کاکروچ کے دماغ میں شفا بھی

Print Friendly, PDF & Email

کراچی کی آغا خان یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر نوید احمد خان کو جراثیم کی کھوج نے اپنے بچوں کے باتھ روم سے کاکروچ کے دماغ تک پہنچا دیا ہے۔ بائیولوجیکل اینڈ بائیو میڈیکل سائنس کے شعبے پروفیسر نوید احمد خان بتاتے ہیں کہ جب ان کے بچے ہوئے تو ہر دوست یہ مشورہ دیتا تھا کہ انہیں غیر صحت مند ماحول میں نہ چھوڑیں اور اینٹی بیکٹیریل صابن دیں۔ ’میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ہم تو اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان جراثیموں اور جانداروں کو تو قدرتی طور پر تحفظ مل رہا ہے جو ان کی اتنی افزائش نسل ہو رہی۔ یقیناّ ان کے اندر کوئی مضبوط مدافعاتی نظام موجود ہے جو انہیں محفوظ رکھتا ہے۔‘ نوید احمد خان برطانیہ کے محکمۂ دفاع کے ساتھ بھی منسلک رہے۔ ان کے مطابق افغانستان اور افریقہ سے کئی برطانوی سپاہی انفیکشن کے ساتھ واپس برطانیہ آئے اور انہیں روایتی اینٹی بائیوٹکس دی گئیں لیکن وہ موثر ثابت نہیں ہوسکیں۔ میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ہم تو اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان جراثیموں اور جانداروں کو تو قدرتی طور پر تحفظ مل رہا ہے جو ان کی اتنی افزائش نسل ہو رہی یقین ان کے اندر کوئی مضبوط مدافعاتی نظام موجود ہے جو انہیں محفوظ رکھتا ہے۔ نوید احمد خان ان کے مطابق اس تجربے نے تحقیق کے لیے مزید راہ ہموار کی اور انہیں یہ خیال آیا کہ موجود صورتحال میں مؤثر اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ان جانداروں پر کام کیا جائے جن کا مدافعاتی نظام فطری طور پر مضبوط ہے اور یہ پتہ لگایا جائے کہ ان میں کس نوعیت کے مالیکیول ہیں۔ کاکروچ کا شمار کرہ ارض کے قدیم جانداروں میں ہوتا ہے جس کی افزائش نسل گندگی اور کچرے میں تیزی کے ساتھ ہوتی ہے۔ بعض محققین کا تو یہ بھی خیال ہے کہ ایٹمی حملے کے بعد بھی اگر کوئی جاندار بچ سکتا ہے تو وہ کاکروچ ہے۔ ان خوبیوں کی وجہ سے ڈاکٹر نوید احمد خان نے اپنی تحقیق کے لیے کاکروچ کا ہی انتخاب کیا۔

بعض محققین کا تو یہ بھی خیال ہے کہ ایٹمی حملے کے بعد بھی اگر کوئی جاندار بچ سکتا ہے تو وہ کاکروچ ہے

کراچی میں آغا خان یونیورسٹی کی لیبارٹری میں کاکروچ کے جسم کے تمام حصوں اور خون کو الگ کر کے ان کا مشاہدہ کیا گیا اور بالاخر ڈاکٹر نوید کی ٹیم یہ راز معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئی کہ کاکروچ کا مدافعاتی نظام مضبوط کیوں ہے؟ ڈاکٹر نوید احمد خان کا کہنا ہے کہ کاکروچ کے دماغ سے انہیں 9 اینٹی بیکٹریل مالیکول ملے ہیں جن کی وہ اب شناخت کر رہے ہیں تا کہ مستقبل میں ان کا کیمیائی تجزیہ کرسکیں اور جب کیمیکل کی شناخت ہوجائےگی تو اس کو تیار کرکے مارکیٹ میں مہیا کیا جاسکے گا۔

 
  مالیکیول کے شناخت اور کیمیل کی تیاری کے بعد اس کا جانوروں اور بعد میں کسی رضاکار پر آزمایا جائے گا اس پورے مرحلے میں ابھی کم سے کم بھی دس سال کے عرصہ درکار ہے
Short URL: http://tinyurl.com/j7gxm2j
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *