میں جب بھی زندگی میں مایوس ہونے لگتا ہوں ۔جب بھی میرے گرد پریشانیاں گھیرا تنگ کرنے لگتی ہیں۔ جب بھی مجھے اپنے خالق سے گلے شکوے پیدا ہونے لگتے ہیں ۔جب بھی خودساختہ محرومیاں ستانے لگتی ہیں تو میں
لکھنے والے ہمیں الجھا رہے ہیں ۔بولنے والے راہ سے بھٹکا رہے ہیں ۔ہر کسی کے پاس اپنا راگ ہے اپنی تھیوری ہے۔دنیا ہم پر ہنس رہی ہے کہ یہ کئسے لوگ ہیں سب سے پہلے بوٹ پہن کر بابو
نیو ائیر سے پہلے محنتی ان تھک کام کرنے والی قوم کو تحفے کے طور پر چار چھٹیاں میسر آئیں ۔ایسا موقع جب بھی آتا ہے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ ایک دن چھوڑ کر سفر کروں تاکہ اس
دسمبر آخری سانسیں لے رہا ہے ۔یہ ہمیشہ سے ہی ہم پاکستانیوں پربڑا بھاری رہا ہے۔پچھلے سال جب سانحہ پشاور ہوا تب بھی کئی دفعہ سوچا کہ کوئی لہو لہو زخمی سی تحریر دل کے دکھ کی ترجمانی کے لئے
“یہ میٹرو قطعی ضروری نہیں تھی۔ یہ اس غریب قوم ا س کے بچوں، طالب علموں ، والدین سب کے ساتھ ظلم عظیم ہے اس ظلم میں تم میں ہم سب شامل ہیں”۔ یہ اس دوست کے الفاظ تھے جسے
بلدیاتی الیکشن کے نام پر جاری بھیانک خون آشام مذاق ختم ہو چکا ہے۔تین ماہ پہلے اپنے آبائی شہر گیا تھا تو سڑکوں پر آویزاں بینرز پر مسکراتی شکلیں دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ ایکسرسائز بھی سراسر
زمانہ بدل گیا ہے۔ وقت کی روانی نے ہمارے دریا، ماحول آب وہوا ہر شے کو گہنا دیا ہے ۔کسی بھی قومی شاہراہ پر عازم سفر ہوں تو دل یہ سوچنے پر مجبورکرتا ہے کہ ترقی کے گھومتے پہیے کی
اگر آپ سرکاری ملازم ہیں تو آپ کے سامنے دو ہی راستے ہیں ۔اول یا تو اصول پال کر اپنے نصیب کو روزانہ خود ہروانے کا فن ٹھیک اسی طرح سیکھ لیں جیسا کہ ہماری قومی ٹیم نے نہ صرف
ہم سب کیا کرنا چاہتے ہیں سب کا مشترکہ جواب باآواز بلند ہوتا ہے ترقی۔اس کے برعکس ہم کر کیا رہے ہیں دن رات لوٹ مار ،ظلم کے سسٹم کی آبیاری ۔ایک دوسرے کی جڑیں کھودنے کا کام ہم سے
عمران خان اور ایلس ہووے کی کہانی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے دونوں نے تصویر کے رخ کو بدل کر دیکھنے کا ارادہ کیا ۔ ایک کی کامیابی کی بدولت دنیا کپڑے سی کر پہننے کے قابل ہوئی تو