپنا ملک بنا لیں سندھ الگ ملک بن جائے ، لیکن ہمیں کچھ نہیں چاہے ہم نے بنگلا دیش بنایا ان سے کچھ لیا ہمیں کچھ نہیں چاہیے، سندھ کو الگ ملک بننا چاہیےءاور یہ کیسے بنے گا، اس کے لیے ایسا نہیں ہے کہ ہم انڈیا آرمی کو بولیں کہ حملہ کردو ان پر ایسے کچھ نہیں ہوگا یہ دھیرے ھیرے بنے گی ، فالٹ لائنز ہیں پاکستان ہیں انکا ایڈوانٹیج لینے کی ضرورت ہے۔ بھارتی افسر کی یہ سوچ اور گفتگواس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ بھارت اپنی غفتگی مٹانے کے لیے کچھ بھی کرسکتاہے وہ کشمیر کے حصول اور پاکستان کے امن کو ثبوتاز کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتاہے ،جب بھارت کے لوگ اس قسم کی سوچ رکھیں گے تو یقینی طورپر ہمیں اپنے اردگر کے ماحول پر کڑی نظر رکھنی ہوگی ۔کیونکہ بھارت یہ جان چکاہے کہ پاکستان کی فوج سے ٹکرانا ان کے بس کی بات نہیں ہے ہندوستان کی اینٹلی جنس اور دوسرے ادارے پیسے کابے دریغ استعمال کرسکتے ہیں اور اس قسم کے پروپیگنڈے کے لیے پاکستان کی سیاسی اور معاشی فضاکو سوگوارکرسکتے ہیں ،اور ماضی میں بھی کرتے رہے ہیں ،اس ضمن میں بلوچستان سمیت ملک بھر میں موجود کچھ شدت پسند تنظیموں پر کڑی نگاہ رکھنی ہوگی جو پاکستان کی ریاست کے خلاف کام کررہی ہیں ،تاکہ بلوچستان کا امن خراب ہو،کوئٹہ میں دہشت گردی بڑھے اور اس طرح پوراملک ہی افراتفری میں الجھارہے ،جبکہ دشمن ملک یہ بھی چاہتاہے کہ کسی نہ کسی طرح سے پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے منصوبے کو بھی متاثر کیا جائے اور اسی ضمن میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے علاوہ کچھ شرپسندتنظیموں کو فنڈ مہیا کیا جاتاہے جس کا اظہار پاکستان کی میڈیا اور پاک فوج کی میڈیا کی جانب سے ہمیں بروقت آگاہی بھی ملتی رہتی ہے ،جبکہ کلببھوشن یادیو کی مثال اس سلسلے میں دی جاسکتی ہے جبکہ ہماری فوج نے ایسے بے شمار لوگوں کو جہنم واصل کردیاہے اور بہت سی شدت پسند تنظیوں جن پر شکوک ہیں ان پر پابندی بھی عائد کردی گئی ہے لہذا بھارت کسی بھول میں نہ رہے کہ ہم اپنا فاع نہیں کرسکتے ،دنیا تو یہ بھی جانتی ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیاں افغانستان کی سرزمین سے پاکستانی طالبان کی اقتصادی مدد کرتی رہتی ہیں جو کہ اس وقت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے امن کو ثبوتاز کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں ۔جبکہ ہماری فوج کی حکمت عملی میں ایک بات یہ شامل ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان میں کیے جانے والے پروپیگنڈے پر ملکی اور غیر ملکی میڈیا پر بھرپور جواب دیاجائے اور انہیں ہر لحاظ سے عالمی میڈیا پر بے نقاب کیا جائے ۔اوربھارت جس انداز میں کشمیر میں ظلم کررہاہے وہ ظلم ماضی کی نسبت اب اس لیے بھی بڑھ چکاہے کہ کشمیر میں اب آزادی کی تحریک بہت زور پکڑچکی ہے اور بھارت کے لیے اب مشکل ہوتاجارہاہے کہ وہ کشمیر پر پر امن طریقے اپنا تسلط قائم رکھ سکے اس لیے بھارت نے کشمیر میں بھی اپنی فوجی طاقت کا ستعمال بڑھادیاہے جس سے روزانہ کی بنیادپر کشمیری نوجوانوں کی شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے ،جس کے لیے افواج پاکستان بھی کسی بڑی جھڑپ کا بھرپور جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیاردکھائی دیتی ہے جبکہ ان تمام مسائل کو روکنے کے لیے پاکستان کو بھی اپنا اینٹلی جنس ورک مزید بڑھا دینا چاہیے ،پولیس اور فوج کو اپنے خفیہ اداروں کو مزید متحرک کرنا چاہیے تاکہ مشکوک افراد پر کڑی نظر رکھی جاسکے۔اس کے علاوہ عام شہریوں کو بھی ہندوستان کے خفیہ عزائم سے باخبر رہتے ہوئے اپنے ارد گر کے ماحول پر نظر رکھنی چاہیے ۔اس کے علاوہ فوج کا یہ فیصلہ کہ پاکستان اور ہندوستان باڈر پر باڑ لگادی جائے اس پر یقینی طورعمل ہونا چاہیے اس ضمن میں فوج کی نگرامیں کافی کام ہوچکاہے اور اب مزید بہتری کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اور ایران باڈر پر بھی اسی قسم کی حفاظتی باڑ لگائی جائے اگرچہ یہ کافی مہنگا کام ہے لیکن باڑ لگنے کے بعد اس کی اگرموثر نگرانی ہودشمن عناصر کو کنٹرول کرنا کافی آسا ن ہوجائے گا۔ ختم شد

Short URL: http://tinyurl.com/y5z86l96
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *