پاکستان پر واجب الادا قرضے ایک ایسا سلگتا ہوا سوال ہے جس کے بارے میں شاید معقول جواب کسی کے پاس بھی نہیں وزیر سے لے کر وزیرِ اعظم تک ہر کوئی اس بارے بات کرنے سے کتراتا ہے حکومتی
ہماری حکومت کو یہ جان کرخوف نہیں آتا کہ سکول جانے کی عمر کے5کروڑ سے زائد بچے ورکشاپوں،ہوٹلوں، چائے کی دکانوں ، اور اسی نوعیت کے کاروباری مراکز پر کام کررہے ہیں لاکھوں پیدل پھرکر کھانے پینے کی اشیاء بیچ
کوئی اپنے ہی دل سے پوچھے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیاہے؟اسے یقیناًدل کی دھک دھک میں ایک ہی جواب ملے گا وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ۔۔ اس کی وجہ سے دولت چند مخصوص خاندانوں کی لونڈی بن
اپنے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈارنے کئی بار اسمبلی فلورپر ایک سنگین بات کہہ رہے ہیں کہ ’’ دنیا سمجھتی ہے پاکستان کے ارکانِ اسمبلی ٹیکس چورہیں تمام امراء اپناٹیکس ایمانداری سے دیں توبیرونی قرضوں کی ضرورت نہیں پڑے گی ٹیکس
آج ہماری دنیا میں سوچنے والے کم ، اور غورو فکر کرنے والے اس سے بھی کم بلکہ خال خال رہ گئے ہیں حالانکہ مومن کیلئے انتہائی ضروری ہے جو سوچتا نہیں حال مست مال مست کی طرح ہے اپنی
پاکستان میں سونامی لانے کا دعویٰ کرنے والے سیاستدان نے کہا ہے کہ مجھے سیاست میں آنے کا کوئی شوق نہیں تھا صرف پاکستان کی بہتری کیلئے سیاست میں قدم رکھاعوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔۔۔ کم و بیش یہی
تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے انکشاف کیاہے کہ وزیرِ اعظم کے ایک صاحبزادے7ارب مالیت کے فلیٹ میں رہائش پذیرہیں جبکہ دوسرا200ارب کی کمپنی کا بلا شرکتِ غیرے مالک ہے۔۔یہ انکشاف پاکستان جیسے غریب ملک کے شہریوں کیلئے طلسمِ
ہر حکومت عوام کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرتی رہتی ہے لیکن عوام کی شمولیت کے بغیر ان منصوبوں کی کامیابی ممکن ہی نہیں قانون نافذکرنے والے اداروں اور عوام کے درمیان بڑھتاہوا فرق بھی
5فروری ہر سال آتا ہے اور آکر چلا جاتاہے شاید کشمیری مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے عالمی احتجاج ہم رسماً مناتے ہیں۔۔۔یا یہ فیشن بن گیا ہے ۔۔۔یا پھرسیاست کا ایک انداز ہے ۔۔۔لیکن اگراس بات پر کوئی فتویٰ صادر
میاں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں ’’قرض اتارو ملک سنوارو ‘‘ سکیم شروع کی گئی اس کیلئے عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا جب منتخب وزیر اعظم کی حکومت کا تختہ الٹا گیا یہ سکیم اور اس