میں مسجد نبوی کے سنگ مرمر کے بنے ہوئے خوبصورت ستونوں کو دیکھ رہا تھا جن کے انگ انگ سے نور کے فوارے پھوٹ رہے تھے زائرین کا ایک ہجوم تھا زیادہ تعداد مقامی لگ رہی تھی جن کی قسمت
زمین پر جنت الفردوس سے بڑھ کر مسجد نبوی ﷺ کے نرم گداز مخملی قالین پر مر مریں ستون سے ٹیک لگا ئے میں اپنی زندگی کے سب سے قیمتی اور ایمان افروز لمحات کو قطرہ قطرہ انجوائے کر رہا
محبتوں اور عقیدتوں سے مالا مال عاشقانِ رسول ﷺ مسجدِ نبوی میں چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے ۔ شہنشاہِ دوعالم ﷺ کے پروانوں کے چہرے عشقِ رسول ﷺ کی آنچ سے گلنار ہو رہے تھے ۔مسجدِ نبوی میں عاشقانِ مصطفےٰ
مجبور بے بس لاچار غمزدہ باپ کی آہوں ، سسکیوں ، ہچکیوں اور آہ و بکا ہ سے کمرے کے درو دیوار لرز رہے تھے ماحول کی سوگواریت ہما رے اندر تک اُتر چکی تھی لگ رہاتھا دکھی باپ کے
مجبور بے بس باپ آغوش میں معذور بچہ لیے ملتجی نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا اُس کی آنکھوں میں امید کے چراغ روشن تھے وہ مُجھ گناہ گار کو مسیحا سمجھ بیٹھا تھا اور میں اپنے ہی عرقِ
میں اور میرا ساتھی مسافر لاہور سے تقریباً دو سو کلو میٹر دور قصبہ نما شہر کی طرف برق رفتاری سے جا رہے تھے میرا ساتھی مسلسل تشکر آمیز لہجے میں گفتگو کئے جا رہا تھا اُس کے لہجے کی
وہ پچھلے بیس دن سے لگا تار میرے پاس آرہا تھا وہ ہر روز آتا آرام سکونت تحمل اور مستقل مزاجی سے بیٹھا رہتا چار پانچ گھنٹوں کے بعد ایک ہی درخواست نما بات کر تا میں اُس کو ٹال
میرے سامنے ایک ادھیڑ عمر مضطرب شخص بیٹھا تھا اُس کے چہرے اور آنکھوں میں وہ رنگ اور چمک نہیں تھی جسے زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے اُس کا بے رنگ چہرہ اور جسمانی حرکات میں اضطراب بے چینی
ماہِ رمضان تمام مہینوں کا سردار جس میں اللہ تعالی کی رحمتوں کی مو سلا دھا ر برسات جا ری ہے ۔ اللہ تعالی نے روزے رمضان میں فرض کئے ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لا زم
شافع محشر سرورکونین ‘محسنِ اعظم ،سیدالمرسلین ‘ہادی عالم ‘رحمتہ للعالمین نبوت و رسالت کے آفتاب و مہتاب ‘انبیاء و مرسلین کے تاج دار ‘محسنِ انسانیت ‘ فخرِ دو عالم ‘نورِ مجسم ،‘محبوب خدا ‘پیغمبرِ رحمت ﷺسرور کائنات محبوب خدا ﷺنے