گلگت بلتستان۔ایک موقف اپنانے کی ضرورت ہے

Hadayat Ullah Akhtar
Print Friendly, PDF & Email

پاکستا نی سیاست اورسیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت ساری باتیں ہو چکی ہیں اس سلسلے کو یہی پہ منقطع کرنے سے پہلے ایک آخری بات جو میں کہنے والا ہوں وہ یہ کہ پاکستانی سیاسی تاریخ کے اندر شروع دن سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اس میں غیر ریاستی اداروں کی مداخلت کا عنصر نمایاں ہے ۔تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ اس دفعہ دو بڑی پارٹیاں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بڑی دبائو کا شکار رہی انہیں یہ شکایت رہی کہ غیر ریاستی اداروں کا جھکائو ایک پارٹی کی طرف ہونے کے رحجان نے عوام کے دلوں میں مایوسی پیدا کی جس کے باعث وہ خوف کے شکار رہیں اور انہیں انتخابی  مہم بھرپور طریقے سے چلانے کا موقع نہیں ملا۔یا نہیں دیا گیا ۔ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ سلیکشن ہوچکا ہے اب بس 25 جولائی کو الیکشن ہونا باقی ہے ۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ تو الیکشن کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا ۔بہت سارے تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی ایک پارٹی کا سادہ اکثریت بھی حاصل کرنا محال لگتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔۔گلگت بلتستان کے باسی بھی ان انتخابات میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی لے رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستانی انتخابات یا ملک کے وزیر آعظم منتخب کرنے میں ان کا حصہ یا کردار زیرو بھی نہیں ۔بلکہ اردو کا محاورہ ہے نہ تین میں نہ تیرہ میں پھر بھی نہ جانے کیوں بیگانی شادی مین عبداللہ بنتے جا رہے ہیں ۔پاکستانیوں کو یہ شکایت ہے کہ ملک کی ستر سالہ تاریخ میں زیادہ تر ڈیکٹیٹرزکی حکومت رہی اور جمہوریت کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا اور ادھر یہ حال کہ متنازعہ خطہ جموں و کشمیر کا حصہ ہونے کے باوجود ستر سالوں سےیہاں کے باسی نہ  ریاستی باشندے بن پائے اور نہ ہی پاکستانی کہلاتے ہیں ۔ایسا کیوں ہے اور یہ سلسلہ کب تک برقرار رہے گا اس بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔۔اگر میں اس کی تاریخ کھنگالنے بیٹھ جائوں تو اسی تاریخ میں سے ہی یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ تاریخ آئنے میں اس خطے کے اندر  کوئی سیاسی جہد و جہد نمایاں طور پر نظر نہیں آتی سوائے یکم نومبر کی بغاوت کے جسے انقلاب گلگت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ ایک ایسا انقلاب ہے جس میں سویلین کی کوئی شرکت نہیں تھی اور نہ ہی کسی کو اس انقلاب یا بغاوت کا علم تھا۔۔ جس وقت برصغیر منقسم ہوا تو اس وقت گلگت اور بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا صوبہ تھا اور شمالی سرحدی صوبہ کہلاتا تھا جس میں لداخ کرگل بلتستان اور گلگت کی وزارتیں شامل تھی اور ان علاقوں سے   کشمیر اسمبلی (پرجا سھبا) کے لئے نمائندے منتخب ہوا کرتے تھے۔۔پاکستان بننے کے بعد اکتوبر انیس سو سینتالیس سے انیس سو انچاس تک جو واقعات اور حالات ریاست کشمیر کی سر زین پر رونما ہوئے اس سے سبھی واقف ہیں یہاں دھرانے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتا بس ان حالات اورر واقعات کے تجزیے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس وقت کے پاکستانی حکمرانوں اور برٹش حکام کے سوچے سمجھے منصوبے کو عملی جامعہ پہنانے کی ایک حکمت عملی تھی جس کے تحت کشمیر کے محاذ پر بشمول گلگت بلتستان تحریک آزادی کشمیر جسے پاک بھارت پہلی جنگ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے شروع کی گئی تاکہ پوری ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنایا جائے ۔۔اسی پروگرام کے تحت ہی گلگت بلتستان مین موجود دو برٹش پولیٹکل آفیسروں اور سکیس جموں و کشمیر انفنٹری کی خدمات حاصل کی گئی جنہوں نے گلگت میں مقامی لیویز کے تعاون سے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔

جاری ہے

 

Short URL: http://tinyurl.com/yd8z2kmx
QR Code: