آزاد ملک کی فریاد۔۔۔۔ تحریر: کو مل سعید، تلہ گنگ

Print Friendly, PDF & Email

14اگست تجدید عہد کا دن ہے یہ دن یاد دلا تا ہے کہ ہمارے آبا ؤ و اجداد نے لا زوال قر با نیاں دے کر ایک الگ وطن حاصل کیا جس کی نظریا تی اساس اسلام ہے اس دن ہر پا کستا نی گھروں پہ پر چم لہرا کر ،جھنڈیاں لگا کر اور چند قومی ترانے سن کر اپنا فرض پورا کر دیتا ہے ۔اسی طرح اجتما عی طور پہ بھی سیمینار ،کا نفرنس،قومی تقریبات کا انعقاد کر کے اس جشن کو منایا جا تا ہے اور عہد کیا جا تا ہے کہ وہ اس وطن کے ساتھ وفادار رہیں گے لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ وہ عہد 14اگست کی شام سورج کے ساتھ ہی ڈ ھل جا تا ہے پھر وہی بے ایما نی و نا انصافی کی روش اکثریتی پا کستانی اپنا لیتے ہیں اور گن گا تے ہیں کہ ہم آ زاد ہیں ۔میں نے 14 اگست کے جشن پہ قومی ترانوں کی دھنوں میں کسی کی سسکیاں سنی ہیں میری آ نکھوں نے اس و جود کو جو سفید اور سبز رنگ میں لپٹا خون سے لت پت ہے روتے سسکتے دیکھا ہے مگر کو ئی اس کی فریاد نہیں سنتا ،اس کی آواز اس کے سوالوں پہ کو ئی کان د ھر نے کو تیار نہیں ،وہ وجود میر ے پاکستان کا ہے ،وہ آ واز یں وہ سسکیاں پا کستان کی ہیں ،وہ ذہنوں کو جھنجھوڑ دینے والے سوال پا کستان کے ہیں ۔آ ج تجد ید عہد کے دن پاکستان سوال کر رہا ہے کہ کیا وہ آ زاد ہے ؟کیا یہ وہی پا کستان ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا اور تعبیر قا ئد اعظم نے پائی ؟میری نظروں نے اس سوال کے جواب کو متلاشا ہے اور دکھ سے کہنا پڑ تا ہے کہ شرمند گی و ندامت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آ یا۔تاریخ پہ نگا ہ دوڑائیں تو پا کستان کو بنا نے میں جوجو قر با نیاں دیں گئیں ان کو پڑ ھ کر ہی روح کا نپ اٹھتی ہے کہ کس طرح ہمارے آ باؤ واجداد نے اپنی ز ند گیوں کو اس مٹی کو آ زاد کرانے کیلئے نچھاور کیا ،کیسے ما ؤں نے اپنے جگر گو شوں کو مقتل گا ہوں کو سجا نے کیلئے خو شی خو شی روانہ کیا ،بیٹیوں نے اپنی عصمتیں سر عام نیلا م کیں ،سینوں پہ نیزے کھا ئے اور لبوں پہ ایک ہی نعرہ تھا ” لے کر رہے گے پا کستا ن ،بن کے رہے گا پا کستا ن “اور بالاآخر وہ اپنے عظیم قا ئد کی قیا دت میں اپنے مقصد میں کا میاب ہو ئے اور ایک آ زاد وطن اسلا می جمہوریہ پا کستان ہمارے حوالے کر کے خود تاریخ کا حصہ بن گئے ۔آج ہم پا کستان میں نظر دوڑائیں تو ہر سو رشوت،سودے بازی ،بے حیا ئی ،لا قا نو نیت ،مغربی ثقافت کا غلبہ ،نا انصافی،بے رحمی،قتل و غارت ،دہشت گردی ،بے روزگاری کا اژدھا ،فرقوں کی لڑائیاں،غریبی کا کشکول ہی نظر آ ئے گا۔ہمارے پا کستان کے حکمرانوں نے اس ملک کی آ زادی کو آ ج امریکہ کے ہا تھوں گروی ر کھ چھوڑا ہے ،قر ضوں کا کشکول لئے مغربی ملکوں کے سا منے پاکستانی قوم کی غیرت کو پا مال کیا ہے ،ہم آ زاد ملک میں ضرور ہیں مگر آ زاد قوم نہیں ہیں ۔ہمیں حکمرانوں نے آ ج بھی غربت و بے روزگاری ،مہنگا ئی ،رشوت زنی ،دہشت گردی جیسے جال میں قید کر رکھا ہے جہاں ہم اپنی مرضی سے سا نس تو لے سکتے ہیں مگر ان سا نسوں کو برقرار رکھنے کی ڈور حکمرانوں نے فرعون کی طرح اپنے ہا تھوں میں تھا م ر کھی ہے ۔میرا ملک وہ ہے جس پہ غر یب ملک ہو نے کا ٹھپہ لگ چکا ہے ۔یہاں کے نو جوان خود پہ پٹرول چھڑ کے آ گ میں جھلس جا تے ہیں ، اس ملک میں فر نگی کتوں کیلئے بیرونی مما لک سے ہزاروں ڈالر کی خوراک تو میسر ہے مگر کسی غریب انسان کے پاس ایک وقت کی روٹی کے چند لقمے بھی نہیں اور اسی بھو ک کے عوض ماں باپ مجبور اپنے جگر کے ٹکڑوں کو فروخت کر تے ہیں ،بیٹیاں با لوں میں چا ندی لے کر قبر کی تا ریکیوں کی نذر ہو جا تیں ہیں ،سر عام سڑکوں پہ گو لیوں سے بھون دیا جا تا ہے ،سکولوں میں ننھے پھو لوں کے سفید کپڑوں کو ان کا کفن بنا دیا جا تا ہے ،یہاں کا لے کوٹ پہننے والوں کو انصاف کی جدوجہد کی پا داش میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے جن کی بے گناہ روحیں انصاف کی منتظر بھٹک رہی ہیں یہاں تھر میں بھو کوں مر کے گمنام ہو جا تے ہیں مگر اس ملک کے حکمران لفظ ” مذ مت” کہہ کر بر ی الذ مہ ہو جا تے ہیں ،آخر کیوں؟؟پاکستان معصوم لو گوں کا خون ہا تھوں میں لگا ئے پو چھا رہا ہے کہ میرے قا ئد اعظم نے کیا اس دن کیلئے میرے جنم کی د عا ئیں کی تھیں ؟ کیا یہ وہی پا کستا ن ہے ؟

نہیں یہ وہ پا کستان نہیں ہے یہاں تو ۔۔۔
عزت نفس کسی شخص کی محفوظ نہیں
اب تو اپنے ہی نگہبانوں سے ڈر لگتا ہے
ڈنکے کی چوٹ پہ ظا لم کو بُرا کہتی ہوں
مجھے سولی سے نہ ز ندانوں سے ڈر لگتا ہے

قائد اعظم ہم شر مندہ ہیں کہ ہم قدر نہیں کر سکے اس آزادی کی اپنے آزاد ملک کی کیوں کہ ہمیں تو یہ آزادی یہ آزاد ریا ست بیٹھے بیٹھا ئے سونے کی تھا لی میں مل گئی ۔ہم نے خود کوشش کی ہو تی اور آزادی کی تحریک میں ہو نے والے دہشت انگیز منا ظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہو تے اپنے بچے کھو ئے ہو تے ،بہنوں کی لوٹتی عزت خود آنکھوں دیکھی ہو تی ،ماؤں کی گود ویران ہو تی تو ہمیں پتہ ہو تا کہ آزادی کیا ہے اور اس کی قدر کیسے کر نی ہے ۔آج بھی حا لا ت وہی ہیں ۔ہمارے بھا ئی ،بیٹے ،باپ گور کی نذر ہو رہے ہیں ۔ پھر بھی ہم نا سمجھ ہیں۔ آخر کیوں ؟ہم کب سمجھیں گے ؟ درخت تنہا مگر مضبوط ہو تو وہ ہر طرح کے حا لا ت سے نبرد آزما ہو کر اپنی جگہ قا ئم رہتا ہے لیکن اگر درخت کی جڑ کو دیمک لگ جا ئے تو پھر اس کا اپنی جگہ قا ئم ر ہنا ممکن نہیں رہتا ۔ پا کستان فکر مند ہے اپنے مستقبل کیلئے کہ آخر کون ہو گا جس کے ہا تھوں میں اس کی ڈور ہو گی اور اس کے غریب لوگ اب کس کے اشارے پہ چلیں گے؟علامہ اقبال اور قائد اعظم سے شکوہ کناں ہے اور سوال کر رہا ہے کہ کیا اس کو بنانے کا مقصد کبھی پورا ہو پا ئے گا ؟ حقیقتاًہماری آ زادی اس دن ہو گی جب ہم اندرونی طور پر ایک ہوں ،ایک قوم ،ایک مضبوط مٹھی کی طرح ہوں ۔افسوس ہم تو ایک انگلی کی طرح بھی نہیں بلکہ انگلی کے پوروں کی ما نند ہو گئے ہیں ۔الگ نظریہ ،الگ اصول ،الگ پا لیسی نے ہمیں کئی کا نہیں چھوڑا ۔پا کستان بتا رہا ہے کہ اگر ابھی بھی ہم نے ہٹ دھر می نہ چھوڑی اور غلط پا لیسوں پہ عمل پیرارہے تو وقت دور نہیں جب مکمل طو ر پر ہم تبا ہی کے گڑھے میں نہ صرف گر جا ئیں گے بلکہ دب کر دم توڑ دیں گے ۔ہم نے پا کستان کو کھوکھلا نہیں ہو نے دینا کیو نکہ ایسا ہوا تو ہم پھر سے غلام بن جا ئیں گے اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں بد دعائیں دیں گی ۔دعا ہے کہ جو بھی ہو وہ ہمارے ذاتی مفاد کیلئے نہیں بلکہ ملکی و قومی مفاد کیلئے ہو ۔صرف اور صرف پا کستان کیلئے ہو ۔

میرا رونا نہیں،رونا ہے یہ سارے گلستان کا
وہ گل ہوں میں فغاں ،ہر گل کی ہے گویا فغاں میں

Short URL: http://tinyurl.com/z4jsskm
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *