مسئلہ کشمیر اور بھارت کی ہٹ دھرمی۔۔۔۔تحریر:ستارہ آمین کومل

Satara Amin Komal
Print Friendly, PDF & Email

پاکستان اور بھارت درمیان مسئلہ کشمیر شروع سے ہی وجہ تنازعہ ہے ۔ قیام پاکستان کے وقت کشمیر کی 80 فیصد آبادی مسلمان تھی ۔ وہاں کے مسلمانوں کی شدید خواہش تھی کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے ۔ مگر ڈوگرا راجا ہری سنگھ پاکستان اور مسلمانوں کے سخت خلاف تھا ۔ اس نے عیاری مکاری سے کام لیا اور کشمیر کا الحاق بھارت سے کردیا۔ بھارتی افواج کو یہاں داخل کروا کر بھارت کا تسلط قائم کردیا گیا ۔وہ دن اور آج کا دن بھارتی افواج دن بہ دن وہاں ظالمانہ کاروائیاں کرکے کشمیروں کو شہید ، خواتین عصمت دری ، کاروبار و املاک کو تباہ کررہی ہیں ۔ جدید اور مہلک ہتھیاروں کا آزادانہ استمال کیا جاتا ہے ۔ مظالم کے نت نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں ۔ کشمیریوں کی کثیر تعداد کو معذور بنایا جارہا ہے ۔ انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے ۔ مگر ان تمام تر مظالم کے باوجود کشمیری عوام کے حوصلے بلند ہیں ، آئے دن وہاں پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لہراکر وہ تجدید خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں ۔ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کی عوام کی مرضی کے مطابق کیا جائے ۔ بھارت اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے بھی نہیں کرواتا کیوں کہ اس کو اپنی شکست واضح نظر آتی ہے ۔ اللہ بھلا کرے کشمیری عوام کا جنہوں نے 1948ء میں علم جہاد بلند کردیا اور وادی کے ایک تہائی حصے کو بھارتی فوجوں سے آزاد کروالیا ۔ جب بھارتی افواج کشمیری مجاہدین سے علاقہ چھیننے میں ناکام ہوئیں ۔ بھارت کو اپنی ناکامی واضح نظر آئی تو بھارت اس مسلے کو اٹھا کر سلامتی کونسل تک لے گیا۔ وہاں بھارت کا موقف تھا کہ کشمیر کا باقاعدہ بھارت سے الحاق ہوچکا ہے اور اب یہ علاقہ بھارت کا ہے ۔ بھارت کا مذید دعوی تھا کہ پاکستان نے کشمیر پر حملہ کیا ہے جس کا مطلب بھارت پہ حملہ ہے ۔ تب پاکستان نے کشمیر کی انڈیا کے ساتھ الحاق کی قانونی حثیت کو چیلنج کیا اور سلامتی کونسل کو حقیقت سے آگاہ کیا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہندو راجہ کو نہیں بلکہ وہاں کے عوام کو ملنا چاہیے ۔ تو سلامتی کونسل نے پاکستان کے موقف کو تسلیم کیا کہ کشمیر مستقبل کا فیصلہ ریاست کی عوام کی مرضی کے مطابق ہوگا ۔ وہاں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے کرایا جائے گا۔ سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو پاکستان اور بھارت نونوں نے منظور کیا اور جنگ بند ہوگئی ۔ اگر اس وقت جنگ بندی عمل میں نہ آتی تو کوئی شک نہیں مجاہدین باقی کشمیر کو بھی بھارتی تسلط سے آزاد کروا کر دم لیتے ۔ جنگ بندی اور ابتدائی مسائل کے طے ہوجانے کے بعد توقع تھی کہ اقوام متحدہ اپنی زیر نگرانی استصواب رائے کا بندوبست کرے گا ۔ اقوام متحدہ کچھ کوششیں کیں لیکن بھارت تو شروع سے ہی بے ایمان تھا اس نے کشمیر میں آزادانہ استصواب رائے کی راہ میں روڑے اٹکائے اٹکاتا آرہا ہے ۔ بھارت جانتا ہے کشمیری عوام پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے ۔ لہذا ٹال مٹول پالیسی اختیار کی جائے ۔ بھارت مسلہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور استصواب رائیسے انکاری ہے ۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور ابھی تک یہ مسلہ حل طلب ہے ۔ مسئلہ کشمیر جب تک حل نہیں ہوتا پاک بھارت تعلقات بہتر نہیں ہوتے ۔ پاکستان کا ہمیشہ مثبت رویہ رہا ہے لیکن بھارت اپنی متوقع شکست کے خوف سے سنجیدہ نہیں ہوتا۔ پاکستان گزشتہ روز بھی بھارت کو سرکاری طور پر مسلہ کشمیر پر ٹھوس ، بامعنی اور موثر بات چیت کی دعوت دی مگر بھارت کا استعماری حربہ جوں کا توں ہے ۔ بھارت ہمیشہ دھوکہ ، جعل سازی اور فریب کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔
بھارت کو استصواب رائیسے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے ۔ بھارت کی یہ جنونیت کشمیری عوام کی منزل آسان کررہی ۔ کشمیری نہتے ہوکر بھی بھارتی فوج کے آگے سینہ سپر ہیں ۔ پاکستان کں بہتر سے بہتر حکمت عملی طے کرنا ہوگی ۔ بھارت کو ہر عالمی فورم پہ دباؤ میں لانا ہوگا ۔ ہم کو اپنی سفارت کاری فعال بنائے رکھنا ہوگی اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہوگا ۔ پاکستان کے پرچم میں لپٹی کشمیریوں کی نعشیں ہمیں جھنجھوڑ رہی ہیں ۔ مودی سرکار تحریک آزادی نہیں کچل سکتی چاہے جتنے بھی حربے استمعال کرلے ۔ جب شکست نظر آنے لگی ہے تو کشمیریوں کی معاشی ناکہ بندی کررکھی بھارتی افواج مظالم کے نت نئیحربے آزما رہی ہے ۔ اقوام عالم تو ہمیشہ مسلمانوں پہ ہونے والے مظالم پہ خاموش رہتی ہیں ۔ کشمیریوں نے قربانیاں دے کر اپنا حق ادا کیا اب ہمارا کام ہم ان کو بھارتی مظالم سے نجات دلائیں ۔ حکومت پاکستان کو جاگنا ہوگا بیدار مغزی کا ثبوت دینا ہوگا ۔ آزادی کشمیر کے دن دور نہیں ان شاء4 اللہ وہ بہت جلدی بھارتی مظالم سے آزاد ہوکر ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا ۔

Short URL: http://tinyurl.com/h9ge99y
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *