ہمت کی تصویر

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: کو مل سعید 
ہم اکثر بازار جا تے تو کپڑوں کی خریداری کے سا تھ ہی ان کی میچنگ لیسیں گو ٹے پٹی بھی سا تھ ہی لے جا ئے کر تے تھے ۔اور اس کے لئے ہماری مخصوص دو کان جو کو ئی بڑی دوکان نہیں بلکہ گلی میں ایک پھٹا نما دوکان ہے، جس کے ما لک “چچا چچا جلدی “تھے ہم ان کا اصل نا م نہیں جا نتے تھے مگر ان کی جلد ی جلد ی کی جا نے والی با توں کی وجہ سے ہم نے ان کو “چچا چچا جلدی” کا نام دے رکھا تھا ۔وہ ایک منٹ کے اندر کئی با تیں کر جا تے تھے اور ان کی ز با ن کی مٹھا س اور شیر ینی دوسروں دو کا نداروں کی طرح ہی تھی مگر ایک با ت جو قا بل تو جہ تھی وہ ان کی عزت و احترام تھا ہر آ نے والی خا تون کو بیٹی، بہن جی کہہ کر وہ عزت سے نظر یں جھکا لیا کر تے اور اپنے مخصوص انداز میں سب کو ڈیل کر تے تھے ۔ہم بھی ان کے مستقل گا ہک ہو نے کی بنا ء پہ ہر لیس پہ اپنی مر ضی کے ریٹ لگواتے تو وہ ہلکے سے مسکرا کر کہا کر تے تھے” بیٹا انچ نہ کی تی کرو”اور ہم خا مو شی سے شا پر اٹھا ئے روانہ ہو جا تیں ۔سردیوں کا سیز ن تھا تو کپڑے بھی ضرورت کے مطا بق مو جود تھے لہذا اس طرف جا نے کا اتفاق ہی نہ ہوا ۔ایک دو بار جب اس دوکان سے گزر ہوا تو” چچا چچا جلدی” مو جود نہ تھے ہم نے بھی تو جہ نہ دی کہ شا ہد کئی مصروف ہوں گے اسی طرح چار ماہ کا عرصہ گزر گیا ۔مارچ کے آ غاز سے ہی گر میوں کے سیز ن کیلئے کپڑوں کی خریداری کی اور سا تھ ہی لیس کے لئے اس دو کان پہ گئے تو ایک لڑ کا جس کی عمر بمشکل 16 سا ل ہو گی نہا یت چا بک دستی سے خواتین کو ڈیل کر رہا تھا اسی اثنا ء میں ہم نے پسند کیں اور رش ختم ہو نے پہ ہماری باری آ ئی تو ہم نے پو چھا کہ چچا چچا کہاں ہیں کا فی عرصے سے نظر نہیں آ ئے ۔ لڑ کے نے جواب دیا کہ وہ میرے والد تھے ان کو ایک دن اچا نک فا لج کا اٹیک ہوا اور وہ فوت ہو گئے اس کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں اپنے کا نوں پہ یقین نہ آ یا اور دل ایک دم بو جھل ہو گیا کہ” چچا چچا جلدی “نے واقعی بہت “جلدی “کی تھی ۔ہم سب نے ایک دو لیس لے کر واپسی کی راہ لی، ہما را دل نہا یت بو جھل رہا ۔یہی سو چتے رہے کہ معلو م نہیں کتنے بچے ہوں گے اور وہ لڑ کا سکول جا تا ہو گا یا نہیں دو دن بعد ہم دو بارہ گئے تو وہ لڑ کا مو جود نہ تھا اس کی جگہ ایک 7 سالہ چھوٹا بچہ تھا جس کو ہم نے کپڑے دیئے کہ میچنگ کر دے کہ ایک عورت جنہوں نے خود کو بڑی چادر میں ڈ ھا نپ رکھا تھا وہ کپڑے لے کر لیس دکھا نے لگیں میر ی سوالیہ نظروں کو دیکھ کر خود ہی گو یا ہو ئیں کہ یہ دو کان میرے شوہر کی ہے ان کی وفات ہو گئی میرا بیٹا چھو ٹا ہے اور ابھی پڑ ھ رہا تھا آج اس کا پیپر ہے،میرے مزید پو چھنے پہ کہنے لگیں کہ اس نا گہا نی آ فت پہ سب نے جب ساتھ چھوڑا تو مجبوراً اسے سکول چھوڑنا پڑا اور اس دوکان پہ آ نا پڑا مگر وہ رات کو پڑ ھتا ہے آ ج اس کا میٹرک کا پیپر ہے وہ پیپر دینے گیا تو میں نے سو چا کہ میں خود اپنے بیٹے کا سہارا بنوں اگر آ ج بھی دوکان بند ہو تی تو پھر دو کا نداری خراب ہو تی اور شام کو گھر میں پیسے نہ ہو تے اور اگر بیٹا پیپر نہ دیتا تو وہ علم سے بد ظن ہو جا تا اس کا مستقبل ختم ہو جا تا ،میں اپنے بیٹے کے مسقتبل کو داؤ پہ نہیں لگا سکتی تھی اسلئے میں خود آ ئی ہوں ۔اور اب ہمیں آ پ سب کے تعاون کی ضرورت ہے ۔اسی دوران ان کا بیٹا بھی آ گیا اس کے آ تے ہی ان کی آ نکھوں میں ہزاروں دیپ جل اٹھے وہ آس و امید سے پو چھنے لگیں ” بیٹا پیپر کیسا ہوا ،کو ئی امید ہے ” اس وقت میری کیفیت کیا ہوئی وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی ۔اس دن ہم نے بغیر کسی بحث کے پیسے ان کو دیئے اور گھر کو آ گئے ۔ تلہ گنگ شہر بہت ایڈونس ہو چکا ہے بازار میں کئی جگہوں پہ خواتین اپنے بو تیک چلا رہی ہیں کئی بیوٹی پا رلرز چلا رہی ہیں مگر وہ محل نما بو تیکزمیں کا م کر تیں ہیں ان میں کچھ شوق کی تحت اور کچھ مجبوری کے تحت بھی مگر ایک پھٹا نما دو کان پہ لیس کی دو کانداری کر نا اور وہ بھی سب کی معنی خیز نظروں کا مقا بلہ کر تی ہو ئی خا تون یقیناًداد کی مستحق ہیں اور ان کی ہمت بہت سوں کے لئے مشعل راہ ہے ۔مجھے ان کا د کھ ہو نے کے ساتھ فخر بھی ہے کہ میرے شہر تلہ گنگ میں ایسی با ہمت خواتین بھی مو جود ہیں جو ضرورت کے باوجود کسی کے آ گے ہا تھ پھیلا نے کے بجا ئے خود ہمت کی تصویر بنتی ہیں ۔اور جب تک ایسی حو صلہ مند خواتین مو جود ہیں ہمیں کو ئی ہرا نہیں سکتا ۔قر آ ن پا ک میں ضرورت مند کی ایک نشا نی یہ بھی بیان کی گئی ہے ” کہ وہ کسی سے لپٹ کے سوال نہیں کر تے ” یہ لو گ وہی ہیں جو ضرورت مند ہیں مگر عا جزی اور سفید پو شی کے بھرم میں ہیں اور سوال نہیں کر تے ۔یہاں ایک گزارش اربابِ اختیار سے کر نا چا ہوں گی کہ الیکشن کے دنوں میں ڈ ھو کوں ،ڈ یروں ،جھو پڑیوں ،غر یبوں کے پاس بہت عا جزی اور وعدوں کے پلندے اٹھا ئے پہنچ جا تے ہیں مگر ووٹ لینے کے بعد وہی لو گ ان کے لئے اجنبی بن جا تے ہیں ،عہد یدار بننے کے بعد کسی جگہ بجلی لگوانا ،کسی کو گیس اسی بنا ء پہ ہم ہمیشہ ان کی دوکان پہ جا یا کر تے ۔ فراہم کر نا ،شہر میں سکول کھلوانا ہی حق ہی بلکہ ایسے مستحق لو گوں کی چھپے انداز میں مدد کر نا بھی اولین فر ض ہے ۔خدارا آپ سب بھی اپنے اردگرد ایسے مستحق لو گوں کو دیکھیں اور ان کی اس انداز میں مدد و تعاون کر یں کہ ان کا بھر م بھی قا ئم رہے اور ان کی آ نکھوں میں ضرورت کی نمی بھی کم ہو جا ئے ۔ 

Short URL: http://tinyurl.com/y8y7cgsj
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *