اوروں کا افسانہ یاد رہا ،اپنا بھول گئے۔۔۔۔ تحریر: اے آر طارق

A R Tariq
Print Friendly, PDF & Email

طاہر القادری نے بھارت میں منہاج القرآن کی خصوصی کانفرنس سے خطاب کیا،جس میں بقول ان کے کہ’’ بھارت والوں نے مجھے خاصی اچھی سیکیورٹی دی،جس پر مودی صاحب مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں‘‘طاہر القادری کا اتنا کہنا ہی تھا کہ سیاست کی راہداریوں میں ایک بھونچال آگیا ،سرکاری طوطے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے اور ایک سے ایک بڑھ کر فقرے کسنے لگے،الزامات اور کیچڑ اچھالنے کی طرف آگئے،ان میں سے بعض نے تو قادری صاحب پربھارت فنڈنگ کا بھی الزام لگا دیا۔یاد رہے کہ یہ وہی سرکاری طوطے ہیں جو اس سے پہلے عمران خان پر بھی شوکت خانم ہسپتال کے حوالے سے فنڈنگ معاملے پر کافی الزام اور کیچڑ اچھال چکے ۔الزام لگانا اور کیچڑ اچھالنا اس طبقے کاایک وطیرہ بن گیا ہے ،جوکسی پروف کے بغیر الزام لگاتے ہیں اور پھر ندامت اور شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے۔طاہر القادری نے بحثیت مہمان بہترین انتظامات پر میزبان مودی کا شکریہ کیاادا کردیا،ایک نیا بھنڈورا بکس ہی کھول دیا،جس پر مخالفین نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔بھارتی میڈیا کے اس انکشاف پر کہ گجرات مسلم کش فسادات پر کیے گئے سوال کو طاہر القادری گول کرگئے،جس پر حکومتی وزراء نے طاہرالقادری کو آڑے ہاتھوں لیا اور خاصی تنقید بھی کی اور بھارت فنڈنگ تک کا الزام لگا دیا۔مگر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ’’اوروں کاافسانہ یاد رہا ،اپنا بھول گئے‘‘طاہر القادری پر تنقید کرتے اور انکا محاسبہ کرتے یہ کیوں بھول گئے کہ اگر بقول ان کے کہ طاہرالقادری اس حمام میں ننگے ہیں تو یہ کون سا کپڑے پہنے ہوئے ہیں ۔طاہر القادری کا بھارت کے حوالے سے کردار اور ہمدردی کیا ہے اور فنڈنگ معاملہ کس حد تک ہے،یہ تو الزام ہی ہے،جب حقائق سامنے آئیں گے تو پھر سب پتا چل جائے گامگر حکومت وقت کا بھارت کے حوالے سے کیا کردار اور ان سے کتنی ہمدردی اوربھارت سے تجارت کا کیا معاملہ ہے ،کسی بھی ذی شعور پاکستانی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ہماری حکومت کا بھارت کے حوالے سے کردار انتہائی شرمناک ہے،اس سے بات کرتے جرات مندانہ موقف اختیار نہیں کیا جاتا۔ہمارے پاکستانی حکمران بھارتی ہم منصب مودی سے ہمدردی رکھتے ہیں،آپس میں پیار اور محبت کی پینگیں اس حد تک پروان چڑھی ہوئی ہیں کہ بھارتی وزیراعظم جو اپریل میں کابل میں پارلیمنٹ ہاوس کا افتتاح کرنے افغانستان گئے تھے سے واپسی پر ان سے رہا نہ گیا ،اچانک لاہور کا دورہ کیا اور وزیر اعظم نواز شریف کی نواسی کی شادی کی مبارکباد دینے رائے ونڈ پہنچ گئے۔،جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا اوران کے من پسند کھانوں سے انکی تواضح کی گئی ،اس موقع پر بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے نوازشریف کی نواسی کو تحفے تحائف سے بھی نوازا گیا۔ایسے میں سننے میں آیاتھا کہ (اس میں کس حد تک صداقت ہے ،اللہ ہی بہتر جانتا ہے یا میاں صاحبان ہی بہتر بتاسکتے ہیں کہ کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے) اس موقع پر مودی نواز بھائی بھائی کی گردان بھی کی گئی،نوازشریف کی والدہ محترمہ کا بھارتی وزیراعظم مودی کو یہ کہنا کہ بیٹا ،بھائی بھائی بن کر رہوں اور ملکی حالات خراب نہ کرو اور یہ کہ تم بھی میرے بیٹے ہو۔میاں فیملی کی جانب سے ایک ایسے شخص کو’’تم بھی میرے بیٹے ہو‘‘اعزاز دینا(اگر یہ بات سچ ہے )تویہ کشمیری عوام کے ساتھ غداری اور ان کے رستے ہوئے زخموں پر نمک پاشی ہے اور ان کی کشمیر کے حوالے سے دی جانے والی قربانیوں کو رائگاں کرنا اور ان کی تحریک کشمیر کے لیے کی گئی کوششوں کو سبوتاژکرنا اور کشمیر کاز کے ساتھ سنگین مذاق ہے، کشمیریوں کے قاتل ،کجرات مسلم کش فسادات میں ملوث،جس کا اعتراف وہ ٹی وی چینل پر آ کر کر چکے،بھارت میں موجود مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دینے والے،پاکستان میں حالیہ دہشت گردی میں ملوث اورملکی وقار کے منافی بیانات داغنے والے،بابری مسجد شہادت کے ذمہ دار،پاکستان میں آرمی پبلک سکول پر حملہ سے لیکر گلشن پارک بم بلاسٹ تک ،جس میں مردو خواتین اور معصوم بچوں کو نشانہ بنانے والے،حالیہ کوئٹہ سانحہ میں ملوث اس شخص مودی کے ساتھ خصوصی ہمدردی کس زمرے میں آئے گی،اسے محبت کا پروان چڑھنا کہا جائے کہ حکومتی ڈپلو میسی یا تجارتی حجم کو بڑھانے کی طرف ایک قدم۔یہ وہ سوال ہیں ،جن کا بہتر جواب حکمران ہی دے سکتے ہیںیا ان کے حواری،جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کے چکرمیں اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ جب ان کی واپسی ہوتی ہے تو دامن خفت اور شرمندگی سے تار تارخود ان سے ہی شکوہ وشکائت کر رہا ہوتا ہے، ہمار ی حکومتی پالیسیاں اس حد تک ’’پاور فل ‘‘ہیں کہ ہم کبھی بھارت سے کرکٹ کھیلنے کے لیے ملک کی عزت داو پر لگا دیتے ہیں اور کبھی امن وامان کے لیے بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگتے ،ملکی وقار کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں۔ایسے میں جو بات حکمران اپنے لیے مناسب سمجھتے ہیں،دوسروں کے لیے اس میں کیڑے کیوں نکالتے ہیں،اگر ہمارے حکمرانوں کا بھارت سے دوستی بڑھانااور تجارت کرنا ٹھیک ہے تو طاہرالقادری کا اس ملک میں پروگرام کرنا،بہترین انتظامات پر میزبان کی تعریف کرنا،عوام سے فنڈنگ لینا غلط کیسے ہوگیا۔اگر حکمران اس ملک سے تجارت کر سکتے ہیں تو طاہرالقادری فنڈ کیوں نہیں لے سکتے (جس کے ثبوت ملنا ابھی باقی ہیں)حکمران اگریہ سمجھتے ہیں کہ طاہرالقادری کسی مذموم مقاصد کے لیے بھارت سے فنڈ لے رہے ہیں تو اس کا برملا اظہار کریں اور کوئی ثبوت ہیں تو سامنے لائیں،ناکہ خود یا اپنے حواریوں کے ذریعے نام نہاد الزامات کا سرکس میلہ سجائے بیٹھیں۔کیا خوب ہے کہ جو کام آپ کرو ،وہ ٹھیک اور جو دوسرا کرے، موردالزام ٹھہرے۔ یہ کیساتضاد ہےْ ؟؟؟اگر طاہر القادری کا اپنے کاز میں بہتری کے لیے وہاں کی عوام سے فنڈ لینا درست نہیں ہے تو ملکی وسیع تر مفادات میں حکمران جماعت کا بھی بھارت کے ساتھ پیار اور محبت کی پینگیں چڑھانا اور تجارتی معاملات کرنا کسی طرح بھی احسن اقدام نہیں۔بھارت جو پاکستان کے پانیوں پر قابض ہے،ہم سے تجارت کی صورت میں اس نے پاکستانی انڈسٹریز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ، قطعا اچھے سلوک کا حقدار نہیں ہے۔ایسے میں بحثیت راقم الحروف میرا صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ یقیناًطاہر القادری کا بھارت سے فنڈنگ لینا ٹھیک نہیں ہے ،اسی طرح آپ کا بھی بھارت سے تجارت کرنا درست نہیں ۔ حکمران ہویا طاہرالقادری دونوں ہی اس حمام میں ننگے ہیں،دونوں کو ہی اپنی اصلاح کی ضرورت ہے،جس کے بعد انکی شخصیت میں نکھار توآئے گا ہی ،ملکی وقار بھی بلند ہو گا،حکمرانوں کوسوچنا ہو گا اور غور کرنا ہو گا کہ کیا ان میں اور طاہر القادری میں اتنی ہی مماثلت ہے،اس سے یہ ہو گا کہ حکمرانوں اور ان کی پارٹی کے کرتا دھرتا کو آئینہ میں اپنا چہرہ نظر آجائے گا اور طاہر القادری کا بھی’’ بھارت میں انکی بہترین مہمان نوازی پر مودی سرکار کا شکریہ ادا کرنے پرانکا‘‘ بھرم باقی رہ جائے گا۔

Short URL: http://tinyurl.com/jc29k67
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *