ہمارے پاس ہر مسئلے کا بڑا سادہ حل ہے ۔ کسی نہ کسی کو عہدہ سے برطرف کردیا جائے اور اس کے بعد یوں عوام کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھا جائے کہ جیسے اس برطرفی کے بعد ہر طرف
گلگت بلستان مار خور کا دیس ہے یہ ہمارا قومی جانور ہے ۔ یہ ایک بڑی نسل کی جنگلی بکری ہے اسے شخاوت بھی کہا جاتا ہے ۔یہ 2015 کے آغاز تک ان جانوروں کے گروہ میں شامل تھاجو نسل
معظم ہی نے مجھے اکسایااس تلاش پرکہ دنیا کتنی بڑی ہے اور ہماری حیثیت خدا کی بنائی اس دنیا میں کس قدر چھوٹی ہے ۔ اس نے مجھے اسلام آباد کے ایک ایڈونچر کلب کے بارے میں بتایا ۔ آئیڈیا
Joo کی کہانی عبرت بھی ہے سبق بھی ہے مختلف ترغیبات کا مجموعہ بھی ہے جو کہ دیکھنے اور سننے کے بعد ایک دفعہ تو ہر انسان کے دل میں جوکے لئے ہمدردی کے جذبات ابھرتے ہیں ۔ انہی جذبات
حساب کرنے اور حساب دینے میں بڑا فرق ہے ۔ حساب کرنے کے ہم سب بڑے ماہر ہیں ۔ بس موقع ملنے کی دیر ہوتی ہے اس کے بعد ہم سب پروفیشنل آؤٹیر بن جاتے ہیں ۔ حساب دینے کی
لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں ۔ انوکھے تبصرے کر رہے ہیں۔ کہیں کوئی اندازوں کی شطرنج بچھائے بیٹھا ہے تو کوئی تبصرہ پھینک رہا ہے جیسے تاش کے پتے پہ پتا ۔کوئی اپنے ماضی کے تمام کالمزکار
عرفان بھی اس سسٹم سے ناراض اور حد درجہ بے زار نوجوان ہے ۔ یہ بھی دن گن رہا ہے کہ کب اس کا امیگریشن پراسس مکمل ہو اور کب یہ ناقدری کے پاکستانی ماحول سے نکلے اور آسٹریلیا جا
کیا ہم واقعی تنہا ہوچکے ہیں ۔ شور ہے لوگ ہیں،مسکراہٹیں ہیں، قہقہے ہیں ، پر رونق بازار ہیں ، بے ہنگم رقص میں محو زندگی ہے ۔ خواہشوں میں جھومتے انسان ہیں ۔ سہانے مستقبل کے سپنے ہیں ۔
غریب لوگ آج کل الٹی قلابازیاں کھا رہے ہیں ۔خوشی کے مارے گر گر پڑتے ہیں۔کچھ پھولے نہیں سما رہے اور کچھ پھٹنے کے نزدیک ہیں۔ یہ سب نفرت کے الاؤ میں جل جل کر اب خوشی کے تالابوں میں
آخر کچھ تو مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے تمام مسائل لا ینحل ہیں۔ ہم آج اس اسٹیج پر آچکے ہیں کہ ہم باہر کھانے سے پرہیز پر مجبور ہیں۔ ہر روزایسی تباہ کن خبریں موصول ہو رہی ہیں