کراچی پریس کلب سے ننگر پارکر

Muhammad Arshad Qureshi
Print Friendly, PDF & Email

پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ  (پی ایف سی سی) کی جانب سے تھرپارکر دورے کی تیاریاں ماہِ اکتوبر سے ہی جاری تھیں جس کے لیئے منصور مانی بھائی اور مزمل فیروزی بھائی تمام ممبران سے رابطے کررہے تھے  ۔ ماہِ نومبر کا پہلا ہفتہ گذر چکا تھا لیکن ہمیں یہ معلوم تھا کہ ہمارا قافلہ کراچی سے  17 نومبر کو نکلے گا اور 19 نومبر کو خیر سے واپس کراچی کی حدود میں داخل ہوگا مگر ہمیں یہ  معلوم نہیں تھا کہ دورےمیں ہمارے کون کون سے دوست ہمسفر ہونگے ۔ ہم نے ایک دو دوستوں سے دریافت کیا  کہ کون کون رختِ سفر باندھ رہا ہے تو ہمیں یہی جواب ملتا کہ آپ جارہے ہیں مجھے بھی یہی پتا ہے تو ہم بھی کہہ دیتے کہ ہمیں بھی اب تک یہی معلوم ہے کہ آپ جارہے ہیں وہ بھی آپ کی ہی زبانی۔نومبر تیسرے ہفتہ میں داخل ہوا تو واٹس ایپ پر اس دورے کے حوالے ایک گروپ بنا دیا گیا  اس اس گروپ میں ہدایات جاری کی جانے لگیں اور سفر کس طرح کرنا ہے کہاں کہاں  کب کب پڑاؤ ڈالنا ہے کہاں کے موسم کی صورت حال کیا ہے گروپ میں آگاہی دی جانے لگی  اب کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا کہ کون کون قافلے میں شامل ہے جو احباب بھی گروپ میں شامل ہیں وہ ہی قافلے میں شامل ہونگے ۔ گروپ سے ہی ہمیں اندازہ ہوا کہ  اینگرو  کمپنی کی جانب سے ہمارے میزبان  مقداد سبطین اور فواد خان صاحبان  ہونگے، ساتھ ہی پتا چلا  17 نومبر کی صبح 09 بجے قافلہ پریس کلب سے روانہ ہوگا اس لیئے احباب وقت کا خیال رکھیں اور  08:00  سے 08:30  پریس کلب پہنچ جائیں ۔

جمعرات 16 نومبر کی رات ہمیں باس  ( باس ہم مزمل فیروزی بھائی کو کہتے ہیں ) کا پیغام موصول ہوا جو کہ رومن اردو میں تھا کہ عشرت خان جو آپ کے علاقے سے ہیں آپ ان کو ساتھ لیتے آنا   پیغام میں عشرت کا رابطہ نمبر بھی درج تھا ۔ رومن اردو سوشل میڈیا کی ایسی زبان ہے جس میں لکھے ہوئے جملوں کا پڑھتے ہوئے اکثر مفہوم یکسر بدل جاتا ہے ، ہم نے کافی دیر انتظار کیا کہ شائید عشرت ہمیں فون کریں اور ہم صبح نکلنے کا پروگرام طے کریں ، ہمارےایک دوست عامر جوکہ لیکسن بلڈنگ جو کہ پریس کلب کے قریب ہے  وہیں جاب کرتے ہیں  اور روز موٹرسائیکل پر جاتے ہیں ہم ان کے ساتھ جانے کا پروگرام صبح ہی ترتیب دے چکے تھے اور باس کا پیغام آنے کے بعد بھی کوئی خاص پریشانی نہ تھی ہم نے سوچ لیا تھا کہ اگر عشرت سے بات ہوگی تو انہیں بھی موٹرسائیکل پرساتھ ہی لے چلیں گے ، رات گئے جب عشرت کا فون نہیں آیا تو ہم نے سوچا کہ ہوسکتا ہے عشرت بھائی کا پروگرام کچھ اور ہو سو ہم نے خود کال کی تو کال کسی خاتون نے اٹینڈ کی ہم نے کہا ہمیں عشرت سے بات کرنی ہے تو جواب ملا جی  میں عشرت بول رہی ہوں یہ سن کر ہمارے پاؤں کے نیچے سے تو زمین ہی نکل گئی عشرت بھائ تو عشرت بہن نکلیں ۔بحرحال ہم نے ان سے صبح ساتھ نکلنے کا پروگرام طے کیا اور صبح انہیں لیتے  ہوئے  بذریعہ کریم کار کے پریس کلب پہنچ گئے ۔پریس کلب میں داخل ہوتے ہی ہماری نظر شاہانہ آپا پر پڑی ان سے ملاقات کے بعد ہم نے  عمران راجپوت (علی راج ) بھائی کو کال کی کہ  کہاں ہیں آپ ، تو انہوں نے کہا کلب کے باہر کوسٹر میں آجائیں  ہم کوسٹر کی جانب گئے تو کوسٹر کے گیٹ پر اپنے محسن محترم یعقوب غزنوی صاحب کو پایا  ، کوسٹر کے اندر داخل ہوئے تو  عدیل طیب سے ملاقات ہوئی علی راج بھائی نے ہمیں بتایا کہ یہ آپ کی نشست ہیں سو ہم اس پر براجمان  ہوگئے  پھر دوست آتے گئے اور کارواں بنتا رہا  ، اس طرح ایک کوسٹر اور ایک ہائیکس میں تمام احباب صبح 10:00 بجے پریس کلب سے اگلی منزل کی جانب روانہ ہوگئے  ، دونوں گاڑیو ں میں منظم انداز میں احباب کی تشکیل کی گئی اور ہر گاڑی میں دو میرِ کارواں بھی براجمان ہوئے ایک اینگرو کمپنی کے جانب سے اور دوسرے پی ایف سی سی کی جانب سے، جس کوسٹر میں ہم تھے اس کے میرِ کارواں اینگرو کی جانب سے فواد خان بھائی تھے جب کہ پی ایف سی سی کی جانب سے فیروزی بھائی تھے جب کہ دوسری گاڑی میں اینگرو سے مقداد سبطین بھائی اور پی ایف سی سی سے منصور مانی بھائی۔

ہماری پہلی منزل گھارو مین روڈ پر واقع نیو کیفے عمران تھی جہاں دوپہر کا کھانہ کھایا اور چائے پی  اور تصاویر بنائی گئیں ،اس کے بعد اگلی منزل کی جانب روانہ ہوگئے جو بدین کا ایک چائے کا ہوٹل تھا راستے میں تمام احباب آپس میں خوب ہنسی مذاق کرتے رہے اور کچھ احباب  وقفے وقفے سے نیند کے مزے بھی لیتے رہے ہماری کوسٹر میں فواد خان، زوہیب ، فیروزی بھائی، طاہرہ، شکیلہ،عشرت، شاہانہ آپا، احتشام بھائی، بصیر،علی راج،  عدیل طیب،  نعیم  بھائی  اور ذولفقار بھائی جب کہ دوسری ہائیکس میں مقداد بھائی، منصور مانی بھائی،محترم یعقوب غزنوی صاحب ،محترم سلیم فاروقی صاحب ،انیس منصوری بھائی، ضیاء بھائی، شاہد بھائی  اور علوینہ  وغیرہ  تھے  ۔ اب ہم اپنی اگلی منزل بدین پہنچ گئے تھے بدین میں احباب نے چائے نوش کی اور نماز  ادا کی کچھ تصاویر لی گئیں اور اگلی منزل کی جانب روانہ ہوگئے ۔ نیشنل ہائے وے سے بدین ایک طویل عرصے بعد جانا ہوا تھا تو مجھے یہاں کافی تبدیلی نظر آرہی تھی سڑک کے دونوں اطراف کافی دکانیں ، فیکٹریاں بن چکی تھیں ۔ اب ہم اگلی منزل ننگرپارکر کی جانب رواں دواں تھے  جس روڈ پر سفر کرہے تھے وہ بہت خوبصورت نظر آرہا تھا دور سے ایسا لگتا تھا جسے کوئی اژدھا بل کھاتے گذر رہا ہے دونوں جانب  گندم کی کٹی ہوئی فصلوں کے کھیت ، لہلہاتی ہوئی گنّے کی فصلیں  نہایت خوبصورت نظر آرہی تھیں عدیل، زوہیب، احتشام بھائی ، نعیم بھائی اور شاہانہ آپا وقفے وقفے سے خوبصورت مناظر کو اپنے موبائیل فون میں محفوظ کررہے تھے ۔احتشام بھائی صدا بہار نغموں سے بھی تمام راستے لطف اندوز ہورہے تھے ، فیروزی بھائی تمام احباب  کو کوسٹر پر سوار ہوتے  ہوئے سفر کی دعا پڑھنے کی تلقین کرتے اور جب کوسٹر کسی چڑھتی سٹرک پر دوڑتی تو فیروزی بھائی خود بھی اللہ اکبر کا ورد کرتے اور ہم سب کو تلقین کرتے ان کا یہ انداز بہت بھلا محسوس ہورہا تھا ۔ ہم بھی تمام راستے  وقفے وقفے سے دل میں میں درود شریف اور قرآنی سورتوں کی تلاوت کرتے رہےتھے کیوں کہ  اماں کے انتقال کے بعد  ہر سفر میں ہم خوف میں مبتلا ہوتے ہیں اماں کے جیتے جی تو بڑی لاپرواہی سے سفر کرتے تھے کیوں کہ ہمیں اندازہ تھا کہ جو دعائیں ہمیں گھر سے نکلتے  ہوئے ملی ہیں وہ ایک مضبوط حصار بن کر  ہماری حفاظت کرینگی اور اس سال کے شروع میں تو دعاؤں کا دوسرا دروازہ بھی بند ہوگیا جب والد صاحب بھی انتقال کرگئے۔تو ایک یتیم کا خوفِ سفر کا آپ اندازہ لگاسکتے ہیں ۔

اب سورج ڈھلتے ہوئے غروب کی جانب رواں دواں تھا اس کی کرنوں میں وہ چمک باقی نہ تھی نہ ہی تپش تھی سرخ رنگ میں تبدیل  شائید ایک پیغام دے رہا تھا کہ یاد رکھنا ہر عروج کا ایک زوال ہے خوبصورت منظر کو دیکھتے ہوئے نماز کے لیئے گاڑیوں کو  رکوایا گیا ایک چھوٹی سی مسجد میں نماز ادا کی گئی جس کے باہر تھر کے روایتی گھر چونرے بنے ہوئے تھے ان  چونروں کے حوالے سے خاصی معلومات ہمیں پہلے سے میسر تھیں اور دوران سفر فیروزی بھائی  نے مزید ان کے بارے میں آگاہی دی ۔ تمام احباب  اپنے اپنے انداز سے تصاویر بنا رہے تھے اور ان چونروں سے لطف اندوز ہورہے تھے ، ہمیں روڈ کے اطراف اؤنٹ ، بیل، بھیڑ اور بکریاں چرتے ہوئے نظر آرہی تھیں ۔ اب ہم اگلی منزل  ننگر پارکر کی جانب پھر رواں دواں ہوئے سٹرک کے اطراف اب  ہمیں کافی چونرے نظر آنے لگے تھے  جب کہ مور بھی کہیں کہیں نظر آتے تھے اب اندھیرا چھا چکا تھا کہیں کہیں دور  دور مدھم روشنی نظر آتی تھی جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہاں لوگ آباد ہیں ۔ اب  فوٹو گرافی کا سلسلہ اندھیرے کی وجہہ سے بند ہوگیا تھا  اور ہمیں  منزل کا انتظار تھا ، ہم سب منزل کے منتظر تھے  کہ اچانک گاڑیوں کو روکا گیا اور مقداد بھائی نے بتایا کہ آگے  پاکستان رینجرز کی چیک پوسٹ ہے اور وہاں آپ کا سفری سامان چیک ہوگا مزید انہوں نے بتایا کہ  ہم سے اگر پوچھا جائے تو ہمیں اپنے آپ کو اینگرو کے مہمان بتانا ہے سو ہم تھے بھی اینگرو کے مہمان  اور ہمیں اپنے میزبانوں کی ہدایت کے مطابق ہی چلنا تھا  گویا اس وقت ایک غزل کے ہمیں کچھ مصرعے یاد آئے ۔

بڑا دشوار ہوتا ہے ذرا سا فیصلہ کرنا

کسے کتنا بتانا ہے کس سے کتنا چھپانا ہے

کہاں آواز دینی ہے کہاں خاموش رہنا ہے

کہاں رستہ بدلنا ہے کہاں سے لوٹ جانا ہے

رات تقریباّ ساڑھے نو بجے ہم اپنی منزل پر پہنچ چکے تھے  سفر کی کافی تھکن  ہوچکی تھی لیکن سندھ ٹورزم ڈیوپلیمنٹ   کارپوریشن محکمہ ثقافت و آثارِ قدیمہ  سندھ کا   روپلو  کولہی  گیسٹ   ہاوس دیکھ کر بہت اطمینان ہوا جو کہ بالکل نیا کشادہ ، خوبصورت اور آرام دہ تھا۔تمام دن کی سفری تھکن بہت زیادہ محسوس ہورہی تھی کچھ دیر میں ہمیں بتایا گیا کہ اپنے  کمروں میں چلیں جائیں لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہہ سے کمروں میں دو، تین اور چار لوگوں کے ساتھ رہنے کا انتظام تھا جو کہ تنہا نیند کرنے والوں کے لیئے ایک نہایت مشکل کام تھا ۔ہمارے کمرے میں علی راج بھائی اور انیس منصوری بھائی تھے دونوں حضرات نہایت نفیس اور خوش اخلاق طبعیت کے مالک ہیں ۔ ہم نے کپڑے تبدیل کیئے  تو کھانے کی میز پر مدعو کرلیا گیا ایک طویل میز کے گرد تمام احباب براجمان ہوئے اور ہمارے سامنے عشائیہ سجا دیا گیا  تمام احباب نے کھانا تناول کیا اور پھر اپنے کمروں میں چلے گئے ہم کیوں کہ تمام نمازیں ادا نہیں کرسکے تو وضو کرکے  نماز عشاء اور قضا نماز کی تیاری کی ادھر ادھر دیکھا کہیں ہمیں سمتِ قبلہ کا اندازہ نہیں ہوا  اسی خاطر ہم نے برابر والے کمرے میں موجود  یعقوب غزنوی صاحب سے دریافت کیا انہوں نے ہمیں قبلے کی سمت بتائی تو ہم نے تمام نمازیں ادا کیں نماز کے بعد طبعیت میں  مزید سکون آیا۔ نماز سے فراغت کے بعد کچھ دیر احباب کے ساتھ گیسٹ ہاوس کے باہر بیٹھے  جہاں آنے والے کل کا پروگرام طے کیا گیا جس کے مطابق ہمیں تمام دن  کارونجھر کے پہاڑی سلسلے میں موجود قدیم آثار جن میں مساجد، مقبرےا ور مندر شامل ہیں انہیں دیکھنے جانا ہے اور شام  چھ بجے تھرکول  پاور پروجیکٹ اور مائن کے سائیٹ ایریا  پر خصوصی بریفنگ میں شامل ہونا ہے۔ یہ احکامات  لینے کے بعد ہم نے کمرے کا رخ کیا ہم  کمرے میں تین لوگ تھے دو بیڈ تھے ایک گدّا نیچے ڈال دیا گیا تھا ۔ جوں ہی علی راج واش روم میں گئے ہم نے نیچے والے گدّے پر اپنا  قبضہ جمایا  اور لیٹ گئے جس پر منصوری بھائی نے کہا کہ آپ اوپر لیٹیں ہم نیچے لیٹ جائیں گے لیکن وہ ہمارے استادوں میں ہیں ہم نے پر اعتماد اور حتمی طور پر انہیں کہا کہ آپ سوجائیں اوپر  کیوں کہ ہم گھر میں بھی نیچے ہی لیٹتے ہیں  وہ اس بات سے مطمعن ہوئے ۔اب علی راج واش روم سے باہر آئے اور ہمیں لیٹ دیکھا تو فوری بولے قریشی بھائی آپ اوپت لیٹیں ہمارے انکار پر ہم دونوں میں کچھ دیر بحث ہوتی رہی ہم نے نیچے لیٹنے کے کئی دلائل بھی دئیے جو بے سود ثابت ہوئے اور علی بھائی کمرے کی کونے میں لگی کرسی پر بیٹھ گئے اور حتمی فیصلہ سنا دیا کہ ہم آج لیٹیں گے ہی نہیں  سو ہمیں  مجبوراً   اوپر لیٹنا پڑا ، اب ایک تو باہر اسی گیسٹ ہاوس کے دوسرے حصے میں مقیم لوگوں  جن میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ تھی  ان کے شور شرابے کی آوازیں آرہی تھیں جو نیند کو قریب نہیں آنے دے رہی تھیں دوسرا ہمیں جگہہ کی تبدیلی کے بعد نیند کم ہی آتی ہے ایک اور پرانا  مسئلہ کہ موسم جیسا بھی ہو ہمیں پنکھے چلنے کی آواز آنی چاہیے سو ہم نے سامنے دیوار  پر لگے پنکھے کو آن کردیا جس کے چلتے ہی علی راج بھائی اور منصوری بھائی نے اپنے پیروں کو بھی سمیٹ کر کمبل میں کرلیا لیکن  پنکھے پر کوئی اعتراض نہ کرکے دونوں نے صابر انسان ہونے کا ثبوت دیا۔ تمام رات مشکل سے ایک گھنٹہ ہی نیند آئی ہوگی اب نمازِ فجر کا وقت ہوچکا تھا سو ہم نے نماز اد کی اور چہل قدمی کے لیئے باہر نکل آئے باہر بہت خوبصورت نظارہ تھا سامنے بلند و بالا پہاڑوں کا سلسلہ تھا جو ہمیں رات میں نظر نہیں آیا تھا  خوبصورت صبح طلوع ہورہی تھی بہت خوبصورت منظر تھا اس قدرت  کی مناظر کے کچھ منظر اپنے موبائیل فون میں محفوظ کیئے کچھ دیر بعد ناشتہ لگادیا گیا ناشتے فارغ ہوکر  تمام احباب سفر کی تیاری میں لگ گئے جس کا زکر رات کیا گیا تھا ۔

صبح دس بجے کے قریب ہم اپنی گاڑیوں میں سوار ہوئے اس مرتبہ ہمارے ساتھ ایک ساتھی کا اور اضافہ ہوا وہ تھے سورج  جنہیں مقامی گائیڈ کے طور پر اپنے ساتھ لیا تھا وہ ہمیں ایک پہاڑی سلسلے کی جانب لےگئے جس کا راستہ بہت بلند اور دشوار تھا وہاں ایک قدیم مندر تھا  دونوں جانب بڑے بڑے خوبصورت پہاڑ اور ٹیلے تھے کہیں کہیں ان کے درمیان پانی بھی تالاب کی شکل میں موجود تھا درختوں پر خوبصورت پرندوں کے بہت سارے گھونسلے بہت دلکش منظر پیش کررہے تھے ۔ یہیں کچھ مقامی بچے بھی ہمارے ساتھ ہولیئے جو تمام راستے  ہم سب سے  کو مخاطب کرتے اور ایک جملہ بولتے رہتے  ” چاچا خرچی  ”  یا     ” باجی خرچی  ” جب تک آپ انہیں خرچی نہ دے دیں وہ یہی بولتے ہوئے آپ کے ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے ۔ اس  علاقے کی سیر کے بعد ہم جین مندر کی جانب روانہ ہوئے  اور کچھ دیر بعد ہی اس جگہہ پہنچ گئے وہاں کا نظارہ بہت عجیب تھا ہر طرف بہت  ویرانہ اور اداسی سی تھی  جب ہم جین مندر میں داخل ہوئے تو کئی مقامی بچے چاچا خرچی والے اور دو مقامی افراد مگھنو اور رمیش وہاں آگئے کیوں کہ وہ سندھی زبان ہی سمجھ  سکتے تھے اس لیئے ہم نے سندھی زبان جاننے کا مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے سندھی زبان میں گفتگو کی تو انہوں نے اس مندر اور اس کے قریب واقع مسجد کے سامنے موجود چا رقبروں کے بارے میں ہمیں کچھ معلومات فراہم کیں لیکن ان دونوں کی ہی باتیں کچھ ایک دوسرے سے مختلف نظر ائیں اس لیئے تمام معلومات کو مستند نہیں کہا جاسکتا اس کی دوسری جانب ایک اور مندر تھا مگھنو  ہمیں وہاں لے گیا اور اس  نے مندر کے اندر ہمیں ایک سرنگ دیکھائی جو چالیس کلو میٹر طویل تھی اور اسے جنگوں کے دوران استمال کیا جاتا تھا جو کہ چالیس کلو میٹر دور گھوڑی مندر میں نکلتی تھی ۔مندر اور مسجد کے سامنے نہایت خوبصورت منظر تھا جہاں بہت ہریالی تھی ایک چھوٹی سی جھیل  تھی اس کے گرد کئی جانور چر رہے تھے اس چھوٹی سی جھیل کے بارے میں ہمیں رمیش نے بتایا کہ روایت ہے کہ یہاں سے گذرتے ہوئے محمود غزنوی نے پانی پیا تھا۔ یہاں ناہموار اور پتھریلے راستوں کی وجہ سے ہم  بہت تھک چکے تھے اس لیئے سب نے کیمروں میں یہاں کے مناظر کو محفوظ کیا  ساتھ ہی ہمیں اطلاع ملی کہ اب ہم  ماروی کے تاریخی کنوؤیں جو عمر کوٹ میں واقع تھا  اور ہمارے پروگرام میں شامل تھا  اب نہیں جاسکیں گے کیوں کہ کوسٹر میں کوئی خرابی ہوگئی ہے جسے مرمت کے لیئے ورکشاپ لے جانا ہوگا سو ہم خیر سے واپس گیسٹ ہاوس لوٹے کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ظہرانہ تناول کیا  اور پھر آپس میں گپ شپ کرتے رہے اب ہم تازہ دم  ہو کر پھر سے سفر کے لیئے تیار تھے اب ہمیں سندھ اینگرو  کول مائن کمپنی کی سائیٹ پر جانا تھا سو پھر سفر شروع ہوا اور ہم پہنچے کنٹینروں سے بنے شہر میں جہاں  ہمیں ایک کنٹینر میں لے جایا گیا جو اندر سے ایک بہترین کانفرنس روم  کا منظر پیش کررہا تھا تمام جدید سہولیات سے آراستہ ۔ کچھ دیر توقف  کرنے کے بعد ایک برگیڈئیر صاحب تشریف لائے مختصر تعارف کے بعد انہوں نے  تھرکول پروجیکٹ کے حوالے سے  پروجیکٹر اسکرین کے ذریعے آگاہی دینا شروع کی ساتھ ساتھ ہمیں سوالات کی اجازت بھی تھی احباب اپنے  زہنوں میں آنے والے سوالات کررہے تھے جس کا برگیڈئیر صاحب بڑے پر اعتماد لہجے میں جواب دے رہے تھے  دورانِ  بریفنگ ہمارے زہن میں دو سوال بہت اہم آئے  لیکن  وہی سوال ہمارے ایک دوست نے ان سے دریافت کرلیئے جس کا جواب سن کر ہم مطمعن ہوگئے اور پھر سے اس سوال کو اپنے انداز سے دہرانا مناسب نہیں لگا اور یہ اخلاقی طور پر بھی مناسب نہیں ہوتا اس لیئے خاموشی سے ان کے بات سنتے رہے  ،کچھ ہی دیر بعد  یہ بریفنگ ختم ہوگئی اور ہمیں   عشائیے  پر مدعو کیاگیا جس کا  کہ کنٹینر کے باہر ہی انتظام تھا جب کہ ہمارے علم میں یہ بھی تھا کہ آج  کے پروگرام میں  محفل موسیقی بھی شامل ہے سو جیسے ہی باہر آئے تو ہمیں سامنے اسٹیج نظر آیا جہاں بیٹھے سازندے دھیمی دھیمی آواز میں ساز بجا رہے تھے چاروں جانب لوگ بیٹھے تھے کیوں کہ یہاں ہمارے وفد  کے علاوہ بھی  دو  وفود مدعو تھے جن میں ایک محکمہ کسٹم اور دوسرا پاکستان نیوی کا تھا حاضرین کے درمیان آگ کے تین الاؤ موجود تھے جو ٹھنڈ میں کمی کررہے تھے ۔کچھ دیر بعد ہم نے انہی برگیڈئیر صاحب کو اسٹیج  پر دیکھا جنہوں نے ہمیں بریفنگ دی تھی  پھر تعارف کا سلسلہ شروع ہوا ساتھ ہی تمام وفود میں شامل مہمانوں کو روایتی شالوں کے تحفے پیش کیئے گئے  ان ناموں میں اس خاکسار کا نام بھی پکارا گیا ، ہم جو پہلے ہی  ٹھنڈ سے پریشان تھے دوڑتے ہوئے اسٹیج پر گئے اور اپنی شال وصول کرکے شکریہ ادا کیا اور اسے اپنے گرد لپیٹ لیا یہ شال اس وقت ہمارے لیئے ایک نعمت سے کم نہ تھی ۔ یہاں اینگرو کمپنی کی جانب سے ایک پر تکلف عشائیے کا اہتمام بھی تھا ۔ جہاں منفرد طریقے سے مہذّبانہ  انداز میں قطاروں میں لگ کر  ڈشوں میں سے کھانا  لیا جارہا تھا ، عشائیہ سے فارغ  ہونے کے بعد  گرم گرم چائے کی چسکیوں کے ساتھ موسیقی سے لطف اندوز ہوا جارہا تھا ۔اسٹیج پر ایک گلوکارہ سندھ کے لوک گیت پیش کررہی تھیں اور حاضرین کی فرمائش پر بھی گیت پیش کرتی تھیں سندھ کے ایک مشہور گیت پر ہمارے وفد میں شامل کچھ احباب اسٹیج کے قریب چلے گئے اور سندھ کے لوک رقص کے انداز میں اپنے وجود کو ہلانے لگے ،ہم اپنے چائے کے کپ کے ساتھ ان سب کے رقص سے محظوظ ہورہے تھے   چوں کہ یہ تقریب کھلے آسمان تلے تھی تو ٹھنڈ کافی محسوس ہورہی تھی اگر تھوڑی سے اچھل کود کرلی جاتی تو جسم میں کچھ حرارت پیدا ہوجاتی ہم  نے موقع غنیمت جانا اور اسٹیج کے سامنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ رقص  میں شامل ہو کر ہلکی پھلکی  بدّھوں کی طرح اچھل کود کی جس سے ٹھنڈ میں کچھ کمی محسوس ہوئی اس سے پہلے کہ  ہمارے ہاتھ پاؤں جواب دے جاتے واپس اپنی نشت پر آگئے۔

رات کافی ہوچکی تھی اب واپس اپنے  ٹھکانے پر جانا تھا سو واپسی کا فیصلہ ہوا اس وقت ہماری وہ کوسٹر جو خراب ہوگئی تھی اس کے بجائے ایک دوسری ہائکس پر سوار ہوئے ۔ مقداد بھائی کی رہائش اسی جگہہ تھی اس لیئے وہ  یہیں رک گئے اور ہم سورج اور فواد بھائی کے ساتھ اپنے گیسٹ ہاؤس کی جانب  روانہ ہوئے راستے میں پھر رینجرز کی وہ چوکی آنی تھی اس کے قریب آتے ہی ہم تمام احباب تھوڑے سے پریشان ہوجاتے شائید وجہہ یہ تھی کہ ہم سب کا تعلق کراچی سے تھا  تو ویسے ہی  پریشان ہونا تو بنتا ہے ۔خیر سے ہم اپنےگیسٹ ہاوس پہنچے ہم اپنے کمرے میں نماز پڑھنے میں مصرف ہوئے اسی دوران منصوری بھائی اور علی بھائی کمرے سے باہر دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنے چلے گئے جہاں لکڑیاں جمع کرکے آگ لگائی گئی اور چاروں جانب سب احباب براجمان ہوئے آگ کی تپش کے ساتھ  گیتوں کا  ایک کھیل شروع ہوا جسے ہندی میں انتاکشری کہا جاتا ہے کچھ دیر یہ سلسلہ جاری رہا  اس کے بعد منتظمین یعنی مانی بھائی، فیروزی بھائی اور فواد بھائی کی جانب سے سخت ہدایات موصول ہوئیں کہ صبح 08:00 بجے ہمیں لازمی یہاں سے نکل جانا ہے کوئلے کی کانوں  کی جانب ۔ نئی جگہہ نیند ویسے ہی نہیں آنی تھی اور ان ہدایات کے بعد تو بالکل ہی نہیں آنی تھی سو کروٹ بدلتے ہوئے شائید کچھ دیر آنکھ لگ گئی ، نماز فجر کے لیئے اٹھے نماز کے بعد غسل کیا اور تیار ہوکر باہر چہل قدمی کے لیئے نکل آئے باہر غزنوی صاحب  سے ملاقات ہوئی جو ہم سے پہلے باہر آچکے تھے کچھ دیر چہل قدمی کرکے کمرے میں واپس آئے اور علی بھائی اور منصوری بھائی کو اٹھایا کہ تیاری پکڑیں  کچھ دیر بعد فواد بھائی ہمیں اٹھانےآئے تو ہمیں پہلے سے تیار دیکھ کر مسکرائے اور شکریہ کرکے دوسرے کمروں کی جانب چلے گئے۔ 08:00 بجے ناشتہ ہوا آج ناشتے میں کلیجی تو نہیں تھی لیکن بھنڈی فرائی آج بھی موجود تھیں جو ہمیں پسند ہیں ۔ ناشتے سے فارغ ہوکر  اپنا سامان سمیٹنا شروع کیا کیوں کہ اب ہمیں یہاں واپس نہیں آنا تھا بہت عجیب سا لگ رہا تھا یہاں اس گیسٹ ہاوس سے اس قلیل عرصے میں بھی اچھی خاصی انسیت ہوگئی تھی بحرحال جانا تو تھا سو بوجھل قدموں سے سامان سمیٹ کر بیگ کندھے پر لادا اور حسرت سے اپنے کمرے کو دیکھا اور باہر نکل آئے باہر تمام ہی احباب تیار تھے گیسٹ ہاوس کے باہر گروپ فوٹو بنوایا ، گروپ فوٹو بنوانے کے لیئے زہیب بھائی اور فیروزی بھائی کمال مہارت سے  سب کی قطار ترتیب دیتے تاکہ ہر فرد  گروپ فوٹو میں واضح نظر آئے  اور ساتھ ہی کبھی کبھی فیروزی بھائی کمال مہارت سے اپنی جگہہ بھی بنالیتے تھے۔ اب ہم گاڑیوں میں سوار گیسٹ ہاوس کے تمام محبت کرنے والے عزت کرنے والے ملازمین سے الوداعی ملاقات کرتے ہوئے  روانہ ہوئے  ۔

اب ہم  تھر کول مائن کی سائیٹ پر تھے وہاں مقداد بھائی اور فواد بھائ کے علاوہ بھی ایک اینگرو کمپنی کے نمائیندہ موجود تھے جو اس سائیٹ پر کام کے حوالے سے آگاہی دے رہے تھے وہاں تمام افراد نے  پروجیکٹ سے متعلق سوالات کیا اور اپنے اپنے اداروں کے لیئے  خبریں بنانے میں مصروف رہے اس کے بعد ہمیں پاور پلانٹ پر لے جایا گیا جہاں ایک دیو ہیکل چمنی کو دیکھ کر اندازہ ہوگیا  تھا کہ پاور پلانٹ قریب ہی ہے پاور پلانٹ  پہنچنے پر یہاں بھی تصاویر وغیرہ لیں اور خبریں بنائیں یہاں ہمیں چینی دوست بھی کافی تعداد میں نطر آئے جو پروجیکٹ پر کام کررہے تھے  ۔

اب ہماری  اگلی  منزل تھی  تھر ماڈل ولیج    جہاں ہم تھوڑی ہی دیر میں پہنچ چکے تھے وہاں جو ماڈل گھر بنایا گیا تھا وہ بہت خوبصورت اور کشادہ تھا  جہاں تھر کا روایتی چونرا، پینگھا، برتن، چرخا، لالٹین، چکی، مٹکے، گھڑونچی ، نقش و نگار کی ہوئی چارپائیاں،  الغوزہ   دیگر موسیقی کے آلات اور سندھی رلّی  موجود تھیں ،ایک مکمل ثقافتی گھر جو اندر اور باہر سے نہایت پرکشش نظر آرہا تھا ۔ اس کے بعد ہم دوبارہ   اینگرو کمپنی کے کنٹینروں میں آگئے جہاں ظہرانے کا انتظام تھا ، یہاں ہمیں پہلی بار چاول کے ساتھ گوبھی کا شاشلے کھانے کا اتفاق ہوا جو بہت پسند آیا  کھانے سے فارغ ہوکر ہم  باہر نکلے تو ہمارے سامنے ہماری کوسٹر کھڑی تھی جو ورکشاپ سے مرمت ہوکر واپس لائی جاچکی تھی، اب ہم سب  کوسٹر اور ہائیکس میں بیٹھ چکے تھے جہاں مقداد بھائی نے ہمیں اینگرو کی جانب سے تھرکول کے بارے میں تفصیلات سے متعلق معلوماتی لٹریچر ، پین اوریو ایس بی بطور تحفہ پیش کی ۔ اب ہم  رواں دواں تھے اپنی تھرپارکر کی آخری منزل مٹھی کی جانب جہاں تھرپار کر کےپاکستان پیپلزپارٹی کے  ایم این اے ڈاکٹر مہیش کمار ملانی صاحب نے ہمیں چائے پر مدعو کیا تھا ۔ کچھ دیر بعد ہم اس  چیک پوسٹ پر دوبارہ تھے جہاں کچھ پریشانی ہوتی تھی لیکن آج یہاں سے آخری گذر تھا  کچھ دیر سفر کرنے کے بعد ہم مٹھی میں تھے جو تھرپارکر کا صدر مقام تھا وہاں ڈسٹرک ریسٹ ہاوس میں ملانی صاحب اپنے رفقاء کے ساتھ ہمارے استقبال کے لیئے موجود تھے بہت پر جوش انداز میں سب سے ملنے کے بعد ایک ہال میں  ہمیں بیٹھایا گیا اور ہر فرد کو ایک پرنٹ شدہ پرچہ تھمادیا گیا جس میں تھرپارکر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا تفصیلی زکر تھا ۔ یہاں سوالات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے جوابات  ملانی صاحب پر اعتماد  لہجے میں دیتے رہے  سوال و جواب کے بعد چائے کا دور چلا اور پھر تصاویر بنائی گئیں ۔یہاں سے ہم سب نے ملانی صاحب سے کراچی کے لیئے اجازت چاہی لیکن وہ اسرار کرتے رہے کہ آپ مٹھی کی اس مقام پر چلیں جو ابھی میں نے بنوایا ہے ان کے زیادہ اسرار پر وہاں جانے کا فیصلہ ہوا ملانی  صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے اس مقام پر پہنچنے کے بعد احساس ہوا کہ اگر ہم یہاں نہیں آتے تو شائید اس شاہکار کو کبھی نہیں دیکھ پاتے  ۔ اگر چہ ہم تھر پارکر کے مخصوص اور محدود حصوں تک ہی گئے تھے لیکن ہمیں احساس ہورہاتھا کہ  کئی جگہوں پر خاصے ترقیاتی کام ہوئے ہیں ۔ ہم مٹھی کے جس فر فضاء مقام پر کھڑے تھے وہ کچھ کچھ کراچی کے ہل پارک سے مشابہہ تھا  تمام شہر اس جگہہ سے نظر آتا تھا  ایک اچھا کام تھا سو دل کھول کر تعریف بھی کی۔ وہیں اسی مقام پر ہمیں ملانی صاحب کی جانب سے روایتی شال بطور تحفہ پیش کی گئیں۔ فیروزی بھائی اور زوہیب بھائی نے گرپ فوٹو کی ترتیب بنائی اور فوٹو  کا سیشن مکمل ہونے کے بعد ہم  کراچی کی جانب روانہ ہوگئے ، سورج راستے میں ڈھل چکا تھا اندھیرا تیزی سے چھائے جارہا تھا ہم سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ عدیل طیب ہمیں گاہے بہ گاہے  سیل فون پر دیکھ کر بتارہے تھے کہ ہم کہاں تک پہنچے    اب ہمیں  گھارو پر کیفے نیو عمران میں رات کے کھانے کے لیئے رکنا تھا تو بس یہی انتظار تھا کہ جلد گھارو آئے اور ہم کراچی جلد از جلد پہنچ جائیں تاکہ  گھروں تک پہنچنے کے لیئے   ٹرانسپورٹ مل جائے ۔ خدا خدا کرکے گھارو آیا  وہاں رات کا کھانا تناول کیا  جو کم و بیش وہی تھا جو ہم نے یہاں آتے ہوئے  تناول کیا تھا  ، کھانے کے بعد چائے کا دور چلا اور اب یہاں فیصلہ ہوا کہ تمام احباب کی گاڑیوں میں اس طرح تشکیل دی جائے تاکہ سب آسانی سے گھر تک پہنچ جائیں اس غرض سے دونوں گاڑیوں میں احباب کا حسب منشاء تبادلہ ہوا  اور منزل کی جانب نکل گئے گھارو سے کراچی پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگا کیوں کہ روڈ خالی تھا اور اتوار کا دن تھا جس کی وجہہ سے بھی ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا  اس لیئے ہم اپنے گھر رات 12 بجےکے قریب پہنچ گئے ۔ خیر خیریت سے گھر پہنچنے پر اللہ کا شکر ادا کیا اور پرسکون نیند کے لیئے اپنے کمرے میں چلے گئے لیکن تمام رات تمام مناظر کبھی جاگتے اور کبھی سوتے میں خواب کی صورت نظر آتے رہے ۔

تو یوں ایک سہانہ سفر تھا  جو تمام ہوا بہت کم سفر ایسے ہوتے ہیں جن میں ہمیں ہمسفر ایسے ملتے ہیں جو اس سفر کو  ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے زہن میں نقش کردیتے ہیں ۔ اس سفر سے جہاں بہت سی معلومات میسر آئیں وہیں بہت سا پیار خلوص ،  عزت  اور اپنائیت سمیٹنے کا بھی موقع ملا۔ تھر کے  حوالے سے حکومتی غیر توجہی اور لوگوں کا بھوک پیاس سے مرنے کے واقعات کی بھی  بہت حد تک نفی ہوئی ۔ہم وہاں سے بہت پرامید واپس لوٹے ہیں ۔ ان شاء اللہ تھر  چند سالوں میں پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہوگا لیکن اس دفعہ وجہہ توجہہ قحط یا پسماندگی نہیں بلکہ تھر دنیا کا پرکشش سیاحتی علاقہ ہوگا۔

 

Short URL: http://tinyurl.com/yc9byfup
QR Code: