رپورٹ : شاہدمشتاق۔سبڑیال
افسانہ نثری ادب کی نمایاں ترین صنف ہے جس نے اپنی دلکشی اور دلپذیری کی وجہ سے ادب میں اپنا مقام بنا لیا ہے۔ جب کوئی افسانوی مجموعہ شائع ہوتا ہے تو ادباء کی دلچسپی ہوتی ہے کہ اسے پڑھ کر اپنے ذوق کی تسکین کی جائے ۔ ایسے میں ادبی تنظییں بھی تعارفی ، رونمائی اور پذیرائی کی تقریبات کا اہتمام کرکے افسانہ نگارکی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ یہ ایک روایت ہے جس کا مقصد قلمکار کے فن کا اعتراف ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے تیسرے بڑے شہر فیصل آباد کی دو ادبی تنظمیوں پنجابی ادبی سیو ک اور روٹری کلب کے اشتراک سے فیصل آباد کے شہریار ریسٹورینٹ میں معروف شاعر و افسانہ نگار محمدایوب صابرؔ کے پہلے افسانوی مجموعے’’آنگن کی خوشبو‘‘ کی تقریبِ پذیرائی کا اہتمام کیا تھا۔ اِس تقریب کے انعقاد کا سہرہ معروف ماہرِ تعلیم شاعرہ و افسانہ نگار صفیہ حیات کے سر جاتا ہے۔ محفل کی صدارت نامورشاعر و افسانہ نگار احمد شہباز خاور نے فرمائی ، مہمانِ خصوصی کی نشست پر روٹری کلب کے صدر و سماجی شخصت رانا واجد علی خان جلوہ افروز تھے جبکہ محمدفاروق انجم اور اے ایچ عاطف مہمانانِ اعزاز کی نشستوں پر متمکن تھے۔ نظامت کے فرائض میزبانِ خصوصی صفیہ حیات نے ادا کئے۔ تقریب کے آغاز پر محمد ایوب صابر، احمدشہباز خاور، رانا واجد علی خان اورمنور حسین کو سرخ گلاب کے پھولوں سے سجے خوشنما گلدستے پیش کئے گئے۔
صفیہ حیات نے آنگن کی خوشبو ‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کہانی افسانے کی ماں ہے ، ساری نثری اصناف اپنی ماں سے جڑی ہوتی ہیں اور افسانہ اپنی ماں کے قریب تر ہو کر ہی اپنا کردار واضح کر سکتا ہے۔ جب تک کہانی متاثر کن نہ ہو وہ قاری کو اپنی جانب کھینچ نہیں سکتی۔ کہانی میں جب احساس زندہ ہو تو وہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ صدیوں پہلے جب لوگ پیدل سفر کرتے تھے تو سرائے میں جاکر ٹھہرتے تھے ۔ سرائے میں ایک داستان گو ہو تا تھا جو لوگوں کو کہانی سنا کر محظوظ کرتاتھا اس طرح مسافروں کی تھکن اتر جاتی تھی اور وہ اگلے پڑاو کے لئے تازہ دم ہو جاتے تھے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ کہانی بیان کرنے والے کا انداز ہی دوسروں کو متاثر کرتا ہے۔ ایوب صابر کےافسانو ں میں سب سے اچھا پہلو یہ ہے کہ آپ نے صفحہ در صفحہ قاری کو روایات سے جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔ ایوب صابر چونکہ بنیادی طور پر بہت روایت پسند ہیں اس لئے انہوں نے روایتی تہذیب کو اپنے افسانوں میں سمویا ہے۔معروف نقادمنور حسین نے کہا کہ ہم سب سے پہلے معزز مہمان کو فیصل آباد میں خوش آمدید کہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ویسے تو افسانے کے مزاج کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی، آج کل جو افسانے کا مزاج ہے اُس میں چند کردار لئے جاتے ہیں اور مرکزی خیال قاری کی نظر سے اوجھل رکھا جاتا ہے اور جب افسانہ اختتام پر پہنچتا ہے تو وہ قاری کو چونکا دیتا ہے۔ اگر ہم افسانے کے آخری دو تین جملے پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ سارا افسانہ اِن دو تین جملوں کے لئے لکھا گیا ہے لیکن جب ہم اُن جملوں کو افسانے کے خیال سے جوڑ کر پڑھتے ہیں تو وہ پورے افسانے سے جڑے ہوتے ہیں۔ جہاں تک ’’آنگن کی خوشبو‘‘ کا مطالعہ کیا ہے تو یہ احساس ہوا کہ ایوب صابر نے چونکہ بہت سے افسانوں کا مطالعہ کیا ہے اِس لئے کہیں کہیں لاشعوری طور پر افسانوں میں اساتذہ کا رنگ نظر آیا ہے۔ ایوب صابر کے ہاں بُنت کاری ، منظر کشی ، اسلوب اور اندازِ بیاں بہت خوبصورت ہے۔ اِ س کے علاوہ مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ ایوب صابر کی شاعری کمال درجے تک پہنچی ہوئی ہے ۔ انہیں ادب کی مختلف
اصناف پر عبور حاصل ہے۔
معروف شاعر و ادیب صدر پنجابی ادبی سیوک اے ایچ عاطف نے ’’آنگن کی خوشبو‘‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ نئی کتاب لڑکیوں جیسی ہوتی ہے جس کے جوہر آہستہ آہستہ سامنے آتے ہیں۔ میں نے ’’آنگن کی خوشبو‘‘ سے کچھ افسانے پڑھے ہیں ۔ ایک افسانہ ’’ننھے ہاتھ‘‘ جس کا آغاز سورج کے طلوع ہونے سے ہو رہا ہے ،اِ س میں سور ج کی تپش کا ذکر ہو رہا ہے ۔ ہماری زندگی کاآغاز بھی ایک سورج کی طرح ہے ۔ جس طرح سورج سارے دن کی مسافت طے کرتے ہوئے خود کو گھسیٹتا ہو بادلوں میں چُھپ رہا ہوتا ہے ۔ وہ صحر ا کے اُس مسافر کی مانند ہے جو سارا دن سفر کے بعد خود کو کوستا ہے کہ آئندہ میں اِس راستے سے نہیں آؤں گا میں اپنا راستہ تبدیل کر لوں گا لیکن وہ مسافر یہ نہیں جانتا کہ اُس کے گاؤں کو صرف ایک ہی راستہ جاتا ہے۔اِس علامت کو ایوب صابر نے اسی طرح استعمال کیا ہے کہ ہم زندگی کی ساری شدتیں اور مصبتیں برداشت کرتے ہیں ۔ ایک افسانہ ’’خاندانی بہو‘‘ میں شام کی منظر کشی نظر آتی ہے۔ اس طرح مجھے پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ صبح کو زندگی اور شام کو زندگی کے انجام سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ جب ایک قلمکار کو صبح و شام کا احساس ہو جائے تو اُسے سارا دن بسرہونے والی زندگی کا ادراک ہو جاتا ہے۔ قلمکار معاشرے کی آنکھ ہو تا ہے اُس سے کوئی چیز اوجھل نہیں ہوتی وہ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر لکھتا ہے۔ میں نے ایوب صابر کا افسانہ ’’خاکدان ‘‘ پڑھا تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ اِس افسانے میں کرداروں کے نام شیدا ور جید ا رکھے گئے جو کچرا چُننے والوں کی کہانی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اِس افسانے میں جب جیدا پانچ روپے لا کر اپنی ماں کو دیتا ہے تو وہ پانچ روپے اپنے ازاربند سے بندھی گتھلی میں رکھتی ہے ۔ اِس میں قلمکار کا مشاہدہ کھل کر سامنے آتا ہے ۔ اِسی طرح افسانہ ’’اسٹرابری فارم‘‘ پڑھنے کے بعد دیکھا کہ ایوب صابر نے جس طرح افغانستان کے حالات کا ذکر کیا ہے اِس سے اندازہ ہوا کہ قلمکار کی بین الاقوامی منظرنامے پر گہری نظر ہے۔
چیئرمین مجلس عاملہ پنچابی ادبی سیوک فیصل آباد جمال شاہد نے ’’آنگن کی خوشبو‘‘ پر منظوم خراجِ تحسین پیش کیا،ملاحظہ فرمائیں۔
میرے چاروں اور کُھلی ہے آنگن کی خوشبو
روزن، روزن اتر رہی ہے آنگن کی خوشبو
دیس پرائے بھول چکے تھے جاں سے پیارے لوگ
آج اچانک جاگ اُٹھی ہے آنگن کی خوشبو
نوجوان شاعر عمران ساون اورڈاکٹرعامر شہزاد نے’’ آنگن کی خوشبو‘‘ کو دیدہ زیب اور بہترین کتا ب قرار دیا۔ معروف ادیب
محمدفاروق انجم نے کتاب کی اشاعت پر محمدایوب صابر کو مبارکباد پیش کی اور مزید لکھنے کی دعا دی۔ رانا واجد علی خان نے ’’آنگن کی خوشبو‘‘ کو ایک دلچسپ کتا ب قرار دیا۔ اِس موقع پر صفیہ حیات نے ایو ب صابر کو اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ ایوب صابر نے صفیہ حیات ، روٹری کلب اور پنجابی ادبی سیوک کے ممبران کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے’’ آنگن کی خوشبو ‘‘ کے بارے میں کہا کہ یہ میری ریاضت کا پھل ہے کہ آج یہ افسانوی مجموعہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ میں نے نصف سے زیادہ افسانے سچی کہانیوں سے کشید کئے ہیں تاکہ اِن کہانیوں کی سچائی کو محفوظ کر سکوں ۔ میرے افسانوں کا زیادہ تر تعلق گاؤں کی معاشرت سے ہے اِ س کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میرا اپنا تعلق بھی گاؤں سے ہے۔ میں نے اپنے اردگرد سے کہانیاں منتخب کر کے انہیں افسانے کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ بنیادی طور پر میں ایک شاعر ہوں۔ اب شرکاء محفل کی جانب سے شعر سنانے کی فرمائش شروع ہو گئی ۔ ایوب صابر نے معزز حاضرین کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے دو غزلیں پیش کیں۔
صدرِ مجلس نامور شاعر و افسانہ نگار احمد شہباز خاور نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ جب ممتاز کالم نگار، افسانہ نویس اور شاعرہ محترمہ صفیہ حیات کی جانب سے جب یہ اطلاع دی گئی کہ جناب محمدایوب صابرکے افسانوی مجموعے’’آنگن کی خوشبو‘‘ کی تقریبِ پذیرائی کا انعقاد کیا جارہا ہے تو میری زیادہ خوشی کی وجہ یہ بھی تھی کہ شعراء اور شعری کتب کی تعارفی تقاریب کے سمندر میں کسی نثری کتاب کی پذیرائی کی صورت میں ایک جزیرہ بھی دکھائی دیا ہے۔ افسانے کے ایک عام قاری اور لکھاری ہونے کے ناطے میری وابستگی اور پسندیدگی دوسری اصنافِ ادب کے حوالے سے اس صنف سے ترجیحاً زیادہ ہی ہے۔ ’’آنگن کی خوشبو ‘‘ کے مطالعے سے افسانہ نگار کی فنی اور تخلیقی مہارت سے جابجا سامنا ہوا ہے۔ اِن کا اسلوب سادہ مگر پُروقار ہے ۔ کسی بھی واقعے کو اپنی فکری توانائی سے خاص بنانے کی صلاحیت ایک اور اضافی خوبی ہے۔ زندگی کی دھوپ چھاؤں سے عبارت موضوعات کو کمال ہنرکاری سے اظہار کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ آنگن کی خوشبو میں ہمیں یہ احساس بڑی شدت سے یقین دلاتا ہے کہ لفظ کی حرمت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ خوشبوؤں کے اِس آنگن کے لئے استحکام ،سلامتی اور درازی عمر کے لئے دعاگو ہوں۔ اِس کے بعددعوتِ طعام سے لطف اندوز ہونے کا مرحلہ آیا۔اس طرح یہ شاندار محفل اختتام پذیر ہوئی۔