کشمیریوں کی قربانیاں اور یکجہتی کشمیر

Muhammad Shahid Mehmood
Print Friendly, PDF & Email

تحریر:محمد شاہد محمود
یوم یک جہتی کشمیر ہر سال پانچ فروری کو جوش وخروش سے منایا جاتا ہے،سیمینارز،مباحثے اور مذاکرات منعقد کئے جاتے ہیں۔کشمیری بھائیوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔ یوم یک جہتی منانے سے کشمیریوں کی آواز عالمی برادری تک پہنچتی ہے اور اس سے مسئلہ کشمیر کے بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہونے میں مدد ملتی ہے لیکن کیا ہم پاکستانیوں اور حکمرانوں کی طرف سے اتنا ہی کردینے سے کشمیر کاز کو کوئی تقویت پہنچ سکتی اور آزادی کی منزل قریب آسکتی ہے؟۔
افسوس کہ کشمیر کے حوالے سے قائد کے بعد آنے والے کسی حکمران نے بانی پاکستان جیسے عزم و ارادے کا مظاہرہ نہیں کیا حالانکہ اب تو پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین فوج اور وہ ایٹمی کا حامل بھی ہے۔جب مجاہدین فتح و نصرت کے پھریرے لہراتے ہوئے سری نگر تک پہنچا چاہتے تھے کہ بھارت مقبوضہ وادی کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر بھاگا بھاگا یو این چلا گیا جس نے مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کو حقِ استصواب کی صورت میں تجویز کیا۔ اسے بھارت نے بھی تسلیم کیا لیکن آج 71سال گزر چکے ہیں لیکن بھارت کشمیریوں کو یہ حق دینے سے مسلسل انکاری ہے۔
5 فروری کا دن کشمیریوں کی یک جہتی کے حوالے سے تاریخی حثیت اختیار کر چکا ہے۔یہ دن تجدیدِ عہداور عزمِ نو کی نوید ہے۔ پہلی باراس دن کو منانے کا آغاز 1990ء کو ہوا جب جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد کی اپیل پر اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد نوازشریف نے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے اپیل کی کہ جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کی جائے۔ ان کی کال پر پورے پاکستان میں 5 فروری 1990ء کو کشمیریوں کے ساتھ زبردست یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ملک گیر ہڑتال ہوئی اور ہندوستان سے کشمیریوں کو آزادی دینے کا مطالبہ کیاگیا۔ اس دن جگہ جگہ جہاد کشمیر کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگیں گئیں۔ بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی نے 5 فروری کو عام تعطیل کا اعلان کر کے کشمیریوں کے ساتھ نہ صرف یکجہتی کا مظاہرہ کیا بلکہ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد تشریف لے گئیں جہاں انہوں نے اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس کے علاوہ جلسہ عام سے خطاب کیا،کشمیریوں کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اور مہاجرین کشمیر کی آباد کاری کا وعدہ کیا۔ تب سے اس دن کو ہر برس سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کی ہٹ دھرمی ، انسانی حقوق کی سنگین پامالی ،ہزار وں شہداء کی گمنام قبروں کی دریافت ، وہاں مسلط شدہ کالے قوانیں اور بلااشتعال سیز فائر لائن پر فائرنگ ، آزادکشمیر اور پاکستان میں ” را “کی تخریبی کاروائیوں جیسے مذموم اقدام کو بے نقاب کرنے کے لئے بین الاقوامی اداروں کو متحرک کیا جائے اور اقوام متحدہ ، OIC اور دیگر بین الاقوامی سیاسی اور انسانی حقوق کے اداروں میں تیاری کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کیا جائے۔
کشمیر ارض فلسطین کے بعد دھرتی کا مظلوم ترین گوشہ ہے۔کشمیرکو دنیا کی جنت کہا جاتا ہے۔ مگر درندہ صفت بھارت نے اس کو کئی سالوں سے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا۔ اور ظلم سے ظلم کیے جا رہا ہے بھارت نے فوج کی بہت بڑی تعداد ان معصوم لوگوں کے اوپر مامور کر رکھی ہے۔جو ہر روز کشمیر ی ماؤں اور بہنوں بھائیوں پر ظلم کیے جا رہے ہیں۔ساری دنیا بھارت کا یہ ظلم دیکھ رہی ہے۔اس کے ظلم کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔اس چھوٹی سی آبادی کو لاکھوں درندوں نے گھیرا ہوا ہے۔کشمیر کی آبادیاں ویران،کھیت کھلیان اور باغات تباہ حال ہیں۔کشمیر کی جو خوبصورتی تھی بھارتی فوج نے اپنے ظلم کی وجہ سے اس کو بدصورت بنا دیا ہے۔ بیٹیوں کی عصمتیں پامال ہو رہی ہیں مائیں بیوہ ہو رہی ہیں بچے یتیم ہو رہے ہیں۔پوری وادی میں ہر طرف لہو ہی لہو نذر آرہاہے۔آج جنت نظیر مقتل کی تصویر بنی ہوئی ہے۔کشمیری بھائی اس ظلم کی وادی میں اب تک ایک لاکھ سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ہزاروں مردوخواتین لاپتہ ہے اور ہزاروں بھارتی جیلوں میں ظلم سہہ رہے ہیں۔ہزاروں دختران کشمیر کی عصمت پامال کی جاچکی ہیں۔
برہان مظفر وانی کی شہادت سے تحریک ایک نئی سطح پر اٹھی تاہم اس وقت وہ اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ 500 کے قریب کشمیریوں کو اس دوران شہید کیا جا چکا ہے جبکہ بھارت اب کشمیریوں کی نسل کشی پر اتر چکا ہے۔بھارتی قابض افواج کا ظلم کا سلسلہ ہنوز جاری ہے بلکہ کشمیریوں کو جدو جہد آزادی سے روکنے کے لئے اسرائیلی فوج سے بھی بھارتی فوجیوں کو مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لئے ٹریننگ دلوائی گئی ہے، اس مقصد کیلئے گزشتہ کئی سالوں کے دوران ہزاروں بھارتی فوجی تربیت کے لئے اسرائیل جا چکے ہیں، تا کہ وہ بھی فلسطین کے طرز پر مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں پرانسانیت سوز مظالم ڈھا سکیں۔
بے گناہ و مظلوم کشمیریوں کی شہادت ایک لمحہ فکریہ ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کے دلوں سے جدو جہد آزادی کا جذبہ ختم کرنے کیلئے ان کی نسل کشی کا ہولناک سلسلہ جاری کر رکھا ہے جبکہ بھارتی قابض فوج نہتے شہریوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ اب تک بھارتی درندہ صفت ا فواج جن لا تعداد کشمیریوں کو شہید کر چکی ہے ان میں بڑی تعداد ان مظلوم عوام کی ہے جنہیں محض لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کیلئے درندگی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ہر روز کارروائی کی آڑ میں جوانوں کو شہید کرنا بھارتی فوج نے اپنا مشغلہ بنا رکھا ہے اور کوئی غیر انسانی اقدام کے خلاف آواز اٹھانے والا نہیں جو بھارت کو حقوق انسانی کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں کرنے سے روکے۔ظلم تو یہ ہے کہ بے گناہ کشمیریوں کی اموات کیخلاف احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کی جاتی ہے ان پر آنسو گیس کے گولے پھینک کر اور ربڑ کی گولیاں چلا کر زخمی کر دیا جاتا ہے۔امیر جماعۃالدعوۃ پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید کہتے ہیں کہ کشمیریوں کی لازوال قربانیوں نے تحریک آزادی کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ برستی گولیوں میں پاکستانی پرچم اٹھانے والے کشمیر کی نمائندگی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ آزادی کشمیر کیلئے قائد اعظم محمد علی جناح کی پالیسی پر کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت سابقہ حکمرانوں کی غلطیوں سے نصیحت حاصل کرے۔ بھارت سے صاف کہہ دیں کہ وہ مذاکرات چاہتا ہے تو کشمیر سے آٹھ لاکھ فوجیں نکالے اور کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دے۔5فروری یوم یکجہتی کشمیرکے حوالہ سے مظلوم کشمیریوں کیلئے مضبوط آواز بلند کریں گے۔
بھارت میں بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے کشمیریوں کیخلاف ظلم کی لہر شدید ہو چکی ہے کیونکہ پہلی بار مقبوضہ کشمیر ریاست میں فرقہ پرست ٹولے کو نقب زنی کا موقع ملا اور وہ ریاستی انتخابات میں تاریخ میں پہلی بار پندرہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔بی جے پی نے مخلوط حکومت میں کشمیریوں کے گرد گھیرا مزید تنگ کر دیا ۔ بعداذاں کٹھ پتلی حکومت کو ہٹا دیا اور گورنر راج نافذ کر دیا گیا اور اپنے مذموم عزائم کی توسیع کیلئے صدارتی راج کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔
ہندوستانی درندہ صفت سات لاکھ فوج کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔ یہاں چادر اور چار دیواری کا تحفظ عنقا ہے۔ آزادی کیلئے سرگرم نوجوانوں کو اغوا کے بعد بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر زندگی بھر کیلئے معذور کر دیا جاتا ہے۔ جس کی بدترین مثال اسرائیلی ساختہ مہلک ہتھیار پیلٹ گن کا استعمال ہے۔ اس ’’پیلٹ گن‘‘ کے ذریعے سینکڑوں کشمیریوں کو اندھا بنایا جا چکا ہے جو تشدد کے دوران ہلاک ہو جاتے ہیں ان بے گناہ نوجوانوں کو ان بے نام اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ نہ جانے کتنے موت کے کنویں بھارتی فوج نے کھود رکھے ہیں جہاں اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیریوں کو ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے۔
انٹرنیشنل پیپلز ٹربیونل آف ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس نامی مقامی ادارے کی ایک رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ کشمیر سے آٹھ ہزار گمشدہ افراد کے لواحقین کو خدشہ ہے کہ ان کے اقرباء کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا گیا۔مذکورہ تنظیم کی رپورٹ کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی عملہ فرضی جھڑپوں، حراستی تشدد اور خفیہ قتل کی کارروائیوں میں ملوث ہیں جس کے نتیجے میں آٹھ ہزار سے زائد لوگ لاپتہ ہیں اور ایک لاکھ ہلاکتیں ہوئی ہیں، واضح رہے گزشتہ بیس سال کے دوران وکلاء اور انسانی حقوق کارکنوں نے گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے مختلف عدالتوں میں ڈیڑھ ہزار رٹ درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ بھارتی فوج لاپتہ افراد کی لاشیں دریاؤں میں پھینک دیتی ہے یا پھر بے نام قبروں میں دفن کر دیتی ہے۔ تاہم مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی قبروں کا انکشاف سب سے پہلے اس وقت ہوا جب 70 سالہ گورکن عطا محمد نے جولائی 2009ء میں نیو دہلی سے آنیوالی چند این جی اوزکے نمائندوں کے سامنے اقرار کیا کہ اس نے سینکڑوں کشمیریوں کی لاشوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے بھارتی فوج کی مدد کی تھی۔بھارتی جارحیت کا ایک خوفناک پہلو یہ ہے بھارتی فورسز اپنی کارروائیوں کے دوران کشمیریوں کو شہید کرنے کے بعد بسااوقات ان کی نعشیں ورثاء کے سپرد کرنا بھی گوارا نہیں کرتے اور انہیں تجہیز و تکفین کے بغیر دفنا دیا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر افراد لاپتہ ہو جاتے ہیں اور کئی دہائیوں تک ان کا پتہ نہیں چلتا۔ 

Short URL: http://tinyurl.com/y8t3rpzj
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *