آفتاب احمد کی ہلاکت!ذمہ دار کون؟۔۔۔۔ تحریر:عمران احمد راجپوت

Imran Ahmad Rajpoot
Print Friendly, PDF & Email

کہتے ہیں انسان جب طاقت کے زعوم میں مبتلا ہوتا ہے تو عقل و شعور سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے ۔ وہ خود کو سیاہ سفید کا مالک سمجھ بیٹھتا ہے اِسے یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہم جیسا چاہیں جو چاہیں کریں ہمیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہمیں للکارنے کی کسی میں جرات نہیں ہم ہر شے کے مالکِ کُل ہیں لہذا ہر فیصلہ ہمارا ہوگا ہرجگہ حکم ہمارا ہی چلے گا ۔ یہی گمان فرعون نے بھی کیا تھا یہی اعلان نمرود نے بھی کیا تھا یہی دعویٰ شداد کابھی تھا ۔اور آج یہی وطیرہ ملک و قوم پر مسلط حکمرانوں کا بھی ہے جو طاقت کے نشے میں خود کو اِس ملک کے مالکِ کُل سمجھ بیٹھے ہیں اور اِس حد تک آگے نکل چکے ہیں کہ حق و باطل میں تمیز ہی بھلابیٹھے ہیں صحیح و غلط کی پہچان ہی گنوابیٹھے ہیں۔ملک پر قابض حکمرانوں سے لیکر بیوروکریسی کی آڑ میں چھپی اشرافیہ تک ہر ایک خدائی دعویدار بنا بیٹھا ہے جو اِس مقدس سرزمین کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنانے میں لمحہ بھی نہیں چوکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی غریب و مظلوم عوام نے اِس گھٹن زدہ ماحول میں کسی پر اعتماد اور اپنے تحفظ کی امید قائم کررکھی ہے تو وہ پاک فوج اوراُس سے جڑے قومی سلامتی کے ادارے ہیں جو حقیقی معنوں میں عوام کے دلوں کی ترجمانی کرتے ہوئے پاکستان کے غریب مظلوم عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے میں دن رات کوشاں رہتے ہیں ۔ پاکستان میں رہنے والا ہر شخص پاک فوج اور قومی سلامتی کے اداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے عوام اور عسکری قوتوں کے درمیاں اعتماداور محبت کا یہ رشتہ ملک پر قابض اشرافیہ کو کسی طور نہیں بھاتالہذا ہر دور میں یہ کوشش کیجاتی رہی ہے کہ کسی طرح محبت کے اِس رشتے کو توڑا جائے اعتماد کی اِس فضاء کو خراب کیا جائے ۔ پچھلے دنوں ایم کیوایم کے کارکن اور ڈاکٹر فاروق ستار کے کوآرڈنیٹر آفتاب احمد کی رینجرز کی حراست میں ہلاکت اِیسی ہی کسی سازش کا حصہ ہے۔ پچھلے ایک سال سے جس طرح رینجرز نے کراچی میں امن قائم کرکے کراچی کے عوام کے دل جیتے ہیں جس طرح کراچی کے شہریوں کی بھتہ مافیا ٹارکٹ کلر اور کرپٹ عناصر سے جان چھڑائی ہے یقیناًاِس سے عسکری اداروں اور عوام کے درمیان اعتمادکا رشتہ مزید مضبوط ہوا ہے۔لیکن پچھلے دنوں آفتاب احمد کی رینجرز کی تحویل میں اچانک ہلاکت قومی سلامتی کے اداروں اور عوام کے درمیان اعتماد کے رشتہ میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے ۔آفتاب احمد کی موت کی وجہ بظاہر تو ہارٹ اٹیک بتائی جارہی ہے لیکن آفتاب احمد کا جسد خاکی کچھ اور ہی حقیقت بیان کررہا ہے جبکہ دورانِ تفتیش ہارٹ اٹیک کے باعث موت واقع ہونا زیر تفتیش تشدد کے زمرہ میں ہی آتاہے نیز یہ کہ اِس طرح کا بہمانہ تشدد او پی ایس کی خلاف ورزی ہے ۔جبکہ یہاں ایک سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ ہمیشہ دورانِ تفتیش ہارٹ اٹیک سے کراچی کاغریب ہی کیوں مرتا ہے ۔یہ معاملہ دیگر زیرحراست امراء وزرا یا اُن کی پشت پناہی حاصل کرنے والے عزیر بلوچ ،گلو بٹ، ڈاکٹر عاصم ،نثار مورائی جیسے لوگوں کے ساتھ کیوں پیش نہیں آتا ۔اگر آفتاب احمد واقعی دہشتگرد یا را کا ایجنٹ تھا تو بیشک اسے کلبھوشن یادیو سے پہلے پھانسی پر لٹکا دیا جاتا لیکن صاحبو! جرم تو ثابت ہونے دیا جاتا۔ایسے کسی کا سہاگ چھین لینا معصوم بچوں سے اُن کا باپ چھین لینا عذابِ الہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔یاد رکھیں جولوگ دنیا میں فساد پیدا کرتے ہیں اور معصوم بچوں کو اُنکے والدین سے جدا کرنے کا مؤجب بنتے ہیں ایسے لوگو کیلئے آخرت میں انتہائی درجے کا عذا ب تیار کررکھا ہے۔ بیشک آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کرپشن کے خلاف آپریشن کا آغاز اپنے ادارے سے شروع کیااس کے علاوہ آپریشن ضرب عضب سمیت ملک کے دیگر اہم ایشوز پر بھی اپنی بہترین پیشہ ورانہ صلاحتوں کے باعث بہتر انداز سے حل کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔ آفتاب احمد کی ہلاکت کے حوالے سے اصل حقائق کیا ہیں ذمہ داروں کا تعین کرنا ضروری ہے۔ایسے ماحول میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے معاملے کی انکوائری کرانا ایک مثبت اور قابلِ ستائش اقدام ہے جسے ملک وقوم قدر کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں اِس امیدپر کہ آفتاب احمد کے اہلِ خانہ کو انصاف ملے گاقصوروار کو کٹہرے میں لایاجائے گا قومی سلامتی کے ادارے ملک وقوم کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں جن پر ہر پاکستانی کو فخر کرنے کی ضرورت ہے لہذاِ ن اداروں کی نیک نامی پر سوالات اُٹھائے جانے لگیں تو یہ قومی سلامتی کے اداروں اور عوام پر لازم ہے کہ اُنکی نیک نامی کو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ ا س کے لئے ضروری ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے جہاں کہیں خرابی ہے اُسے فل الفور دور کیا جائے تاکہ عوام کا اعتماد اِن اداروں پر خود سے بڑھ کر کیاجاسکے ۔

Short URL: http://tinyurl.com/j2wac3f
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *