کشمیر بنک آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن نے جائز مطالبات کے لیے 21 دن کا نوٹس بنک انتظامیہ کو پیش کر دیا

Print Friendly, PDF & Email

بورڈ آف ڈائریکٹر کی میٹنگ میں غلط اعداد و شمار پیش کر کے بنک ملازمین کے حقوق کو غلط رنگ دیا گیا۔


مظفرآباد ( ایف یو نیوز) آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کشمیر بنک نے ملازمین کے حقوق کا مسودہ چارٹر آف ڈیمانڈ 13؍اکتوبر 2015ء کو بنک انتظامیہ کو پیش کیے رکھا ہے۔ جس کے بعد کئی یاداشتیں بھی دی گئیں مگر ملازمین کے جائز مطالبات کی طرف کسی قسم کی توجہ نہیں دی گئی۔ 16؍دسمبر سے 23؍دسمبر تک پورے آزادکشمیر کے ملازمین نے سیاہ پٹیاں باندھ کر علامی ہڑتال کر کے اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔ جس کے دوران 21؍دسمبر بنک انتظامیہ نے ایسوسی ایشن کے نمائندگان کے ساتھ میٹنگ کر کے 5 جنوری کو ملازمین کے مطالبات بیٹھ کر حل کرنے کا وعدہ کیا۔ مگر مقررہ تاریخ پر انتظامیہ نے پھر ملازمین کی آنکھوں میں دھول جھونک دیا اور ملازمین کے مطالبات پر بات نہیں کی۔ دوسری جانب 23 دسمبر کو بورڈ آف ڈائریکٹر کی میٹنگ میں بنک انتظامیہ نے ملازمین کی تنخواہوں کے حوالے سے غلط اعداد و شمار پیش کر کے بورڈ ممبران کے سامنے ملازمین کے حقوق کو غلط رنگ میں پیش کیا۔ جس کے مطابق ملازمین کو 30 جون 2015 میں گریڈ تھری کو 30 سے 34 ہزار جبکہ گریڈ ٹو کو 47 سے 65 ہزار تنخواہ دی جا رہی ہے جو کہ حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ 30 جون 2015 کو گریڈ تھری 16 سے 20 ہزار جبکہ گریڈ ٹو، 23 سے 32 ہزار روپے کے درمیان تنخواہ لے رہا ہے۔ صرف 2 یا 3 من پسند افراد کی تنخواہ جو کہ بورڈ کے اجلاس میں پیش کی گئی ۔مگر بیگار کیمپ کی طرح کام کرنے والے بنک ملازمین کے ساتھ زیادتیاں اور ناانصافیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جن کی تنخواہوں میں سالانہ 600 سے 500 تک اضافہ، دیگر ملازمین کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ ملازمین کے خلاف بورڈ کے اجلاس میں دی جانے والی بریفنگ کا نتیجہ ہے کہ ملازمین اپنے مطالبات اور مسائل لے کر سیکرٹری انڈسٹری کے پاس گئے جنہوں نے بات سننے کے بجائے ایف آئی آر کٹوا کر بند کرنے کی دھمکی دے دی اور فرمایا کہ میری موجودگی میں بنک ملازمین کے حقوق کی بات کبھی نہیں ہو سکتی۔ ملازمین ایسے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ بورڈ میٹنگ کے بعد بنک انتظامیہ نے اپنی نااہلی اور لاقانونیت کو چھپانے کے لیے ایسوسی ایشن کے نمائندگان کی ٹرانسفر اور تبادلے شروع کر دیئے تاکہ اٹھنے والی ہر زبان بند ہو جائے۔تین افراد کے ہاتھوں یرغمال ریاستی ادارہ بے بسی کی تصور بنا ہوا ہے۔ ملازمین کی چیخ و پکار کے باوجود ریاستی ذمہ داران اور پالیسی ساز اداروں کی طرف سے خاموشی لمحہ فکریہ ہے اور جب قانون پر شخصیات اثرانداز ہو جائیں تو انصاف کاغذوں کی حد تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایک طرف ملازمین کی سالانہ تنخواہوں میں 6 سے 8 فیصد اضافہ کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف گزشتہ ماہ ڈویژنل ہیڈ معاذاللہ خان کی تنخواہ میں 35 سے 40 ہزار روپے اضافہ کیاگیا۔ اور بنک کی جی ایل آئی گاڑی بغیر نیلامی اشتہار کے جس کی مارکیٹ ویلیو 12 لاکھ سے زائد ہے معاذ اللہ خان نے ملی بھگت سے ایک لاکھ 30 ہزار روپے دے کر خود رکھ لی جس سے بنک کو 10 لاکھ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ جبکہ ایک اور ڈویژنل ہیڈ کو گزشتہ سال 60% سے زیادہ تنخواہ میں اضافہ دیا گیا۔ کشمیر بنک کے 600 سے زائد ملازمین گزشتہ ایک سال سے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔ مگر ان کی آواز کو کچلنے کے لیے ہر سطح پر بنک انتظامیہ کی غلط اطلاعات اور انفارمیشنز پر رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ اب بنک ملازمین چیف سیکرٹری آزادکشمیر سے پُرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ ناانصافیوں، زیادتیوں، اقرباء پروری، پسند و ناپسند کے حصار میں جھکڑے ریاستی ادارے کو چھٹکارا دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Short URL: http://tinyurl.com/gobpjwm
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *