اَدھوری محبت

Print Friendly, PDF & Email

افسانہ نگار: شہزاد حسین بھٹی


یہ جون 2014 کی ایک شام تھی جب میری بیوی نے شام کی چائے پر مجھے بتایا کہ آج ہمارے گھر ایک مہمان آ رہی ہے اور کچھ دن وہ ہمارے گھر رہے گی۔ میرے مزید استفار پر اُس نے بتا یا کہ آج میری خالہ زاد کا فون آیا تھا ۔اس نے مزکورہ لڑکی کے بارے میں تفصیلات دی ہیں کہ وہ اس کے ساتھ کسی پرائیویٹ ہسپتال میں جاب کرتی ہے اور اُسکے والداور چچا اُس کی زبردستی شادی کروانا چاہتے ہیں یہی وجہ تھی کہ آج اس کے والد اور دیگر رشتے دار اسے ہسپتال سے زبردستی اُٹھانے آئے تھے۔ لیکن میں نے کمال ہوشیاری سے اسے کسی دوسری لڑکی کا برقعہ اُڑھا کر وہاں سے نکالا ہے اور اُسے کچھ دنوں کے لیے تمہارے ہاں بھجوا رہی ہوں تاکہ اُنہیں اس کی موجودگی کا پتہ نہ چلے اور جب حالات بہتر ہو جائیں یا کوئی مناسب رشتہ دیکھ کر اسکی شادی کر دیں گے۔
یہ سب سننے کے بعد میں کچھ پرشان ہوا لیکن دوسرے ہی لمحے اُسے اپنے گھر رکھنے کی حامی بھر لی اور دل میں سوچا کہ اب جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا۔ رات نو بجے کے قریب اُس لڑکی کی آمد کا ایس ایم ایس میری بیوی کے موبائل پر آیا کہ میں راولپنڈی کراس کر رہی ہوں اور اگلے بیس منٹ تک میں آپ کے سٹاپ پر ہوں گی۔ میری بیوی نے کہا کہ گاڑی نکالیں تاکہ اُسے سٹاپ سے پک کیا جاسکے۔
ہم اسٹاپ پر اُس کا انتظار کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ میرے ذہن میں اُس کی مختلف خیالی تصاویر گردش کر رہی تھیں۔ اچانک ایک ہائی ایس ہمارے سٹاپ پر رُکی اور میری بیوی اُس گاڑی کی طرف بڑھی جبکہ میں اپنی گاڑی میں بیٹھا انتظار کر رہا تھا۔ چند ہی لمحے بعد ایک نقاب پوش لڑکی ہماری گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بُرجمان ہو گئی اور اُس نے آتے ہی مجھے سلام کیا ۔ جسکے جواب میں وعلیکم السلام کہا اور گاڑی بڑھا دی۔ چند منٹوں کی ڈرائیو کے بعد ہم اپنے گھر تھے۔کپڑے تبدیل کرنے کے بعدوہ میرے ڈرائینگ رو م میں ہمراہ میری بیوی داخل ہوئی اور میرے سامنے والے صوفہ پر بیٹھ گئی اور میرے متوقع سوالوں کے جواب دینے کے لیے ہمہ تن گوش ہو گئی ۔
میری جوں ہی نظر اس لڑکی پر پڑی تو میں گویا طشت ازبام ہو گیا اور اُسے دیکھا ہی رہ گیا۔ خیر چندلمحوں بعد میں نے اُس سے ساری کہانی سُنی اور اُسے تسلی دی کہ وہ بے فکر ہو جائے۔ اول تو یہاں کوئی آئے گا نہیں اور اگر آیا بھی تو اُس کا انتظام کر لیا جائے گا۔میں نے احتیاط کے طور پر اسکے موبائل سے اُس کی سم نکلوا کر نہ صرف توڑ دی بلکہ اُسے دور نالے میں پھینک آیا۔اور اپنی ایک اضافی سم اُس کے حوالے کر دی تاکہ اُس کے ساتھ میرا اور میری بیوی کا رابطہ بحال رہے۔
ایک دو دن کے بعد میں نے اُسے اپنے دفتری اوقات میں فون کر نا شروع کر دیا اور رسماً اُس کا حال احوال پوچھنا شروع کر دیا اور پھر رفتہ رفتہ اُس کے قریب ہو نا شروع کر دیا ۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ وہ کسی کو پسند کرتی ہے کیا تو اُس نے جواب دیا کہ ہاں وہ ایک لڑکے کے ساتھ شادی کر نا چاہتی تھی لیکن وہ لڑکا اپنی والدہ کا حکم ٹا ل نہیں سکتا اور وہ پہلی شادی اپنی والدہ کی مرضی سے کرے گا اور پھر میرے ساتھ ۔ میں نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ تم جان بوجھ کر ایک ایسے لڑکے کے ساتھ شادی کرنے جا رہی ہو جو تمہارے اُوپر اپنی والدہ کی پسند کو فوقیت دے رہا ہے۔ جس پر اُس نے کہا کہ وہ جلد سے جلد کسی ایسے بندے سے شادی کرنا چاہتی ہے جو اسے فوراً بیاہ کر دیار غیر لے جائے۔
میری غیرمعمولی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے وہ بھانپ گئی تھی کہ میں اس میں دلچسپی لے رہا ہوں۔ وہ ہمارے ساتھ ہرجگہ گھرکے ایک فرد کی طرح آ جا رہی تھی ۔ میری بیوی اُسے ایک بیٹی کی طرح برتاؤکر رہی تھی جبکہ میں دل ہی دل میں اُسے اپنے دل کی ملکہ بنانے کے درپے تھا۔ اور یہ سب کچھ اس لڑکی کی ایک ہاں پرمنحصر تھا۔حورین کو رب نے فرصت میں بنایا تھا۔ بائیس سال کی عمر اور جوبن حسن بن کر اُس کے چہرے سے عیاں تھا۔اُس کی موٹی موٹی اور خوبصورت آنکھیں اپنی مثال آپ تھیں۔ خوبصورت گول چہرہ اور پتلے پتلے ہیرے جیسے ہاتھ اس کے۔ دل کرتا تھا کہ یہ فلموں کی ہیروئن کی طرح میری باہوں میں سمٹ جائے اور کہے ۔۔۔۔میں تیری آن میں تیری آن۔۔۔۔
ؓؓؓ حورین میں غیر معمولی دلچسپی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ میں اپنے دفتری امور تک بھول چکا تھا اور ہر وقت اُسی کے خیالوں میں گم رہتا اور اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب رہتا۔شروع میں میری اُس کے ساتھ گفت وشنید ایس ایم ایس یا فون کے ذریعے ہوتی تھی۔ لیکن وہ مجھ میں دلچسپی نہ لے رہی تھی ۔ حالانکہ میں اُس کے لیے اپنی تمام جمع پونجھی لٹانے اور اپنے راہ میں آنے والے ہر طوفان سے ٹکرانے کو تیار تھا لیکن جسکے لیے میں سب کر رہا تھا وہ میری انگلی پکڑنی کو تیار نہ تھی۔وقت کا دھارا تیزی سے گزرنے لگا۔ایک ماہ گزرچکا تھا۔ آفس سے چھٹی ہوتے ہی میں گھر کی طرف لپکتا تھا تاکہ اُسے ایک نظر دیکھ کر اپنی آنکھیں خیزہ کروں۔ اور کچھ دیر اس کی صحبت میں بیٹھ کراسکی جوانی کی حرارت اپنے اندر محسوس کروں۔
ہمارے ہاں آنے کے ایک ہفتے بعد ہی وہ میری بیوی سے کہنے لگی کہ اُسے لاہور جانا ہے اور نرسنگ ڈائریکڑ سے ملنا ہے جاب کے سلسلے میں۔ خیر ایک دفعہ میں نے اُسے ہائی ایس سروس کے اڈے سے گاڑی میں بیٹھایا اور ٹکٹ لے کر دینے کے بعد اُس کے لیے زاد سفر کے لیے منرل واٹر اور کچھ سویٹس لے کر اُسے دیں۔ پھر ایک دفعہ اُسے لاہور جانا تھا ۔ میرے خیال میں اُسے اپنے محبوب سے ملنا تھا ، میں اور میرے بیوی اُسے ریلوئے اسٹیشن گاڑی میں بیٹھانے آئے اور ٹکٹ تک ہر خرچہ میرا ہو رہا تھا۔میں یہی سمجھ رہا تھا کہ ایک نہ ایک دن ضرور یہ خود ہی مجھے کہے گی کہ وہ مجھ سے محبت کرنے لگی ہے ۔بلکہ ایک دفعہ ہم نے اپنے آبائی شہر جانا تھا تو میری بیوی اُسے وہاں بھی ساتھ لے گئی اور اپنی بھانجی کے حوالے سے تعارف کروایا۔ خوبصورت ہونے کی وجہ سے میری امی اور والد بھی اُس سے ہمکلام ہوئے تاکہ اُس کو جانچ سکیں۔ بلکہ میری والدہ میرے چھوٹے بھائی کے رشتے کے حوالے سے غیر معمولی طور پر اس میں دلچسپی لینے لگیں۔
اُدھر دُوسری طرف وہ میرے سسرال میں بھی ہمارے ساتھ جانے لگی اور میری سالی کی بیٹیوں کے ساتھ اسکی دوستی ہو گئی۔ اور وہ وہاں رہنے کے لیے اصرار کرنے لگی۔ لیکن میری بیوی نے یہ سوچ کر اجازت نہ دی کہ وہاں پہلے ہی افراد خانہ زیادہ ہیں ۔لاہور میں میری بیوی کی کزن کو جب ہمارے گھر نئی مہمان کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ جمیلہ سے کہنے لگی کہ تم بوڑھی ہو رہی ہے اور جمشید بھائی ابھی جوان ہیں۔ کہیں ایسانہ ہو کہ حورین تمہاری بہن کی سوکن بن جائے ۔ یہ بات سن کر میری چھوٹی سالی حمیدہ کا ماتھا ٹھنکا اور اُس نے فوراً فون کر کے میری بڑی سالی کے ذریعے میری بیوی جمیلہ کو خبردار کیالیکن میری بیوی نے اس امکان کو مسترد کر دیا۔
حورین کو ایک دفعہ لاہور میں کچھ پیسوں کی ضرورت پڑی تو اُس نے مجھے سے رابطہ کیا اور کچھ رقم کا تقاضا کیا جو میں نے جَھٹ ایزی پیسہ کے ذریعے بھجوادئیے۔ بلکہ ایک دفعہ وہ ناراض ہو کر لاہور روانہ ہوئی اورجب وہاں رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ نہ پانے پر دوبارہ مجھ سے رابطہ کیا اور میں نے اُسے کہا کہ وہ واپس آ جائے اور یوں وہ دوبارہ واپس آگئی ۔وہ اپنے مفاد میں جب چاہتی مجھے استعمال کرتی لیکن جب میں اسے اپنی مجت کااظہار کرتا تو وہ مجھے دھمکی دیتی کہ اگر میں باز نہ آیا تو وہ میرے میسجز اور یک طرفہ محبت بارے میری بیوی کو بتا دے گی۔اور میں کچھ اجتناب برتنے لگ جاتا۔میری بیوی اور میں شام کو واک پر نکلتے تو اُسے بھی ساتھ لے لیتے لیکن وہ راستے بھر میرے ساتھ بات نہ کرتی بلکہ میری بیوی سے باتوں میں مگن رہتی۔ اور میں چُپ چاپ اُس کی حسین چہرے اور اُسکے گیسوں کو دیکھتا۔
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آخر یہ لڑکی کیوں مجھ میں دلچسپی نہی لیتی؟ میرے پاس وہ سب کچھ ہے جو ایک لڑکی کو اپنا گھر آباد کرنے کے لیے چاہیے ہوتا ہے۔ ایک کے بجائے دو دو گاڑیاں ہیں ۔ اچھی جاب ہے ۔ اچھا رہن سہن ہے تو پھر ایسا کیا ہے کہ وہ مجھ میں دلچسپی نہیں لیتی۔میں نے اُسے پانے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے۔ ایک دوست کے ذریعے ایک عامل سے تعویز لکھوائے ،اُلٹے سیدھے منتر پڑھے، ویران کنوؤں میں تعویز پھینکے۔ حتکہ کہ ہر وہ حربہ اخیتار کیا جو ایک عاشق اپنے محبوب کو پانے کے لیے کرتا ہے۔ لیکن اُسے دلچسپی اپنے ہم عمر لڑکے میں تھی۔ اگرچہ میری عمرچالیس سال سے زیادہ نہ تھی لیکن وہ مجھے کہتی کہ میں اُسکے والد کا ہم عمر ہوں جبکہ حقیقت یہ نہیں تھی۔اسکے والد تو مجھ سے بھی پندرہ سال بڑے تھے اور ویسے بھی محبت اور شادی میں عمر کا کیا کام۔
اس لڑکی پر میں ایسے فریفتہ تھا کہ میں اُسے اپنی زندگی کا ایک لازمی حصہ تصور کرنا شروع کر دیا تھا۔یعنی ایسا دل پھینک تھا کہ اُس کی ایک پل کی جدائی مجھے برداشت نہ تھی۔میں اُس کی خاطر اپنی تمام فیملی کو کبھی کہاں اور کبھی کہاں سیر کے لیے لے جاتا۔ کبھی ہوٹلنگ کے لیے لے جاتا ۔ لیکن وہ نہ جانے کیو ں میرے وجود سے بھی تنگ تھی ۔حورین نے حال ہی میں نرسنگ کی چار سالہ تربیت حاصل کی تھی جبکہ اسکی والدہ وفات پا چکی تھی اور والد بیمار تھا۔ جبکہ اسکی دو یا تین مزید بہنیں اور دو بھائی بھی تھے جو کوئی چھوٹے موٹے کام کرتے تھے۔ جبکہ یہ محترمہ چار سالہ نرسنگ کے بعد اپنے آپ کو کوئی بہت بڑی چیز سمجھتی تھی اور غرور وتکبرکااک مجسمہ تھی۔
اس ادھوری مجت کا اختتام ڈھائی ماہ کے بعد ہی ہوگیا ۔ میرے ایک دوست جو علم الاعادات جانتے تھے، اُن کے مطابق یہ لڑکی میرے لیے بہت بڑی بدنامی کا سبب بن سکتی تھی۔کیونکہ انکے علم کے مطابق اسکے ستارے میرے ساتھ موافقت نہیں رکھتے تھے۔ وہی ہوا کہ ایک دن ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ہم دونوں کی ایس ایم ایس پر لڑائی ہوگئی جس پر اُس نے سب کچھ میری بیوی کو بتانے کا کہہ دیا۔ میں نے صورت الحال کو کنڑول کیا اور اسے منایا کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرے گی۔ اگلے دن جب میں اپنے آفس سے آیا تو دیکھا کہ میری بیوی کے طیور چڑھے ہوئے تھے جبک وہ لڑکی میری بیوی کے سامنے ایک کرسی پر بیٹھی رو رہی تھی۔ میں صورت حال کو فوراً بھانپ گیا۔میں نے اپنی بیوی سے بات کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اُسے سب کچھ بتا دیا گیا ہے۔ بیوی الگ گھر چھوڑنے کی دھمکیاں دینے لگی۔ میری بیوی نے میرے والدین، سرال اور اولاد تک کو بتا دیا اور وہ ہنگامہ مچایا کہ الامان الحفیظ۔ میں نے بھی اس لڑکی کی بتائی روداد کا انکار کیا اور کہا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ اسی شام میری بیوی نے میرے سالے احسن کو بلوایا کہ اس لڑکی کو فوراً اسکے گھر ٹوبہ ٹیک سنگھ روانہ کیا جائے۔ لڑکی کے گھر کا نمبر لے کر میرے سالے نے وہاں بات کی تو اسکے بھائی نے بتایا کہ اسکے والد کو فالج ہواہے اور وہ بیڈ پر ہیں ۔ وہ اپنی بیٹی کو بہت یاد کرتے ہیں۔ اسکے بھائی نے کہا کہ آپ اسے وہاں سے بیٹھا دیں میں پک کر لوں گا۔ اور یوں اگلے دن19 جولائی 2014کوجب میں اپنے آفس سے گھر واپس آیا تو معلو م ہوا کہ وہ جا چکی تھی۔میرے سالے نے اسے جانے سے پہلے کہا تھا کہ بی بی آپ جا تو رہی ہو ۔ اور ان کو یوں بھول جاؤ گی جیسی یہ لوگ کبھی تھے ہی نہیں تمہاری زندگی میں۔میں نے اسکے جانے کے بعد اسکے فون نمبرز کو بہت ٹرائی کیا لیکن اس نے بند کردیئے تھے۔بعدا زاں دوسال بعد اسکا وٹس ایپ پر نمبر آن تھا۔ رابطہ کیا تو وہ کسی لڑکے کے پاس تھا جو اس لڑکی کو نہیں جانتا تھا۔ اب بھی کبھی کبھی اُداسی یا تنہائی میں اس بے وفا کی یاد آتی ہے اور دل خون نے آنسو رونے لگتا ہے ۔ کیونکہ میں حساس انسان تھا یہ نہیں جانتا تھا کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔بحرحال آج بھی وہ میری یادوں میں کبھی کبھی دستک دے کر مجھے میری کھوئی ہوئی محبت کا احساس دلا کر پریشاں کیے رکھتی ہے۔ کاش کہ وہ میرے سامنے نہ آتی اور آج میں اسکی یادوں کا اسیر نہ ہوتا۔

Short URL: http://tinyurl.com/h4gnfp3
QR Code: