یہ عشق نہیں آساں

Print Friendly, PDF & Email

تحریر:کنیز بتول کھوکھر، سرگودھا

میدان وفا در بار نہیں ،یا ں نام و نسب کی پوچھ کہاں 
عاشق تو کسی کانام نہیں ،کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
گر بازی، عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا 
گر جیت گئے تو کیا کہنا ،ہارے بھی تو بازی مات نہیں
جب کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنا مقصود ہو تو سب سے پہلے اسکی ہیئت کو دیکھا جا تا ہے لیکن جزبات کی کوئی ہیئت نہیں ہوتی نہ ان کو دیکھا جا سکتا ہے نہ ناپا جا سکتا ہے صرف محسوس کیا جا ہے البتہ نام سے مدد لی جا سکتی ہے کیونکہ ان کے نام ہی اصل پہچان ہوتی ہے جیسا کہ عشق اصو لا َ تو اس کے مادر ورڈ کودیکھنا چاہئے جو عربی زبان کے لفظ عشقہ سے تشبیہ دی گئی ہے جب کسی چیز کو کسی سے تشبیہ دی جاتی ہے تو ان میں کچھ مماثلت کا ہونا ضروری ہوتا ہے اردو زبان صدیوں سے بولی جا رہی ہے جو مشترکہ زبانو کا مجموعہ ہے لیکن ہم ان زبانوں کو جانتے نہیں اس لیے ان کے معنی سے واقفیت نہیں صرف شکلیں یاد ہیں ا س طرح کی کسی چیز کے معنی دیکھنا ہوں تو ہم اکثر شعرا ء کے کلام سے مدد لیتے ہیں جو کہ اس کی تعریف نہیں ہوتی بلکہ علامات ہوتی ہیں جیسا کہ اوپر والے اشعار میں فیض احمد فیض نے عشق کی بتائی ہیں، عشقہ عربی میں آکاس بیل کو کہا جاتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عشق اور آکاس بیل میں کیا مشترک ہے فیض صا حب کہتے ہیں کہ عشق نام و نسب اور ذات نہیں دیکھتا بالکل اسی طرح آکاس بیل کو جس درخت پر ڈال دیا جاتا ہے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کس چیز کا ہے خاردار کانٹوں والا ہے نرم نازک پتیوں والا مزیدار پھل وال یا اس نعمت سے محروم اس کے لئے سب برابروہ پوری ایمانداری کے ساتھ اس کے ساتھ منسلک ہو کر اپنی زندگی کا آغاز کرتی ہے اس کی خصو صیت یہ بھی ہے کہ اس شجر کا حصہ بن کر اپنی تمام تر زمہ داریاں اس پر ڈال کر بے فقر ہو جاتی ہے اس کا زمین سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا اس لیے خوراک درخت سے حاصل کرکے وفا داری اس طرح نبھاتی ہے کہ اپنا جینا مرنا اس کے نام کر دیتی ہے یہاں کلیہ ون پلس ون از ایکوئل ٹو ون آتا ہے جو کہ میتھ کے کسی اصول پر نہیں آتا اسی لیے کہا جاتا ہے کہ عشق کے اپنے اصول ہوتے ہیں دوسرے شعرکے مطابق اگر عشق کا کروبار ہو اور سب کچھ لگانا پڑے تو لگا دو جیت ہو یا ہار دونوں صورتوں میں ہی فائدہ ہے یہ منطق کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے جس طرح آکاس بیل درخت سے اپنی خوراک حاصل کرتی ہے پھر ایک پروڈیوسر اور دو کنزیومرز بن جاتے ہیں غذائی قیلت کی بنا پر دونوں ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیںیہی تعلق عاشق اور عشق کے مابین ہے فرق ہے تو صرف یہ کہ عشق خواہش نفس پر قبضہ کرتا ہے وہیں پلتا ہے اور مکمل غلبہ پاکر اسے حلاق کر ڈالتاہے خواہش نفس کی موت انسان کی جیت ہوتی کیو نکہ بندہ ایک پاؤ ں نفس پر رکھے تو دوسرا جنت میں ہو گا۔ وہ اب انسان سے بندہ بن چکا ہے اور بندہ بندگی سے ہے اس لیے ہا ر بھی جیت کے برابرہوتی ہے اگر چہ عشق کی تعریف کے ہر دور میں پل باندھے گئے ہر صاحب علم و عقل ، دانشور مفکر ،ادیب اور شاعر نے اپنے تجر بات و ادراک کے مطابق طبع ازمائی کی لیکن زیادہ تر نے اس کی علامات بتائیں۔ جیسا کہ جگر مراد آبادی نے کہا ہے۔
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے 
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
انسان جسم اور روح کے ملاپ سے زندہ ہے جسم ظاہری اور روح باطنی چیز ہے اور ان دونو ں کے زندہ رہنے کے لیے غذائی ضرورت فطری عمل ہے روح کی بنیادی ضرورتیں علم اور محبت ہیں جیسے ہی انسان کابچہ کچھ پکڑنے قابل ہوتا ہے جو چیز اس کے ہاتھ آئے منہ میں ڈال کر دیکھتا ہے کہ یہ کیا ہے یہاں سے سیکھنے کا عمل شروع ہوکر آخری سانس تک جاری رہتا ہے جو آسان سے مشکل کی طرف چلتا ہے دل کی فطرت ہے محبت کرنا وہ تو کرے گادوسروں کی مرضی کے مطابق خود ہو ڈھال لینے کا نام محبت ہے ناکہ کسی کو اپنی پسند کے مطابق چلانے کا۔ محبت کی مثال بھی ایسے ہی ہے۔فر مان باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:تحقیق جو لوگ کہ ایمان لائے اور کام کئے اچھے البتہ کرے گا واسطے ان کے رحمن محبت۔(سورۃ مریم ،آیت ۔۹۶۔) اب محبت کے لیے شرط کیاہے پہلی ایمان کی دوسری عمل صالح کی گو یا کہ محبت توحید کا بیج ہے جب کسی سے محبت ہوتی ہے تو دنیا میں اس جیسا کوئی نہیں دکھتاوہ واحد ہے یہ تو توحید ہوئی، پھر محب کی کوشش ہوتی ہے کہ محبوب سے باتیں کرے اس کی تعریف کرے تو وہ نماز کے لیے کھڑا ہو جا تا شدت میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ کچھ ایسا کرنا چاہتا ہے جو محبوب کو بہت پسند ہو جسے وہ خوش ہو جائے پھر وہ روزے کا احتمام کرتاہے اب محبوب کی خوش نو دی کے لیے جو چیز اس کو پسند ہوتی ہے اپنی حیثیت کے مطابق اس تک پہنچانا چاہتاہے تو وہ زکوۃ اداکرتا ہے صدقہ دیتا ہے خیرات کرتاہے۔ اب اس کے دل میں تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ میں دیکھوں محبوب کیسا ہے اگر چہ اس کو یقین بھی ہو کہ مل نہیں پائے گا پھر بھی اس کے شہر اسکی گلی میں چکر لگانا چاہتا ہے تو وہ حج کا سفر شروع کرتا ۔میری نا قص رائے کے مطابق تو محبت سے عشق تک، توحید سے حج کا سفر ہے جو کہ آساں نہیں کیونکہ حج کرنا نہیں ہوتا اسے بر قرار بھی رکھنا ہوتا ہے جو وعدے اللہ سے کیے ان پر عمل بھی کرنا پڑتا ہے۔ واللہ وعلم۔

Short URL: http://tinyurl.com/y7w9uzde
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *