میری ڈکشن میں ’’صحافت ‘‘ ایک ایسے اظہاریے کا نام ہے کہ جس کے ذریعے ہم اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات سے با خبر رہ سکتے ہیں اور برائی اور بھلائی کی تمیز کے علاوہ معاشرے میں اصلاح
جام غفار جو بقول اُس کے ڈویژن بہاولپورکی سطح پر سی ٹی ڈی پولیس میں تفتیشی افسر ہے اور اُس کا دعوٰی ہے کہ وہ دہشتگردوں کے قلع قمع کے لیئے سر گرم ہے۔مورخہ27-02-2016 کو مو صوف نے راقم کو
متعدد بار وزیراعظم میاں نواز شریف، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید اور میاں شہباز شریف (وزیراعلیٰ پنجاب) کو عرض کرچکا ہوں کہ نیشنل ایکشن پلان اور کاؤنٹر ٹیرارزم کے تحت جو کارروائیاں ہورہی
عجیب لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ سزائے موت کا عمل معاشرے میں مثبت تبدیلی کا باعث ہے۔ اس عمل سے جرائم پیشہ عناصر اعمال بد سے توبہ تائب ہو کر راہ راست پر چل پڑتے ہیں۔ غرضیکہ معاشرہ مستقبل
یہ بات میرے لیے پہلے کی طرح سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہمارے صاحبان اقتدار کی وفاداری کس کے لیے ہے اور ان کا جھکاؤ کس طرف ہے ۔۔۔۔؟ روز اوّل سے حکمران کہتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان
مکرمی و محترمی! سنٹرل جیل ڈیرہ غازی خان میں ان دنوں مذہبی انتہا و شدت پسندی عروج پر ہے ۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ سوالات میں الجھا کر حوالاتیوں اور نئے حوالاتیوں کو ذلت آمیز ، شدید تشدد کا نشانہ
موجودہ حالات کیا کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔؟ جس کا ادراک ہر ذی شعور اور صاحب نظر کو ہے ۔۔۔۔۔پاکستان میں جاری فرقہ ورانہ دہشت گردی اور ۔۔۔اس دہشت گردی کی آڑ میں مخصوص طاقتوں اور عناصر کے مقاصد کب کے
سوچیں مصلوب ہورہی ہیں اور مفکرین کو سولی پر لٹکا یا جارہارہے ہزار ہا غم ہیں کہ جو ہستی کو لاحق ہیں ۔ اس صورت میں اگر افکار پر پابندی لگ جائے تو یقیناًتاریکیاں مقد ر بن جائیں گی اور
کہا جاتا ہے کہ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ہوتے ہیں یہ اصطلاح بھی اپنی جگہ سو فیصد درست ۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ بھی غلط نہ ہے کہ لا قانونیت کی تاریکی بھی مجموعی معاشرتی اندھیرے کا اسم ثانی ہے وہ اس
بے شمار موضوعات ہیں کہ جن پر بحث ضروری ہے مگر مقدم اہم موضوعات کو ہی رکھنا چاہتا ہوں ۔ یہ اوربات کہ کیا پاکستان میں کوئی ایسا موضوع بھی ہے کہ جو غیر اہم ہو ۔۔؟ ہاں اس معاشرے