تعلیم کیوں ضروری ہے(قسط نمبر 1)۔۔۔۔مصنف: جمشید علی

Print Friendly, PDF & Email

اس کا نام عارف تھا ایسا اس نے مجھے بتایا۔ وہ سڑک بنانے کا کام کرتا تھا اور وہ اپنے اس کام میں بہت خوش تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ جو چیز لوگوں کو منزل مقصود تک پہنچاتی وہ یہ خود بناتا ہے۔ ہاں سڑک جو فاصلوں کو سمیٹتی ہے وہ سڑک ہے، بچھڑے ہوں کو ملاتی ہے وہ سڑک ہے، دیوانوں کو دنیا دیکھاتی ہے وہ سڑک ہے، بھولے ہوؤں کو رستے پہ لے آتی ہے وہ سڑک ہے، غم زدہ لوگوں کے ساتھ چلتی ہے سب ساتھ چھوڑ جائے لیکن یہ ساتھ نہیں چھوڑتی ہمیشہ آپ کے ساتھ چلتی ہے بس وہی یہ سڑک ہے۔ اس لیے وہ سڑک کو اپنے من اور لگن سے بناتا اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی کو قبول نہیں کرتا تھا۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کی کوتاہی سے لوگوں کا سفر خراب ہو سکتا ہے اس لے وہ ہر وقت کام کی فکر میں رہتا اور بار بار اس کو معائنہ کرتا رہتاتاکہ اس کی وجہ سے کسی مسافر کو تکلیف نہ ہو۔
وہ عموما گاؤں کی ہی سڑکیں بناتا تھاکیونکہ وہ ایک گاؤں سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ بہت سادہ زندگی بسر کرنے والہ انسان تھا ۔شاید حالات نے ہی اسے سادہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا ہو ، شاید:کیونکہ اس کی آمدنی بہت کم تھی اور خرچہ زیادہ تھا اور وہ گھر کا واحد کفیل تھا جو پورے گھر کی تمام ضررویات کو پورا کرتا ۔اسی لیے صبح گھر سے کام پرجانا اور شام کو گھر پہ لوٹ آنا بس یہی اس کی زندگی تھی۔
اس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام حسن تھا وہ بارہ سال کا تھا اور پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا۔عارف کی اب سب امیدوں کا وہ واحد کفیل تھا۔ عارف کی آمدنی کم ہونے کی وجہ سے اور خرچہ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ چاہتا تھاکہ اس کا بیٹا تعلیم چھوڑ کر اس کے ساتھ کام پر ہاتھ بٹائیں۔کیونکہ وہ تعلیم کو اتنی اہمیت نہیں دیتا تھا شاید اس میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا حالات نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کیا تھا کیونکہ وہ اپنے گاؤں کے تعلیم یافتہ لوگوں کو کام کی تلاش میں مارے مارے پھڑتے دیکھا لیکن کام نہ ملااور اگر کسی کو ملا تو وہ صرف اور صرف رشوت کے بلبوتے پر ہی ملااور باقی کی قسمت میں گاؤں کی کھیتی باڑی ہی لکھی ہوتی۔ اس لیے اس کی نظر میں تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
چنانچہ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے بیٹے کو اپنے تعلیم حاصل کرنے کی بجائے اپنے ساتھ کام پر لے جایا کرے گاتاکہ وہ گھر کی کفالت میں اس کی مدد کر سکے۔ خیر عارف نے اپنے بیٹے سے کہا بیٹا حسن کل سے تم سکول نہیں جاؤں گے بلکہ میرے ساتھ کام پر جاؤں گے ۔ حسن نے باپ کی ہاں میں ہاں ملا کر کہا جی ابا جی۔۔۔۔۔
لہذا اگلی صج کا سورج طلوع ہوا اور باپ بیٹے نے کھانا کھایا اور کام کو چل دیے جہاں عارف سڑکیں بنانے کاکام کرتاتھا۔وہاں پہنچے تو باپ بیٹے کو سمجھانے لگا کہ کام کیسے کرتے ہے اور تم نے کیسے کام کرنا ہے اور میں تمہیں سڑک بنانے کے تمام ہنر سے واقف کروں گا۔لہذا بیٹا باپ کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے کرتے کام کرنے میں مصروف ہو گیا۔اتنے میں عارف کا مینجر آگیا اور عارف سے اس کی خیریت وآفایت پوچھنے لگااتنے میں اس کی نظر اس لڑکے پر پڑی جو کڑی دھوپ میں کھڑا کام کر رہا تھا وہ جو عارف کا بیٹا تھا۔ اس نے عارف سے پوچھا کہ عارف وہ لڑکا کون ہے ، کیا کوئی نیا لڑکا کام پر رکھا ہے۔ عارف! نہیں سر وہ میرا بیٹا ہے جو آج ہی کام پر آیا ہے۔ تمہارا بیٹاہے اور کام پر آیا ہے ، اس کے منیجر نے حیرات سے پوچھا۔
ہاں میرا بیٹاہے اور میں چاہتا ہوں کہ یہ میرے ساتھ کام کرے اور گھر کے حالات میں میرا ہاتھ بٹھائے۔
مینجر! نہیں عارف ابھی اس کے پڑھنے کی عمر ہے نہ کہ کام کرنے کی اور تم اس کو کام پر لے آئے ہو میری بات مانو اس کو اپنی محنت سے تعلیم دلوں تا کہ وہ کل کو کسی اچھی پوسٹ پہ کام کر سکے۔
عارف ! سر اگر تعلیم دلوا کر بھی یہی کام کرنا ہے تو پہلے ہی کیوں نہیں کیوں کہ کسی پڑھے لکھے کو نوکری نہیں ملتی کسی پڑھے لکھے کو نہیں۔
مینجر! عارف کیا تعلیم صرف نوکری حاصل کرنے کے لیے ہی حاصل کی جاتی ہے نہیں دوست ایک اچھا انسان بننے کیلئے تعلیم ضروری ہے، انسان کو خود کو جاننے کیلئے تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے، کب ٗکیا اور کسی سے کیسے بولنا ہے اس کیلئے تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے، قدرت کی لا تعدار نعمتوں کو جاننے کیلئے تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے اور انسان کب،کیوں اور کسی مقصد کیلئے دنیا پر آیا ہے اس کیلئے بھی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے مگر افسوس کے انسان نے تعلیم کو صرف نوکری حاصل کرنے اور پیسہ کمانے کی غرض سے ہی حاصل دیکھا ہے ۔لہذا ایک ایسا وقت ضرور آئے گا جو تمہیں احساس دلائے گا کہ تعلیم کیوں ضروری ہے اور کتنی ضرروی ہے ۔ خیر میں ایک کام کے سلسلے میں آیا تھا اوروہ ہی کہنا بھول گیا کہ ہمیں کل سے ایک بڑے شہر کی بڑی سڑک بنانی ہے اور تم کل اپنے تما م لوگوں کے ساتھ شہر آجانا۔ عارف یہ سن کر بہت خوش ہوا کیونکہ اس سے پہلے وہ کبھی بھی شہر نہیں گیا تھا اور نہ ہی اس نے کبھی شہر کی سڑکیں بنائی تھی تو اس نے فورامینجر کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہاں کہ تھیک ہے ہم پہنچ جائے گے۔

Short URL: http://tinyurl.com/zelg8w8
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *