بات تلخ ہے مگر ہے سوچنے کی۔۔۔۔ تحریر: اے آر طارق

A R Tariq
Print Friendly, PDF & Email

تمام ترصورتحال آئینے کی طرح صاف شفاف ہمارے سامنے ہے اور یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ ایم کیو ایم ملک دشمن جماعت ہے اورغیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث اور بیرونی استعمار کے ایجنڈے پر کام کررہی ہے،۔ملک پاکستان کی قطعا خیر خواہ نہیں ہے،کراچی کا امن خراب کرنے کے درپے ہے ، نہیں چاہتی کہ شہر قائد میں امن رہے،اس لیے اداروں کو چاہئیے کہ ایم کیو ایم کے خلاف سخت ایکشن لیں اور اس سلسلے میں اب کسی نرمی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔کیونکہ پہلے کی بات اور تھی اوراب’’الطاف حسین کی ملکی سلامتی کے اواروں کے خلاف ہرزہ سرائی اور انکے سربراہان کے بارے میں سخت زبان کا استعمال ۔ریاست ،آئین پاکستان کو چیلنج کردینے والے اقدامات اور آزادی صحافت کی آواز کو دبانے کیلیے نجی چینلز پر حملہ کرنے جیسی کارروائی،رینجرز ہیڈ کوارٹرز کی طرف پیش قدمی کی دھمکیاں اور سندھ
سیکرٹریٹ کو تالا لگادیں ،جیسے احکامات پر مشتمل الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقریرکے بعد کوئی جواز باقی نہیں رہتا کہ ایم کیو ایم کو ڈ ھیل دی جائے یا چھوڑا جائے۔’’مائنس الطاف مارمولہ‘‘ اپنی جگہ مگر اس کے باوجود پھر بھی ایم کیو ایم کے کرتا دھرتا کو ’’جس میں الطاف جتنا مجرم ہے ،اتنا ہی یہ ہیں‘‘کو چھوڑنا کسی بھی طرح ملکی کاز کے لیے سود مند نہیں،اس لیے کہ الطاف جتنا چاتر شاترآدمی ہے اس کے حواری اتنے ہی پاپی۔الطاف حسین کے جرم میں ،جو اس سے سرزد ہوا ،برابر کے شریک ہیں۔اس ناقابل معافی جرم میں پہلے بھی شریک کار تھے اور اب بھی پورا حصہ ڈالے ہوئے ہیں،کسی طور بھی کسی چھوٹ،معافی،ڈھیل یا ڈیل کے حقدارنہیں،الطاف کی اشتعال انگیز تقریر کے بعدکراچی کے حالات خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں اور پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ متحدہ کی ساری قیادت پر مختلف سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہیں،خود فاروق ستار پر بہت سے مقدمات ہیں اور کئی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں کسی طرح بھی کسی رعائت یا معافی کے مستحق نہیں،ڈی جی رینجرز سندھ نے 29 اگست کو کی گئی اپنی پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کے حوالے سے انکا سارا تخریبی بھانڈا پھوڑ دیا ہے اور سارے حقائق سامنے لے آئے ہیں،جس میں انہوں نے گرفتار شدہ افراد سے حاصل ہونے والی معلومات اور انکشافات کو میڈیا کے سامنے رکھااور یہ بھی بتایا
کہ22 اگست کو ہونے والا سارا واقعہ پلا نٹڈ تھا اور ایک طے شدہ منصوبے کے تحت کیا گیا اور اس میں کون کون ملوث اور یہ منصوبہ کہاں بنا ،کیسے اور کس نے تشکیل دیا،سب ریکارڈ پر لے آئے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ریاستی اداروں کو اب ایم کیو ایم کے حوالے سے گو ں مگوں کی صورتحال سے نکلنا ہو گا اور کسی سستی کوتاہی اور حیل وحجت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے الطاف ا،ایم کیو ایم ور اسکے کرندوں سے سختی سے نمٹنا ہوگا اور ان ملک دشمن عناصر کے خاتمے اور سرکوبی کے لیے (جن کے بارے میں اب صاف پتا چل گیا ہے کہ یہ لوگ ملک دشمن عناصر کے آلہ کار ہیں،را اور موساد کے ایجنٹ ہیں،ان کے لیے کام کررہے ہیں،اور ان کے عزائم اورکارنامے بھی سب پر عیاں ہیں)اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ایسے میں اگر ہم چاہتے ہیں کہ کراچی بالخصوص پورا ملک امن کا گہوارا بنے تو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف سخت ایکشن اور قانونی کارروائی کرنا ہوگی اور ایم کیو ایم ،جس ’’کو نظریہ ضرورت ‘‘کے تحت ہر آمر،ہر سیاستدان ،ہر حکمران نے اپنے قتدارکی ڈوبتی ہوئی ناو ٗکو سہارا دینے اورایک دوسرے کو بچاو پالیسی، کے لیے زندہ رکھا۔اب کے بار ملک کی نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے (ایسے میں کہ طاغوتی طاقتیں ملک عزیز کو نوچنے کے لیے پر تول رہی ہیں) بغیر کسی اندرونی وبیرونی پریشرز،تمام تر مصلحتوں سے بالاتر ہوکر وسیع تر ملکی مفاد میں ایم کیو ایم کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے ملک دشمن عناصر کے دانت کھٹے کرتے ہوئے پوری دنیا کو یہ میسج دینا ہوگا کہ پاکستان کے کاز کے خلاف باتیں کرنے والے اوربولنے والوں کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں، اورکوئی تنظیم جو ملکی سلامتی کے برعکس کام کررہی ہو ،پاکستان میں نہیں پھل پھول سکتی ۔اسلیے کہ ایم کیو ایم ایک زہریلا سانپ ہے ،جسے دودھ پلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کی فطرت میں ہی پاکستان اور اس وطن عزیز سے پیار کرنے والوں کوڈسنا لکھا ہے ، اس سے ملک کی خیر خواہی کا کام لینے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں،اس تنظیم کا ماضی ،حال ،مستقبل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ ملک دشمن تھی ،ہے اور رہے گی اور کبھی بھی سدھرے گی نہیں،جب بھی بنے گی،ملکی کاز کیلیے نقصان کا باعث ہی بنے گی۔اگر ہمیں باوقار رہنا ہے اور پاکستان اور ملکی سلامتی کے اداروں کی بقاء چاہئیے تو ایسے فیصلے کرنا ہونگے ،جس کے بین الاقوامی سطح پر دور رس نتائج مرتب ہوجس سے ہماری آن بان اور شان بھی رہ جائے اور ملک بھی محفوظ ہاتھوں میں رہ جائے تو ریاست پاکستان کو تما م مصلحتوں اور مجبوریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایم کیو ایم پر پابندی لگانا ہوگی،اس لیے کہ ایم کیو ایم سے چھٹکارے میں ہی ملکی ترقی کا راز پنہاں ہے۔اور اس حوالے سے بروقت فیصلہ کی ضرورت ہے اور یہ فیصلہ لینا ہوگااور اگر اب بھی لچک اور کمزوری کا مظاہرہ کیا گیا تو جب تاریخ دہرائی جائے گی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے پاس سوائے شرمندگی و ندامت کے ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہ رہ جائے۔بات تو بڑی تلخ ہے مگر ہے سوچنے کی۔

Short URL: http://tinyurl.com/z6zvuzz
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *