کہانی کہانی ہوتی ہے
کہانی سو لفظوں کی ہو یا دس لفظوں کی کہانی کہانی ہوتی ہے اور ہر کہانی کے پیچھے بھی ایک کہانی ہوتی ہے اور کہانی کے بعد بھی کہانی کہانی ہی رہتی ہے بس پہلی والی کہانی بعد میں بننے والی کہانی سے اس لحاظ سے اچھوتی ہوتی ہے کہ پہلی والی کہانی ماضی کی کہانی بن جاتی ہے اور نئے کہانی حال کی کہانی کہلاتی ہے ۔اس لمحے نہ میرے پاس ماضی کی کوئی کہانی ہے اور نہ حال میں کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہے کہ اس کو بنا سنوار کر کہانی کی شکل میں پیش کر سکوں ۔ذہن سوچ رہا ہے کہ ایسی صورت میں اگر کہانی لکھی جائے تو وہ کہانی کیسی ہوگی لازمی بات ہے یہ کہانی نہیں ہوگی بلکہ فسانہ ہوگا اور فسانہ لکھنے کی اتنی مہارت کہاں کہ فوراً لکھنا شروع کردوں کہ وہ اپنی ماں باپ کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھی سب اسے پیار سے لاڈو کہتے تھے اور لاڈو ۔اللہ اس کا بھلا کرے اپنی دنیا میں مگن سب سے الگ تھلگ ایک ایسی دنیا کا سپنا دیکھ رہی ہوتی تھی کہ کہیں سے کوئی خوبرو شہزادہ آئیگا ایسے میں ماں کی آواز اس کے کانوں سے ٹکراتی تو اس کے سارے خواب بکھر کے رہ جاتے تھے ۔اس کے بعد لاڈو کی جو حالت بن جاتی تھی اسے صرف حقیقی دنیا میں آباد لوگ ہی محسوس کر سکتے ہیں پھر جب سوچ حقیقی کائینات میں پہنچ جاتی ہے تو ہر قدم پہ ایک کہانی دکھائی دیتی ہے کہیں غربت کی کہانی کہیں لاچاری کی کہانی کہیں بے بسی کی کہانی اور کہیں ظلم و جبر کی اور کہیں مظلومیت کی بلکہ یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے یا شاعر سے معذرت کے ساتھ کہ کہاں تک سنوگے کہاں تک سنائیں ۔ہزاروں ہیں کہانیاں کیا کیا بتائیں ۔جس معاشرے کے ہم فرد ہیں اس معاشرے کے باسیوں کی ہزاروں حقیقی کہانیوں کی موجودگی میں فسا نوں کی کیا مجال کہ وہ ان حقیقی کہانیوں کی جگہ لے سکیں ۔یہ جو کچھ اب تک تحریر کیا ہے اس پر سر سری سی نظر ڈالی تو جو لکھا گیا ہے نہ تو مجھے فسانہ لگا اور نہ ہی کہانی ۔حیران ہوں کہ اسے کیا نام دوں جگت بازی تک بازی یا کچھ اور ۔نہیں نہیں اپنا لکھا ہوا کسے بُرا لگتا ہے چاہئے اس میں املا کی سو غلطیاں کیوں نہ ہوں ۔املا کی غلطی والی بات کو سریس نہ لیں یہ کسی کی طرف اشارہ نہیں اور نہ ہی طنز ہے املا کی غلطی ہو یا انسان کی غلطی ۔غلطی بھی اب غلطی کہاں رہی اور کس کو پڑی ہے کہ غلطی پر معافی مانگے اور آئندہ غلطی نہ کرنے کا عہد کرے اس دیس میں اب سب غلطیاں معاف ہیں چاہئے وہ چھوٹی غلطی ہو یا بڑی۔اس سے پہلے مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے اور رخ کسی اور طرف مڑ جائے اس روداد کو اس مقام پر چھوڑے دیتا ہوں
Leave a Reply