یوم عاشور کی حرمت تاریخ کے آئینے میں!۔

Shafqat Ullah
Print Friendly, PDF & Email

تحریر:شفقت اللہ


محرم تحریم بابِ تفعیل سے اسم مفعول ہے ،اس کے ایک معنی تعظیم کرنے کے بھی آتے ہیں اس اعتبار سے محرم کے معنی معظم (عظمت والا )ہوئے۔کسی بھی زمانے میں عظمت و حرمت کا اصل سبب تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی تجلیات و انوار کا ظہور ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ بعض عظیم الشان اور اہم واقعات کا کسی زمانے میں انجام اور وقوع بھی اس زمانہ کی عظمت و فضیلت کا باعث بنتا ہے اور انوار و تجلیات کی زیادتی سے اجرو ثواب میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔اس مہینہ کا نام محرم الحرام اس وجہ سے بھی رکھا گیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اس مہینہ میں قتال کرنا حرام سمجھا جاتا تھا ۔ویسے تو تمام مہینے اللہ تعالیٰ کے ہی ہیں لیکن محرم الحرام کے مہینے کی طرف اللہ تعالیٰ کی نسبت کو اس کے شرف او رفضیلت کے اظہار کے طور پر ظاہر کی گئی ہے۔ بے شک محرم الحرام عظمت والا اور با برکت مہینہ ہے ،اسی ماہ مبارک سے ہجری قمری سال کا آغاز ہوتا ہے اور یہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے’’یقیناََ اللہ تعالیٰ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور یہ تعداد اسی دن سے قائم ہے جب سے آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا تھا ،ان میں سے چار حرمت و ادب والے مہینے ہیں ،یہی درست اور صحیح دین ہے ،تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم و ستم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور معلوم رہے کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے‘‘(ترجمہ :سورۃ التوبہ آیت نمبر 36)۔حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں ،تین تو مسلسل ہیں (ذوالقعدہ،ذوالحجۃاور محرم) اور چوتھا جمادی اور شعبان کے مابین رجب کا مہینہ ہے جسے رجب مضر بھی کہا جاتا ہے (البخاری)۔ایک بار کسی صحابیؓ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ فرض نماز کے بعد کونسی نماز افضل ہے اور رمضان کے فرض روزوں کے بعد کس مہینے کے روزے افضل ہیں ؟؟تو نبیِ آخری الزماں ﷺ نے فرمایا’’فرض نماز کے بعد سب سے افضل نمازتہجد اور رمضان کے بعد افضل روزے محرم الحرام کے ہیں‘‘۔حرمت کا لفظ تعظیم سے لیا گیا ہے مطلب ان چا ر مہینوں کی عظمت تمام مہینوں سے افضل ہے اسی لئے ان مہینوں میں اوپر بیان کی گئی سورۃ توبہ کی آیت کریمہ کے ترجمہ میں سختی کے ساتھ حکم کیا گیا ہے کہ اپنی جانوں پر ظلم و ستم نہ کرو مطلب کہ ان مہینوں میں گناہ نہ کرو کیونکہ جس طرح ان دنوں میں عبادت کے درجات بڑھ جاتے ہیں اسی طرح گناہ کرنے کی جزا بھی بڑھ جاتی ہے ۔حضرت عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’تم ان سب مہینوں میں ظلم نہ کرو اور پھر ان میں سے چار کو مخصوص کر کے انہیں حرمت والے قرار د یا اور ان کی حرمت کو بھی بہت عظیم قرار دیتے ہوئے ان مہینوں میں گناہ کا ارتکاب کرنے کو گناہ کبیرہ بتایا ہے اور ان میں اعمال صالح کرنا عظیم اجرو ثواب کا باعث ہے‘‘۔محرم الحرام میں نہایت اہم واقعات بھی وقوع پذیر ہوئے اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے لکھا گیا تھا ۔یکم محرم حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت کا دن ہے۔26ذوالحجہ کی صبح فجر کی نماز کے وقت ایک ابو لؤ لؤ فیروز نامی مجوسی نے آپؓ پر خنجر سے چھ وار کئے پھر وہ مجوسی خود کو بچانے کیلئے بھاگاتو اسی دوران اس نے تیرہ اور آدمیوں کو زخمی کر دیا جن میں سے چھ شہید ہوئے اور اس مجوسی نے خود کشی کر لی ۔حضرت سیدنا عمر فاروقؓ زخموں کی شدت کی بنا پر بیہوش ہو گئے افاقہ ہوتے ہی آپؓ نے دریافت کیا کہ مجھ پر کس نے وار کیا تو ساتھیوں نے بتایا کہ مجوسی نے جس پر آپؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ مجھے کسی مسلمان نے نہیں مارا پس یکم محرم الحرام 24ہجری کو آپ کا وصال ہوا اور آپ کو حجرہ نبویہ میں دفن کیا گیا ۔اسی محرم الحرام میں دسویں محرم کو خاصی اہمیت حاصل ہے جسے یوم عاشور بھی کہتے ہیں ۔یوم عاشور بڑا ہی مہتمم بالشان اور عظمت والا دن ہے تاریخ کے عظیم واقعا ت اس سے وابستہ ہیں چنانچہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یوم عاشور کے دن ہی حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول ہوئی ۔حضرت ادریس ؑ کو اسی دن آسمان پر اٹھایا گیا اسی دن حضرت نوح ؑ کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہو کر جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئی اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو خلیل اللہ بنایا اور ان پر آگ گلزار بنی ۔اسی دن حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ظلم و استبداد سے نجات دلائی اسی دن حضرت سلیمان ؑ کو بادشاہت واپس ملی۔اسی دن حضرت یعقوب ؑ کو سخت بیماری سے شفا ملی اسی دن حضرت یونس ؑ چالیس دن مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے اسی دن حضرت یوسف ؑ کی ملاقات ایک طویل عرصہ کے بعد حضرت یعقوب ؑ سے ہوئی اسی دن حضرت عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے اور اسی دن یہودیوں کے شر سے نجات دلا کر آسمان پر اٹھائے گئے ۔علما ء کرام اور مؤرخین لکھتے ہیں کہ ان دس جلیل القدر انبیاء علیہم السلام کے مندرجہ بالا اہم واقعات کی بنیاد پر اس دن کا نام یوم عاشور ہ رکھا گیا ۔چونکہ یوم عاشور ہ میں اللہ تعالیٰ کے خاص انوارات و تجلیات کا نزول ہوتا ہے اس لحاظ سے یہ دن بہت مبارک ہوتا ہے اور پھر بعض اہم واقعات کی بدولت بھی اس کی عظمت میں اضافہ ہو جاتا ہے مثلاََ بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین ،قلم ،حضرت آدم و حوّا ؑ کو پیدا فرمایا اسی دن حضرت موسیٰ ؑ پر تورات نازل ہوئی اسی دن حضرت اسماعیل ؑ کی پیدائش ہوئی ۔اسی دن حضرت یوسف ؑ کو قید خانہ سے رہائی اور مصر کی حکومت ملی اسی دن دنیا میں پہلی باران رحمت نازل ہوئی اسی دن قریشی خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے اسی دن قیامت برپا ہوگی اسی دن نبی آخرالزماں ﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے نکاح فرمایااسی دن حضرت یونس ؑ کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور اسی دن ایمان افروز ،روح پرور اور تجدید اسلام کا واقعہ کربلا پیش آیا جس میں نواسۂ رسولﷺ شیر خدا ،حیدر قرار،فاتح خیبر نبی ﷺ کا داماد حضرت علی المرتضیٰؓ کا لخت جگر جنت کا شہزادہ شہید ہو کر اپنے نانا ﷺ کا اسلام رہتی دنیا تک قائم کر گیا۔ لہٰذا اس مہینہ کے شرف وفضیلت ،عظمت اور اہمیت کا تقاضا تھا کہ اس مہینہ میں زیادہ سے زیادہ عبادات میں مشغول ہو کر رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹا جائے ۔ہادئ برحق امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی آمد سے قبل کفرو شرک ،رسومات و توہمات کی بادِ سموم نے پورے معاشرے کو زہر آلود کر رکھا تھا اخلاقی قدروں کے کوہ ہمالیہ زمین بوس ہو چکے تھے تمام معاشرتی زندگی میں ایک انسان کی وقعت کسی جانور سے زیادہ نہیں خوشی و مسرت کے رسم و رواج ہو ں یا غم و پریشانی کے مواقع دونوں پر عقل وشعور سے بعید تر حرکات رونما ہوتیں خصوصاََ کسی کی وفات پر نوحہ و ماتم کرنے کیلئے عورتوں کو کرایہ پر حاصل کیا جاتا اور یہ سلسلہ مدت دراز تک جاری رہتا ۔لیکن ہادئ برحق ﷺ نے ایسی رسومات کو یکسر مٹا دیا اور قیامت تک آنے والی امت کو درس دے دیا کہ کسی بھی عظیم شخصیت کی یادگار اعمال صالح کی پیروی اور اس کے مشن کو جاری رکھنے میں ہے نہ کہ بین ،نوحہ و ماتم کرکے بے صبری کا مظاہرہ کرنے میں ۔اگر پوری اسلامی تاریخ پر نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے کڑا وقت امت پر وہ تھا جب ساقئ کوثر، رحمت اللعالمین ، محبوب خدا،مؤجب خلق کائنات،نبیِ آخرالزماں ،سراج منیر محمد مصطفی ﷺ اس دنیا سے رحلت فرما گئے ۔لیکن اس وقت بھی آپﷺ کے جاں نثارووفادار اصحابہ کرامؓ نے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق صبر و استقلال کا وہ عملی نمونہ پیش کیا جس کی نظیر پیش کرنا نہ ممکن ہے ۔خلیفہ چہارم داماد رسول ﷺ حضرت علی المرتضیٰؓ نے آپ ﷺ کی وفات پر پیشانی مبارک کو بوسہ دیتے دیتے ہوئے کہا تھا اگر آپ نے ہمیں صبرواستقلال کا حکم نہ فرمایا ہوتا اور ہمیں رونے پیٹنے سے نہ روکا ہوتا تو آج ہم آنسوؤں کے دریا بہا دیتے اور دنیا دیکھ لیتی کہ کسی نبی کے ماننے والے اس کی وفات پر کیسے روتے ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان بے ہودہ رسومات کو اسلام نے بالکلیہ مٹا دیا تو بعد میں اس خلاف اسلام رسم و رواج کی کس نے ترویج کی ؟؟تو تاریخ بتاتی ہے کہ یہ کوئی دینی فریضہ یا سنت نہیں بلکہ محض ایک بادشاہ کا شوق محفل آرائی تھا ۔سن تین سو باون ہجری میں معزالدولہ الدیلمی نے جاہلیت کی اس رسم کو دوبارہ زندہ کیا چنانچہ ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ تین صد باون ہجری کے محرم کی دسویں تاریخ کو معزالدولہ بن بویہ نے حکم دیا کہ بازاروں کو بند رکھا جائے اور عورتیں کھردرے بالوں کے کپڑے پہنیں اور بازاروں میں ننگے منہ ،بکھرے بال ،منہ پر طمانچے مارتے ہوئے حسینؓ بن علیؓ بن ابی طالب کا نوحہ کرتے ہوئے نکلیں ۔ہمیں اللہ رب العزت نے ہر غم و پریشانی میں دو حکم دئیے ہیں ایک یہ کہ صبر یعنی خود کو غم کے اظہار کی منفی حرکات سے بچانا ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جا بجا صبر و استقلال کا حکم اور فضیلت بیان کی گئی ہے اسی طرح احادیث رسول ﷺ میں بھی صبر کو یوں بیان کیا گیا کہ صبر میں خیر کثیر ہے اور صبر روشنی ہے ،صبر نصف ایمان ہے اسی طرح صبر پر دو فرشتوں کی مدد اور دو فرشتوں کی کفالت کا مژدہ بھی سنایا گیا ہے ۔دوسرا حکم نماز یعنی غم کی منفی کیفیت سے نکلنے کیلئے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کا عمل اختیار کرنے کا ہے اور ان احکام کے ساتھ ساتھ عقلی اور فطری اطمینان کیلئے دو جملوں کی تعلیم بھی دی ہے اوٌل ان للہ اور دوم و اناالیہ راجعون یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اس کی ملکیت ہیں وہ جب چاہے اور جس کو چاہے اس جہان سے دوسرے جہان میں منتقل کر دے اور مرنے والا جس کی طرف گیا ہے ہم نے بھی پلٹ کر اسی کی طرف جانا ہے ۔جس طرح کسی بھی واقعۂ غم پر صبر و نماز کا سہارا لینا اور انا للہ وانا الیہِ راجعون پڑھنا خدائی فیصلے کو تسلیم کرنے کا اظہار ہے اسی طرح محرم الحرام میں صدیوں پرانے واقعۂ غم کی وجہ سے نوحہ و ماتم کرنا ،سوگ منانا ،نکاح نہ کرنا فیصلۂ خداوندی پر احتجاج اور اللہ تعالیٰ کے نظام حکمت پر اعتراض ہے جو اہل ایمان کیلئے کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے ۔حضرت امام حسینؓ نے اپنی ہمشیرہ حضرت زینبؓ اور اہل بیت کرام کے دوسرے افراد کو بلایا اور فرمایا کہ مجھے تم لوگوں سے ایک ضرورت ہے اور میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ میں جب شہید ہو جاؤں تو خبردار میرے غم میں گریبان چاک نہ کرنا اور نہ سینہ پیٹنا اور نہ منہ پیٹنا ۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ کسی ایسی عورت کیلئے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کے سوا کسی اور کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے ہاں البتہ وہ اپنے شوہر کیلئے چار ماہ دس دن سوگ منائے۔محرم الحرام کی حرمت کو محفوظ کرنا اور اسکی عظمت کو ہر حال میں اولین ترجیح دینا ہم پر فرض اولین ہے بے شک واقع کربلا انسانیت سوز و روح افروز واقع ہے لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یزیدیت ہمیشہ کیلئے مٹ گئی اور حسینیت ہمیشہ کیلئے قائم ہو گئی ۔ نبی کریم ؐ کی زندگی ہمارے لئے اسوۂ حسنۂ اورمشعل راہ ہے جیسا کے اوپر بیان کر چکا ہوں کہ کسی عظیم شخصیت کے ساتھ محبت کااظہار اس کے اعمال کی پیروی کرنے میں ہے اسی طرح ہمیں حضرت حسینؓ کے ساتھ محبت کا اظہار ان کی دی گئی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر کرنا چاہئے اور انکی زندگی کا سب بڑا سبق میدان کربلا سے ثابت ہو تا ہے اور وہ صبرو استقامت کا ہے ۔

Short URL: http://tinyurl.com/jfcqfgk
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *