آئی مس یو یار( قسط نمبر 2) مصنف: عمران طاہر رندھاوا

Print Friendly, PDF & Email

شعبہ ابلاغیات میں ویسے تو بہت سے پروفیسر تھے سبھی ملنسار اور فرینڈلی اور ہمہ وقت اسٹوڈنٹس کی مدد کے لیے تیا ر رہتے تھے ۔ مگر خرم خورشید صا حب کی بات ہی نرالی تھی وہ سب سے منفرد، وہ اپنی نظیر آپ تھے ۔ انکا پڑھانے کا انداز فرینڈلی تھا وہ دوران لیکچر طلبا و طلبات کو انکے نام سے پکار کے مخاطب کرتے اور سب چوکس ،چست رہ کر لیکچر سنتے نہ کے پروفیسر صاحب لیکچر دے رہے ہوں اور مستقبل کے معمار سمارٹ فون سے فیس بک اسٹیٹس ا پ لوڈ کر رہے ہوں ۔ انکی اردو کمال کی تھی بڑے سے بڑا مقرر انکے سامنے گنگ ہو جاتا تھا وہ کمال تھے اللہ انکو علم کی دولت سے مالا مال فرمائے ۔ ایک دن میں نے ایک دوست سے بات شیئر کر دی کی مجھے فلاں لڑکی جو ہے نہ اچھی لگتی ہے اور میں اُس سے بات کر نا چاہتا ہوں اور اسکا
contact
حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ اپنی فی میل کلاس فیلو جو میرے ساتھ کا فی فرینڈلی تھی اسکو بہت مشکل سے منایا منت سماجت کی اور آخر وہ مان گئی کے وہ میرے اس کارہائے نمایاں میں ساتھ دے گئی ۔ خیر پہلے تو میر ی کلاس فیلو سجل زیدی نے اسکے ساتھ ہیلو ہائے کرنا شروع کی اور یوں اُس نے ایک دن مجھے اس سے ملاویا۔ مجھے سجل کا ٹیکسٹ آیا کہا ں ہوں ؟ میں ہوسٹل تھا اس نے کہا آ جاؤ میں فٹافٹ سپرے لگایا شیشہ دیکھا اور نکل گیا ۔۔۔ بڑی ہمت کر کے میں وہاں پہنچا لیکن وہاں سجل اکیلی تھی میں نے پوچھا وہ کہاں ہے ؟؟؟؟ سجل اچھا تو صبر بھی نہیں ہو رہا !چلو اٹھو وہاں ہی چلتے ہیں ہم شعبہ ماس کمیونیکینشن سے چل پڑے لایبریری کے پاس (ع) اپنی کلاس فیلوز کے ساتھ ہماری اوڑھ ہی آ رہی تھی وہ ابھی کچھ میٹر کے فاصلے پر ہی تھی کے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا اور ہوائیں خوشبوؤں سے معطر ہوگئی یہ دسمبر کے آخری ایام چل رہے تھے ۔ وہ فزکس ڈیپارئمنٹ میں داخل ہو گئی ۔۔ سجل نے اسکو آواز دی اور سب سے الگ کر لیا تاہم میں بھی اسکے ساتھ ہی تھا وہ رکی اور بات ہو نا شروع ہو گئی میں نے بڑی ہمت سے بات شروع کی اور حال چال پوچھا
study
کیسی جا رہی تھی ۔۔۔۔ مگر اسطرح سے روکنا اور سب سے الگ کر کے بات کر نا غیر اخلاقی تھا خیر میں نے اس سے انکا نمبر مانگا تو صاف انکار ہو گیا میں نے کنوینس کرنے کی کوشش کی کہ میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا
nothing Else
لیکن انکار ہو گیا۔۔۔۔ فیس بک کی آئی ڈی پوچھی ، وہ تھی ہی نہیں میں نے پوچھا کیوں آپ استعمال نہیں کرتی باربی ڈول پہلے تو بولتی ہی نہیں تھی صرف سر ہلاتی تھی اب کی بار بولی چپ کا روزہ توڑا اور کہامجھ سے آپکو کچھ نہیں ملنے والا
so dont try to next time
۔۔۔ میں نے کہا میں بنا دوں ؟ حسب معمول سسر ہلایا م مطلب نہیں چاہیے وہ بات کرتے کرتے کانپ رہی تھی اُس پر کپکپی طاری تھی اور بس یہی ایک لفظ دوہرائی جا رہی تھی مجھے جانے دو لوگ دیکھ رہے ہیں مجھے جانے دو۔۔۔ جہاں ہم کھڑے بات کر رہے تھے عین اس کے پیچھے کلاس روم تھا اندر لیکچر چل رہا تھا اندر سے ایک لڑکا باہر آیا
Excuse me
راستہ چھوڑ دیں (ع) بچاری کا تو رنگ ہی پھیکا پڑ گیا فل ڈر گئی اور بھاگ گئی اس ساری گفتگو میں سجل میرے ہمراہ کھڑی تھی مجھ میں اتنا حوصلہ کہاں کہ اکیلا بات کرتا ۔۔۔۔6,7منٹ کی اس مختصر سی ملاقات میں بات آگے نہ بڑھ سکی اور بڑھنی بھی کہا ہے؟ آج کل کی لڑکیوں کو پوڑا پورا ٹائم دینا پڑتا ایسا تھوڑا ہوتا کہ بات کر کے نمبر لے کہ آ جاؤ ۔۔ اس ملاقات میں کچھ بھی پیشرفت نہ ہو سکی تو میں بوجھل دل کے ساتھ ہوسٹل کی طرف چل پڑا۔۔ اور سجل کے بابا انکو پک کرنے آ گئے اور وہ بھی چلی گئی ۔۔ہوسٹل پہنچ کر میں جا کر سو گیا ریسٹ مارا رات 11:30گیارہ بجے دوست نے اُٹھایا چلو آج پڑاٹھے کھانے چلتے ہیں آج ہوسٹل میس
(Mess)
نہیں آیا تھا۔ میں اور ایک جونیئر یونیورسٹی سے نکل گئے اور پیدل واک کرتے ہوئے ہوٹل پر پہنچے پراٹھے کھائے ۔ جونیئر نے مجھ سے کہا ایک بات تو بتا میں نے کہا پوچھ ؟ یہ مدثر تھا کہنے لگا سچ سچ بتا ؟آج یونیورسٹی میں تو کسی سے ملا تھا؟ میں نے کہا ڈاکٹرحسین بھائی آئے تھے ان سے (ڈاکٹرطاہر القادری کے چھوٹے صاحبزادے) او ہو یا ر میں کسی لڑکی کا پوچھ رہا ہو ں ! ہاں یار ۔۔ وہ ۔۔وہ تمہاری کلاس فیلو سے! لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ میں نے مدثر سے کہا۔۔ او بھائی سب یونیورسٹی والے باتین کر ررہے ہیں کہ تمہارا اسکے ساتھ افیئر ہے فلاں فلاں۔۔۔ کیا ؟؟؟ نہیں یارمیں تو صرف اُس سے نمبر مانگا تھا اور ایسی ویسی کوئی بات نہیں ہوئی ۔۔ مدثر بولا ملا نمبر تجھے ، میں نے کہا نہیں یار ۔۔ بھائی نمبر مانگ رہے ہو ایک انجان لڑکی سے اور کہتے ہو ایسی ویسی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔؟ میں چپ رہا ۔۔ یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی اور لوگو ں نے طرح طرح کی باتیں بنانا شروع کر دی تھیں ۔۔۔ میں اس وجہ سے کافی پریشان تھا کہ یہ کیا ہو گیا کیونکہ لڑکی کی عزت ہی سب کچھ ہوتا وہ بچاری میر ی اس غیر اخلاقی اوچھی حرکت سے بدنامی سے دوچار ہو گئی ۔۔۔ لیکن میری یہ قطعاََ کوشش نہیں تھی میں سوچا تھا ڈائریکٹ بات کر لیتا ہوں بجائے جگہ جگہ غنڈے موالیوں ،حرامیوں کی طرح پیچھا کرنے سے ۔۔۔ تاہم جس بات کا ڈر تھا وہ ہو ہی گیا ۔۔۔من گھڑت کہانیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ جبکہ میرے پاس اُسکا کوئی رابطہ نمبر نہیں تھا نہ کوئی افیئر تھا۔۔ جتنے منہ اتنی باتوں والی بات تھی ۔۔ایک ہفتہ اس فری کی پبلسٹی کو ہی انجوائے کرتے رہے اس کہ بعد یونیورسٹی جاتا اور واپس آ جاتے ۔۔۔ ایک دن ہمیں اکنامکس کے حوالے ایک اسائنمنٹ مل گئی یہ اسائمنٹ مجھے اور سجل کو مشترکہ ملی تھی ہم اسکی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک یاد آیا کہ جونیئرز کو اکنامکس پڑھائی جاتی ہے ۔ ہم نے ان سے رابطہ کیا اور انکی رہنمائی لینے پرغور حوض کیا۔ ہم اُٹھے اور جونیرز کو تلاش کرنا شروع کر دیا ۔ ایکچلی ہم ڈھونڈ تو ایک خاص سٹوڈنٹ کو رہے تھے جو اس کند زہن میں گھر کر گیا تھا۔۔ڈریمی گرل۔۔۔ ہم ڈھونڈتے ڈھونڈتے ٹریک سے ہوتے ہوئے بائیک اسٹینڈ کے پاس پہنچے تو دور سے وہ سامنے لان میں پھولوں میں ایک پھول سا چہرہ نظر آ گیا ۔۔۔ اور میری تو جیسے ہی عید ہی ہو گئی ۔ مگر وہ دیکھ کہ تھورا سا گھبرا گئی کہ کہیں پھر دوبارہ نہ نمبر مانگنے لگ جائے ۔۔ ممکن ہے دل میں نا زیبا الفاط بھی کہے ہوں ۔۔ خیر وہ سمجھ دار تھی اہم نے جا کہ صا ف صاف بتایاہم اسائمنٹ کہ کام سے آ پکی خدمات حا صل کر نا چاہتے ہیں۔۔۔ انہوں نے ہاں کہہ دیا اور ہمیں اپنی ایک تیار ا کنامکس کی اسائمنٹ عنایت کر دی ۔۔۔ اُس سے اتنا مواد میسر تو نہ آسکا مگر وہ 3دن میرے پاس پڑھی رہی اور میں اُس میں سے میں کافی غلطیاں نکالی کیونکہ میں گریجویشن تک اکنامکس پڑھی تھی ۔۔۔ اور پھر کہنے پر واپس کی اور واپسی پر وہی تھکے ہارے مجنوؤں والی حرکت کی 7سے 8صفحات پر مشتمل اسائنمنٹ میں پھول کی چند پتیاں رکھ کے اسکے ہاتھ میں میں نے خود پکڑائی ۔۔اُس سے ایک عجیب سی خوشبو آتی تھی نہ جانے کس چیز کی تھی اسکے چلے جانے کے بعد کبھی میسر نہیں آ سکی ہاں لیکن مجھے محسوس ضرور ہوتی ہے وہ ۔۔۔۔۔! اس نے اسائنمنٹ وصول کی میں نے شکریہ ادا کیا اور وہ چلتی بنی ۔۔ اور چلی گئی اور میں تکتے ہی رہ گیا ۔۔۔
کافی دن گزر گئے وہ نظر نہ آئی نہ جانے کہاں چلی گئی تھی وہ ۔۔۔ اب مڈٹرم سٹارٹ ہونے والے تھے اور شاید پڑھائی میں لگ گئی تھی وہ ۔۔ ہوتا یوں تھا کہ جب میں فری ہوتا تو اسکی کلاس ہوتی اور جب وہ فری ہوتی تو میں کلاس لیکچر اٹینڈکر رہا ہوتا ۔۔ میں اس سے دوبارہ ملنا چاہتا تھا کہ ایک بار پھر کوشش کر کے دیکھتا ہو ں شاید رحم آ ہی جائے میری صورت پر اسکو ۔۔ لیکن انہونی نہ ہوسکی ۔۔ڈیٹ شیٹ آگئی ۔۔۔پیپر شروع ہوگئے پڑھائی زور شور سے کرنے لگ گئے راتین جاگنے لگ گئے تاکہ کورس کور کر یں اور صبح اٹھ کہ ایک نظر ماکر ایگزیمی نیشن ہال چلے جائیں گے۔۔۔ ا گلی صبح میں تیار ہو کر یونیورسٹی چلا گیا تمام سٹوڈنٹس رٹا لگا رہے تھے ۔۔ اور انکو یکھ کر میں بھی شروع ہو گیا۔۔ میں اپنی رول نمبر سلپ لینے ہیڈ آف ڈیپارئمنٹ کے پاس پہنچا انکے پاس کافی طلبا و طالبات کی سلیپیں تھیں میں اپنی لی اور کہنے لگی یہ کچھ سٹوڈنٹ اپنی سلپ لینے نہیں آئے تم انکو پہنچا دو ان سلیپوں میں ایک موصوٖفہ کی بھی تھی ۔۔ پیپر ٹائم سے چند منٹ پہلے میں اپنا سیٹنگ پلان دیکھ رہا تھا کہ کافی بھیڑ تھی میرا رول نمبر 2 تھا ۔۔۔پیچھے سے آواز آئی بی ایس رول نمبر 2دیکھنا یار ۔۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو سر پر ڈوپٹہ، چہرے پر مسکان ، چمکتی آنکھوں میں اچھلتی کودتی شرارتیں ۔۔۔۔ وہ (ع) تھی ۔۔ وہ مجھے دیکھا کر شرما کر وہاں سے چلی گئی مجھے اسکی سیٹ کا پتہ چل گیا تھا لہذا میں
HoD
کے حکم کے مطابق سلپ دینے اسکے روم میں پہنچا کیونکہ اسکے بغیر پیپر میں بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی ۔۔۔ میں روم میں داخل ہوا۔۔ دائیں بائیں دیکھا نظرنہیں آئی کیونکہ ہال کافی بڑا تھا ۔۔۔
then i said ..
بی ایس رول نمبر 2 کی سلپ میرے پاس ہے ؟؟؟؟ پھر ہال کے آخری چند سیٹوں پر سے ایک ہاتھ کھڑا ہوا اور میں وہاں جا کر سلپ دی ۔۔۔۔تاہم ابھی تک میں نمبر لینے میں کامیاب نہیں ہوا تھا لیکن دیکھنے والوں کا شک یقین میں بدل گیا کے یہاں دال میں کچھ کالا نہیں دال ہی کالی ہے ۔۔۔۔کیونکہ اس نے مسکرا کرمیرا شکریہ ادا کیا تھا اوراردگرد سیٹوں پر براجمان سٹوڈنٹس ٹکٹکی باندھ کر ہمیں دیکھ رہے تھے اور کانا پھوسیاں شروع ہوگئیں تھی یوں نگران کی آواز آئی پلیز روم سے باہر جائیں پییر ٹائم سٹارت نو۔

۔۔(جاری ہے) ۔

Short URL: http://tinyurl.com/hanwg2h
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *