بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے

Print Friendly, PDF & Email

دفتر سے نکلتے ہی گاڑی میں بیٹھا اور گھر کا رخ کیا۔۔راستے میں ایک برگر شاپ سے بیوی بچوں کے لیئے پاسل پیک کروا کر باہر نکلا تو بلا ارادہ بائیں طرف دیکھتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔گاڑی اسٹارٹ کرتے کرتے رک گیا۔۔! ذہن کے پردے پر کچھ چب رہا تھا جیسے بائیں طرف کے دیکھے گئے منظر میں کچھ ایسا خاص تھا جو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔ میں نے شیشہ نیچے کیا اور سر نکال کر دیکھا۔۔ پر سمجھ نہیں آیا۔۔!!
پھر گاڑی سے باہر نکل کر کھڑا ہو گیا اور ذہن سے الجھتے ہوئے بائیں طرف دیکھ کر سوچنے لگا کہ وہی پیدل چلتے لوگ، ہارن بجاتی گاڑیاں ، دکانوں میں آتے جاتے خریدار، شوروغل اور انواع و اقسام کے کھانوں سے رچی فضا اور۔۔۔اور۔۔۔۔اور۔۔۔سوچ کی رفتار کو جیسے بریک لگ گئی اور نظریں تیسری دکان کے نکڑ پہ کوڑے کے ڈھیر کے پاس جم سی گیءں۔۔۔!!
ذہن کی دیوار میں گڑھا وہ کیل جو پچھلے چند منٹ سے بار بار چبھن کا احساس دلا رہا تھا اب اس کوڑے کے ڈھیر کے پاس کیاس خاص منظر سے اچانک ذہن کے لاشعور سے دستک دیتی ایک مہربان شبیہہ کے واضح ہوتے ہی چپ چاپ نکال کر گر گیا۔۔منظر انتہائی افسوسناک تھا۔۔!!
اس کوڑے کے ڈھیر سے باسی کھانا چن کر کھاتا وہ بوڑھا مفلوک الحال شخص۔۔جس کا چہرہ گاڑی کی طرف تھا۔۔وقت کی سنگدل سختیوں کی داستان سے بھرا جھری زدہ چہرہ، دونوں ٹانگوں سے محروم ، پھٹے گردآلود کپڑیاور خاک اڑاتے سرمئی بکھرے بال۔۔ میرے وہاں رکنے اور درد بھری ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کی وجہ اس کے کھانے کا عمل نہیں بلکہ اس کا شناسا چہرہ تھا۔۔!!
وہ چہرہ جو میں بھلا ئے نہیں بھول سکتا تھا۔۔۔آج میں ایک کامیاب انسان تھا تو صرف اس ایک چہرے کی بدولت۔۔
میرے رہنما، میرے استاد” سر راحیل شاہ۔۔!
میں سکتے کے عالم میں سوچے جا رہا تھا کہ یہ کیسے ممکن !!
یہ کیسے ہو سکتا ہے!!!
سر اس حالت میں!!!
اچانک پاس گزرتی گاڑی کے ہارن سے چونک کر ہوش میں آیا تو اپنے اردگرد نظریں دوڑائیں تو خود کے جاندار ہونے کا احساس جاگا ،دل میں ہلچل مچی ہوئی تھی میں بیاخیتار اور بیقراری سے اپنے محسن استاد کی طرف بھاگتا ہو گیا۔۔۔ جیسے ہی پاس پہنچ کر میں ان کے پاس دوزانو ہو کر بیٹھا اور پکارا۔۔ “سر راحیل”۔۔!!
ایک پل کو باسی چاول کا نوالہ منہ کی طرف لے جاتیان کے ہاتھ رک گئے اور انہوں نے سر اٹھا کر کچھ پل میرے طرف دیکھا اور پھر سے کھانے کا عمل جاری کر دیا۔۔ میں نے بیتابی سے پھر پکارا۔۔” سر میں شرجیل!” انھوں نے پھر سر اٹھا کر مجھے دیکھا لیکن پہچان کا کوئی رنگ ان کی آنکھوں میں نہ ابھرا۔۔ شائد ان دس سال میں میں کافی بدل گیا تھا ،شادی کے بعد پرسکون اور پر آسائش زندگی نے موٹاپے کی سوغات جسم پر لٹکا دی تھی۔۔
“سر آپ کو یاد ہے آٹھویں کلاس میں آپ کا ایک کمزور اور ڈرپوک سا شاگرد جو کلاس میں سب سے خاموش اور اکثر افسردہ اور خود سیالجھا ہوا رہتا تھا “۔۔میں نے پھر یاد دلانے کی کوشش کی۔۔ شائد وقت نے ان کے حافظے کی کتاب آزمائشوں کی گرد سے ڈھانپ رکھی تھی جو اب سوچنے کے عمل سے کھلتی دکھائی دے رہی تھی اور شناسائی کی ابھرتی ڈوبتی چمک آنکھوں میں واضح تھی۔۔۔ اچانک بولے
“شرجیل”
میں کہا “جی!۔۔ لیکن سر آپ اس حال میں کیسے؟”
اس بات پہ ان کی آنکھیں نم ہو گئیں،کچھ لمحے خاموش رہے۔۔ جیسے درد کی کتاب کا پہلا صفحہ کھول کر اس پھر سے پڑھنے کی ہمت کر رہے ہوں۔۔!
پھر بولے۔۔ ” آہ۔۔!آٹھ سال پہلے میں اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ لاہور سے فیصل آباد جا رہا تھا۔۔ راستے میں ایک بس کے ساھ خطرناک ایکسیڈنٹ ہوا۔۔بیوی اور بیٹے نے موقع پہ جان دے دی اور میں بچ گیا لیکن دونوں ٹانکوں سے محروم ہو گیا۔۔ایک ماہ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کمریمیں رہا۔۔جان تو بچ گئی لیکن اپاہج ہو کر نوکری سے محروم ہو گیا، سگے رشتہ داروں اور دوستوں سب نے نظریں پھیر لیں۔۔ آہستہ آہستہ سب جمع پونجی بک گئی۔۔
اور سڑک پہ آ گیا۔۔اب کوئی کھانے کو دیتا ہے تو کھا لیتا ہوں۔۔ اللہ سے کوئی شکوہ نہیں پر اس طرح کوڑے سے چن کر کھانا بہت تکلیف دیتا ہے لیکن پیٹ کی بھوک تہذیب کے سارے آداب مٹا دیتی ہے۔۔استاد کا شمار اس معاشرے میں مہذب ترین افراد میں سے ہوتا ہیلیکن بھوک ایسا جانور ہے جو “پیٹ” کے جنگل میں وقت پر خوراک پا کر سکون سے سویا رہتا ہے اور انسان کو ادب و تمیز کے لبادے میں جینے دیتا ہے لیکن جب اس جانورکو کھانا نہ ملے تو یہ انسان کو ساری تہذیب بھلا کر حیوان بنا دیتا ہے۔ اس وقت میں کوڑے سے کھانا چن کر کھاتا ہوا انسان نہیں بلکہ۔۔۔ ” اتنا کہتے کہتے ان کی آواز رندھ گئی ،چند آنسو پلکوں کے جنگلے توڑ کر دلاسا دیتے ہوئے جْھریوں کی بھول بھلیوں میں گم ہونے لگے اور شائد اگے کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔۔ پھر چند لمحے خود کو سنبھالنے کے بعد دھیمی آواز میں کہنے لگے۔۔”اللہ کا شکر کہ وہ کھانے کو دے رہا ہے”۔۔پھر ایک بار خاموش ہو کئے شائد ان کے پاس کچھ کہنے کو نہ تھا۔۔ !!
میں بھی چپ تھا کیونکہ میرا ضمیر ملامت کے کَوڑے برسا رہا تھا اور میں اپنا احتساب کر رہا تھا یہ سوچتے ہوئے کہ
” کیا صرف بھوک تہذیب کے آداب بھلاتی ہے؟
کیا ہماری بیحسی اس کی ذمہ دار نہیں؟
کیا مہذب معاشرے کے یہ انداز اور آداب ہیں کہ انسان کو جانوروں کی طرح کچرے سے کھاتے اور کیڑے مکوڑں کی طرح سڑک پہ زندگی گزارتے دیکھ کر بیحس ہو نظریں پھیر کر گزر جائے؟؟
“ہمارے” لئے یہ لمحہِ فکریہ ہے آج اِن کا رزق کوڑے میں چھپا ہے جِسے یہ بیبسی سے چننے پر مجبور ہیں۔۔کل ہو سکتا ہے اپنی اسی بے حسی کی وجہ سے ہمارا رزق ان کوڑے دانوں میں نہ لکھ دیا جائے۔۔۔ اس سے پہلے ہی معاشرے سے “بھوک ” کے اس اڑدہے کا خوفناک پھن کاٹ دینا چاہیئے کہ پھر کوئی مفلس اس کا شکار نہ ہو”۔۔۔!!
غربت کی وبا جہاں بھی پھیلتی ہے
بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔۔
دیکھ کر کوڑیسیرزق ڈھونڈتے انسان کو
انسانیت بھی سسک کہ دم توڑ دیتی ہے۔۔

(ازقلم: عظمیٰ فردوس،جدہ، سعودی عرب)

Short URL: http://tinyurl.com/gu2ytzj
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *