تو اپنے کرم سے ہمیں کر عطا یہ حسیں خطہ ارض کشمیر ہو تری بارگاہ اور سجدہ مرا! اپنے وارثوں،بھائیوں ،بیٹوں کو بھارتی غاصب فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہونے ،سینے پہ گولیاں کھاتے ، کبھی نہ کبھی لوٹ آنے کی
ایک سوال اس معاشرے کے ہر فرد سے ایک لمحے کے لیے سوچیے گا ضرور !کیا کبھی کسی ایسے انسان سے ملاقات ہوئی آپ کی جو اپنے دل میں ہر ذی نفس کے دل کی بات لئے پھرتا ہو جسے
آکاس بیل کے بارے مین سبھی جانتے ہیں کہ اس کے پتے نہیں ہوتے۔اس کے پھول دسمبر میں نکلتے ہین مارچ میں پک کر زمین پر گر جاتے ہیں بیجوں سے نازک پودے نکل کر میزبان پودے کو تلاش کرتے
انسانی زندگی رشتوں سے عبارت ہے۔رشتوں کے بغیر انسان ایسے ہی ہے جیسے بغیر رنگوں کے ایک سادہ کینوس۔۔زندگی کے کینوس پر سب سے خوبصورت رنگ والدین کی محبت اور شفقت کا ہے جو ہر غرض بناوٹ اور کسی تقاضے
زندگی روں دواں ہے۔وقت گذر رہا ہے کبھی مہرباں تو کبھی نا مہربان ہم سب بھاگ رہے ہیں۔کسی نہ کسی چیز کے پیچھے کوئی دولت کے پیچھے کوئی شہرت کے کسی کو کرسی کی ہوس ہے تو کسی کو عزت
کسی بھی ملک کی معاشرت اور اس کی تہذیب کی عکاسی وہاں رہنے والے افراد کی زندگیِ ، ان کے اطوار ، ان کی سوچ اور ان کے رویوں سے ہوتی ہے۔جب معاشرہ اور تہذیب رو بہ زوال ہو اور