Posted By: Hidayat Ullah Akhtar
24 October 2018No comments
ماسٹر دولت شاہ جی ہاں ماسٹردولت شاہ کشروٹ گلگت کے رہنے والے۔کون تھے۔ میرا نہیں خیال کہ نئی نسل اس نام سے واقف ہو لیکن اتنا یقین ہے کہ ساٹھ ستر کی دہائی کے افراد بخوبی اس شخص کو جانتے
قدیم زمانے میں گلگت میں شادی بیاہ کا اغاز ایک رسم سے ہوتا تھا جس کو رسم تائو کہتے تھے۔ یہ رسم اب بھی ہے لیکن اب اس میں جدیدیت پنجاب ثقافت عود کر گئی ہے۔قدیم زمانے کی یہ رسم
گلگت یا راوپنڈی سے بذریعہ قراقرم ہائی وے جسے آج کل سی پیک کہا جاتا ہے سفر کرنے والوں نے تھلیچی کے مقام پر روڈ میں نصب ایک سائن بورڈ کو ضرور دیکھا ہوگا اس سائن بورڈ پر کچھ الفاظ
پاکستا نی سیاست اورسیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت ساری باتیں ہو چکی ہیں اس سلسلے کو یہی پہ منقطع کرنے سے پہلے ایک آخری بات جو میں کہنے والا ہوں وہ یہ کہ پاکستانی سیاسی تاریخ کے اندر شروع
محترم چیف جسٹس صاحب کا ایک بیان نظر سے گزرا بات ڈیمز کے متعلق تھی اس لئے اس میں دلچسپی پیدا ہوئی وہ اس لئے کہ گلگت بلتستان میں بھی پچھلے کئی سالوں سے یہ سن رہے ہیں کہ سکردو
میاں صاحب اور اس کی صاحبزادی کے بارے خبر یہ ہے کہ وہ لندن سے روانہ ہوچکے ہیں اور شام چھ بجے لاہور ایئر پورٹ پر اترینگے اب وہ اتر جائینگے یا جہاز کا رخ کسی اور رخ مُڑ جاتا
مجھے پینے کا شوق نہیں۔پیتا ہوں غم بھلانے کو۔اب یہ پینے سے انسان غم کیسے بھول جاتا ہے یہ تو اس شعر کا خالق ہی بتا سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ شاعر نے یہ شعر کس کیفیت میں
میں لفظوں کی ہیرا پھیری اور لفاظی کرنے کے فن سے نا اشنا ہوں ۔ثقیل الفاظ کا استعمال اس لئے اچھا نہیں سمجھتا کہ اس کو سمجھنے کے لئے لغت کی تلاش رہتی ہے اس لئے اپنا مدعا سیدھے سیدھے
جی بی میں ٹیکس معطل ہونے کے بعد ایک شخص مٹھائی کا ڈبہ ہاتھ میں لئے گدھے کے قریب کھڑا گدھے سے یوں گویا ہوا۔ ابے گدھے کھا مٹھائی۔ کیوں مجھے گدھا سمجھتے ہو جو مٹھائی کھائوں ۔ کیا مجھے
آج جب سٹی پارک سے گزر ہوا تو اپنے دوست منظور کشمیری ارے بابا یہ کشمیر کے نہیں ہیں بلکہ گلگتی کشمیری ہیں اور بلدیہ گلگت میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ۔پر نظر پڑی جو بڑے ہی جوش