ہمارے مخلوط تعلیمی ادارے۔۔۔۔ تحریر: سعدیہ عابد

Print Friendly, PDF & Email

ابن خلدون کہتا ہے کہ انسان اجتماع پر مجبور ہے اور اجتماعیت کی بنیاد مرد اور عورت مل کر رکھتے ہیں ۰ دْنیا میں سب سے پہلے تخلیق کیے گئیانسان حضرت آدمؑ تھے اور ان کی پسلی سے اللہ نے بی بی حوا کو پیدا فرمایا اور باوا آدَمؑ نے اماں ہوا کے ساتھ مل کر اجتماعیت کی بنیاد رکھی . اسی لیے ازل سے مرد عورت کے مابین ایک کشش موجود ہے اسی لیے کسی بھی دور اور زمانے میں مرد اور عورت اِس کشش سے محفوظ نہ رہ سکے بلکہ اسی کشش کے سبب ایک دوسرے کی جانب کھنچتے رہے۔ اللہ نے چونکہ خود مرد اور عورت کے درمیان کشش رکھی ہے اسی سبب اللہ نے ساتھ ہی مرد اور عورت کے لیے کچھ حدود بھی مقرر کردیں اور ان حدود سے انحراف کا ہی سبب ہے کہ مسلم معاشرے اخلاقیات اور حیا میں سب سے نچلے درجے پر آن پہنچے ہیں’ کیوں کہ اخلاقیات اور حیا کے سبق زندگی کی ترجیحات سے نکل گئے ہیں۔سب ہی جانتے ہیں کے مدارس، اسکول ، کالج اورجامعات انسانوں کی تربیت اور ایک بہتر اچھے معاشرے کی تشکیل کا زریعہ ہوتے ہیں مگر جب زرائع غلط سمت چل پڑیں تو مثبت افعال اور کردار اور بہترمعاشرے جنم نہیں لیتے۔اسکول اورجامعہ عقل و شعور کی منازل عطا کرتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں تیزی سے فروغ و ترویج پاتے مخلوط تعلیمی ادارے منزل کو گمراہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی تنزلی کاسبب بنتے جا رہے ہیں ۔ کیونکہ مخلوط تعلیمی ادارے جنسی کشش کے سبب عشق و عاشقی کے مرکز بن جاتے ہیں اور جامعہ کا سفر حصول تعلیم کی غرض سے نہیں محبوب سے ملنے کی ٹرپ اور آس میں کیا جانے لگتا ہے کہ مرد اور عورت کی کشش سے انحراف ممکن نہیں اور مخلوط تعلیمی ادارے آگ اور پانی کا کھیل شروع کر کے زندگی اور رشتوں کو تماشہ بنتے دیکھ آنکھیں ہی بندکر لیتے ہیں جب کے یہ بھی حقیقت ہے کے پھول اگائے جائیں تو آگ نئی بھڑکتی اور آگ بھڑکائی جائے تو ہر ایک چیز اِس آگ میں جل کر خاکستر ہو جاتی ہے جیسے موجودہ دور میں آپسی کشش کے سبب رشتوں کا اور حیا کا درس فراموش ہوتا جا رہا ہے ۔ استاد کا پڑھایا سبق دِل تو کیا ذہن کو بھی متاثر نہیں کرتاکہ ایک انجان شخص دِل کی دھرتی کا بے تاج بادشاہ بن کر ذہن و دِل میں گردش کرتا رہتا ہے . دوسرے کی بہن بیٹی سے مقدس مقام پر عشق اور عاشقی کے پیمان باندھے جاتے ہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کے بہن تو گھر پر میں بھی چھوڑ آیا ہوں ۔ درس اورسیکھنے کی سمت اس کی بھی بدل سکتی ہے سفر تعلیم سفر عشق کے قالب میں ڈھل سکتا ہے کہ راہیں مزدود ہوں تو منزل تلاش کرنی پڑتی ہے اور اچھی بری منزل کا تعین ہر کسی کے بس کی بات نہیں جبکہ عقلمند انسان اچھائی ہی کو منزل بنا لیتے ہیں مگر جب برائی کی راہیں ہموار کی جانے لگیں درس اخلاقیات وانسانیت کے مقام اور منزل پر عشق کا سبق پڑھایا جانیلگے تو اِس برائی اور کشش سے بچنا اتنا بھی آسان نہیں جتنامخلوط تعلیمی اداروں کو تشکیل دینے والو ں، اور ترویج کرنے والو ں نے سمجھ لیا کے مرد اور عورت مل کر بڑے سے بڑا کارنامہ سر انجام دے سکتے ہیں کے یہ ایک ہی گاڑی کے دو پہئیے ہوتے ہیں اور اِس گاڑی کی بنیاد شریعت نے نکاح مقرر کی ہے اور جب کے دفاتر اور مخلوط تعلیمی اداروں میں مرد اور زن کا آزادی سے سامنہ ھونا ، ملنے کی راہیں کھولتا ہے اور ملنا ملانا ، اور ملاقات اور روابط کا سبب بنتا ہے . مرد اور عورت کی کسی شرعی رشتے کے بغیر ملاقات بہرہ روی اور جنس پرستی کا سبب بنتی ہے اور جس بات کا اِد?راک پہلے سے ہو برائی کا اَڑدَہا منہ کھولے سامنے کھڑا ہو تو اِس سے بچ کر چلنا ہی عقلمندی ہوتی ہے کیوں کے جان کر کھائی میں چھلانگ لگا کر تو صرف موت کو ہی دعوت دی جاتی ہے اور اپنے ہاتھوں اپنا قتل کَرنا اتنا بھی آسان نہیں ہوتا کہ جان کنی کا مرحلہ ہر دور میں ہی اذیت ناک رہا ہے ۔ اِس لیے اب ضرورت اِس امر کی ہے کیشریعت کے تقاضے ، اسلام اور اللہ کی مقرر کردہ حدود کی پاس داری کی جائے . مخلوط تعلیمی اداروں کی جگہ خواتیں اور حضرات کے لیے الگ الگ تعلیمی اداروں کو معاشرے کا حصہ بنایا جائے کیوں کے مخلوط تعلیمی ادارے پوری طرح نہیں تو کم از کم 50 % تو اَخ?لقی تنزلی کے بڑھتے ہوئے اسباب میں کردار ادا کر رہے ہیں تعلیمی ادارے عشق اور عاشقی کا سبب ہی نہیں بنتے بلکہ دیگر اَخ?لاقی برائیوں جیسے غلط بیانی سے کام لینا ، سچ کو جھوٹ کے قا لب میں ڈھالنے کے فن میں مہارت حاصل کرلینا۔ طالب علم والدین سیہی نہیں خود سے بھی تو جھوٹ بولنے کے عادی ہو جاتے ہیں ، تعلیمی سر گرمیوں اور امتحان کی تیاری کو بہانہ بنا کر کلاس فیلوز سے بات ہوتی ہے مرد اور عورت دوست بنتے ہیں جب کے آگ اور پانی چاہیے بھی تو ایک دوسرے کے آپس میں دوست نہیں بن سکتے آگ کے شعلے بے شک پانی سے ہی ٹھنڈے ہوتے ہیں مگر آگ کا کام تو جلانا ہے تو دوست ( پانی ) اس کے جلنے ، کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ کے اسے ( پانی ) ایسا کَرنا ہی پڑتا ہے کے کہ گئے ہیں کے گھوڑا گھاس سے یارانہ کرے گا تو کھائیگا کیا ؟ اور جس مذہب میں عورت کی آواز غیر مرد پر سننا حرام ہے علم کے نام پر گھنٹوں کی ملاقات اور بات چیت غیر اسلامی کی ہی تصویر پیش کر سکتا ہے کے اسلام نے تو حدود نافذ کردی ہیں اور اب کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے حقیقت مے گی نہیں ، بات صاف ہے ، حقیت عیاں ہے اب ضرورت اِس امر کی ہے کے اپنی روایت اور شریعت کے کو سمجھا جائے مخلوط تعلیمی اداروں سے بچا جائے ان کو کا زمیں نا سمجھا جائے کیوں کے بدلتی روایات گواہ ہیں کے مخلوط تعلیمی ادارے کس قدر اور جنس پرستی کی کا سبب ہیں کیسے مقدس سیکھنے اور تربیت کے درس عشق اور عاشقی کا مرکز بن گئے اور آج علم کی شمع اپنے اصل مقام پر کھڑی لو کو تھر تھراتا دیکھ رہی ہے کیوں کے جنسی کشش اور محبت کی شمع پورے وجود کے ساتھ مسکرا کر لہرا جو رہی ہے کے وہ نازا ہو کر کیوں نا لہرائے کے پروانے خود اپنا مرکز شمع علم چور کر شمع محبت پر نثار ہوئے جاڑا ہے کے علم کے پروانے اِس کے گرد سے ہو کر جنسی کشش کی آڑ میں جا چھپے ہیں ۔ جنسی کشش تو اذل سے موجود اِس لیے معاشرے میں ایسی چیزوں کو فروغ دینا چاہئے جو بہرہ روی سے روکتے ہوئے جنس کا احترام سکھائے اور اِس کے لیے سب سے پہلے تعلیمی اداروں پر توجہ دینی ھوگی ۔

Short URL: http://tinyurl.com/zmov3or
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *