مریض کی عیادت کرنے کے فضائل و آداب

Print Friendly, PDF & Email

تحریر : مفتی محمد وقاص رفیعؔ


تندرستی اور بیماری دونوں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے انسان پر آتی ہیں ، اور یہ دونوں چیزیں بندۂ مؤمن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قسم کا امتحان ہوتی ہیں ۔ انسان جب صحت اور تندرستی کی زندگی گزارتے گزارتے اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے تو فوراً اللہ تعالیٰ اس پر بیماری لاکر اسے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں، اسے اپنے قریب کرتے ہیں اور پھر اس کے گناہوں کو اس کی نیکیوں میں بدل دیتے ہیں، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے زیادہ غافل نہ ہونے پائے اور اسی کی ذات اور یاد میں ہمہ تن مصروف اور مگن رہے ۔
اس میں شک نہیں کہ بندۂ مؤمن کے لئے صحت و تندرستی اور ہاری و بیماری دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتلاء ا رو آزمائش کی چیزیں ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندے کے ایمان کا امتحان لیتا ہے کہ آیا میرا یہ مؤمن بندہ صرف صحت و تندرستی ہی میں میرا نام لیتا ہے یا ہاری و بیماری میں بھی مجھے یاد کرتا ہے؟ ۔ اگر بندۂ مؤمن صحت و تندرستی کی طرح ہاری و بیماری میں بھی اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ایسا مؤمن بندہ اپنے رب کے امتحان میں کامیاب اور بامراد ہوگیا ہے اور اگر وہ صحت و تندرستی میں تو اللہ تعالیٰ کا نام لیتا تھا لیکن ہاری و بیماری میں گھبرا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوگیا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ بندۂ مؤمن اپنے رب کے امتحان میں ناکام اور نامراد ہوگیا ہے۔اور اس کے لئے یہ بیماری اللہ تعالیٰ کا امتحان نہیں بلکہ اس کا وبالِ جان بن کر رہ گئی ہے ۔ اس لئے صحت ہو یا بیماری ، خوشی ہویا غمی ، مشکل ہو یا آسانی ہر حال میں اپنے کریم رب کا شکر ادا کرنا چاہئے اور لمحہ بھر میں اس کی یاد سے تغافل نہیں برتنا چاہئے۔
اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے مریض بندے کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ اس کی بیمار پرسی اور عیادت کرنے، اس کو خوشی و مسرت دلانے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کو اس کے دوسرے مسلمان بھائیوں پر اس کا ایک لازمی حق ٹھہرا دیا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے ، نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں : (۱) سلام کا جواب دینا ۔ (۲) مریض کی مزاج پرسی کرنا ۔ (۳) جنازہ کے ساتھ جانا ۔ (۴) اس کی دعوت قبول کرنا ۔ (۵) اس کی چھینک کا جواب دینا۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ مریضوں کی عیادت کیا کرو اور جنازے میں شرکت کیا کرو کہ چیزیں تم کو آخرت کی یاد دلائیں گی۔‘‘
حضور اکرم ؐ کا ارشاد ہے کہ : ’’ جس نے اپنے (مسلمان) بھائی کی عیادت کی وہ ’’عرفۂ جنت‘‘ (جنت کے ایک خاص مقام کا نام ہے۔) میں ہوگا ۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ جس شخص نے کسی مریض کی عیادت کی اس نے ( اللہ تعالیٰ کی ) رحمت میں غوطہ لگایا اور جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے ( اللہ تعالیٰ کی ) رحمت میں جگہ بنالی۔‘‘
حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ ( ایک مرتبہ ) رسول اللہ ؐ نے ( اپنے صحابہؓ سے) پوچھا کہ : ’’ آج تم میں سے کس کس نے روزہ رکھا ؟ ۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا : ’’( یا رسول اللہؐ! )میں نے رکھا ہے ۔‘‘ آپؐ نے دوبارہ پوچھا : ’’ آج تم میں سے کس کس نے مریض کی عیادت کی ہے ؟۔ ‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا : ’’( یا رسول اللہؐ! )میں نے کی ہے ۔‘‘ آپؐ نے سہ بارہ پوچھا : ’’آج تم میں سے کس کس نے جنازے میں شرکت کی ہے؟۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا : ’’ (یا رسول اللہؐ!) میں نے کی ہے ۔‘‘ آپؐ نے چوتھی بار پوچھا : ’’ آج تم میں سے کس کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے ؟۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا : ’’( یا رسول اللہؐ!) میں نے کھلایا ہے ۔‘‘ مروان بن معاویہؓ فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ : ’’ جب کسی شخص میں ایک ہی میں دن یہ سب خصلتیں جمع ہوجائیں گی تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
حضرت جابر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ : ’’ ایک مرتبہ میں بیمار ہوگیا ، نبی اکرمؐ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ میری عیادت کرنے کے لئے تشریف لائے ، اس وقت مجھ پر غشی طاری تھی ، نبی اکرمؐ نے وضو فرمایا اور اپنے وضو کے بچے ہوئے پانی کے مجھ پر چھینٹے مارے تو مجھے ہوش آگیا ، میں نے دیکھا کہ نبی پاکؐ تشریف فرما ہیں ۔
یاد رہے کہ جہاں بیمار بندۂ مؤمن اور مسلمان کی عیادت کرنا سنت ہے تو وہیں کافر ا ور مشرک بیمار شخص کی عیادت اور اس کی مزاج پرسی کرنا بھی ہمارے پیارے نبی ؐ کی سنت ہے ۔ چنانچہ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نوجوان رسول اللہ ؐ کی خدمت کرتا تھا ، ایک مرتبہ وہ بیمار ہوگیا ۔ اور رسول اللہ ؐ اس کی عیادت کرنے تشریف لے گئے ، آپؐ اس کے سرہانے کی طرف جاکر بیٹھے اور اس سے فرمایا کہ: ’’ (بیٹا) تم مسلمان ہوجاؤ!۔‘‘ وہ یہودی نوجوان اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگا جو اس کے سرہانے کے قریب ہی اس کے پاس کھڑا تھا ۔ باپ نے کہا : ’’ ابوالقاسم (حضور پاکؐ) کا کہنا مان لو! چنانچہ اس یہودی نوجوان لڑکے نے آپؐ کا کہنا مان لیا اور فوراً مسلمان ہوگیا۔ آپؐ اس کے پاس سے یہ فرماتے ہوئے اٹھے کہ : ’’ شکر ہے اس ذات کا کہ جس نے اسے جہنم (کی آگ) سے نجات عطا فرمائی۔‘‘
مریض مرد کی عیادت عورت کرسکتی ہے ۔ چنانچہ حضرت حارث بن عبید اللہ انصاریؓ کہتے ہیں کہ : ’’ میں نے حضرت ام درداءؓ کو ایک ایسے کجاوے پر سوار دیکھا کہ جس میں لکڑیاں تو تھیں لیکن اس میں پردے نہیں تھے ۔ ام درداءؓ اہل مسجد میں سے ایک انصاری مرد کی عیادت کے لئے آئی تھیں۔‘‘
جب کسی مریض کی عیادت کرنے اس کے گھر جاناپڑ جائے تو عیادت کرنے والے شخص کو چاہئے کہ وہ اس کے گھر جاکر اپنی نظروں کی مکمل حفاظت کرے ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ایک مریض کی عیادت کرنے اس کے گھر تشریف لے گئے ، آپؓ کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے ۔ اس گھر میں ایک عورت تھی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے ساتھیوں میں سے (اچانک) ایک شخص کی نظر اس عورت پر پڑگئی تو آپؓ نے (اس کو سختی سے ڈانٹے ہوئے ) فرمایا کہ : ’’ اگر تم اپنی آنکھیں پھوڑ ڈالتے تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہوتا۔‘‘
اسی طرح عیادت کرنے والے شخص کو چاہیے کہ وہ مریض کے سرہانے بیٹھے کہ یہ عیادت کرنے کا مسنون طریقہ ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ جب کسی مریض کی عیادت کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تو اس کے سرہانے کے قریب بیٹھتے اس کے بعد اس کو یوں دعاء دیتے : ’’ ترجمہ: میں عرشِ عظیم کے رب، عظمت والے اللہ سے تیرے لئے صحت و تندرستی اور بیماری سے شفاء کا سوال کرتا ہوں ۔‘‘ اگر مریض کی زندگی ہوتی تو وہ بیماری سے شفایاب اور تندرست ہوجاتا۔
حضرت ربیع بن عبد اللہؓ بیان کرتے ہیں کہ : ’’ میں حضرت حسنؒ کے ساتھ حضرت قتادۃؓ کی عیادت کو گیا ، حضرت حسنؒ حضرت قتادۃؓ کے سرہانے بیٹھے ، ان کی مزاج پرسی کی اور ان کے حق میں یوں دعاء مانگی : ’’ اے اللہ! ان کے قلب کو شفاء دے اور ان کی بیماری کو ختم فرما!۔‘‘

Short URL: http://tinyurl.com/gsx8r8w
QR Code: