کارپوریٹ این جی اوز۔۔۔۔ تحریر : سید صادق حسین شاہ

Syed Sadiq Hussain Shah
Print Friendly, PDF & Email

وطنِ عزیز پاکستان میں سینکڑوں کی تعداد میں غیر منافع بخش سماجی تنظیمیں زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ ان کی کارکردگی ہر لحاظ سے قابلِ ستائش ہے۔ موجودہ دور میں یہ این جی اوز ریاستی اداروں کی معاونت اور سماجی اداروں کو ایک حد تک شکست و ریخت سے بچانے میں بھر پور کردار ادا کررہی ہیں۔ ایسے ادارے معاشرے کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے ان اچھے اداروں کی آڑ میں چند نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں قائم ہو چکی ہیں جن کا بنیادی مقصد انسانی خدمت کے بجائے انسانیت کا استحصال کر کے پیسا بنانا ہے۔
1991ء کے بعد مغربی ممالک کے فنڈز سے چلنے والی این جی اوز نے تیسری دُنیا کے بہت سے ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کیا۔ چونکہ یو ایس ایس آر اب چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو چکاتھا۔ اس لیے تمام اشتراکی بلاک بری طرح مغربی دباؤ کا شکار ہوگیا۔ پاکستان میں چند قوتیں روس کے زیرِ اثر تھیں، بالخصوص مزدور یونین بہت حد تک اشتراکی نظام سے متاثر تھیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بائیں بازو کی سیاست کرنے والے پڑھے لکھے نوجوان طبقے کو اپنا مستقبل تاریک نظر آیا تو انہوں نے اپنے لیے نئی منڈیوں کی تلاش شروع کردی۔
این جی اوز میں ملازمت کے بہت سے مواقع تھے لہٰذا غنیمت جانتے ہوئے روسی نظام کے سابق دلدادہ افراد چھلانگ لگا کر ترازو کے دوسرے پلڑے میں جا بیٹھے۔ ایسی تنظیموں کی نوکری کرنے لگے جن کا ایجنڈا اشتراکی نظام کی مخالفت طے تھا۔ آج بھی روس اور چین میں ان تنظیموں کے کام کرنے پر پابندی برقرار ہے۔
بائیں بازو کی اکثریت نے ماضی کو یکسر نظر انداز کر کے غیر ملکی دوروں اور ڈالروں کا پرکشش پیکج قبول کرلیا۔
فنڈز کا براہ راست حصول خاصا دشوار تھا، راستے میں جو رکاوٹیں حائل تھیں انہیں دور کرنے کے لیے بیوروکریسی کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ سرمایہ کاری اور ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر عوامی فلاح و بہبود کے نام پر کروڑوں روپے کا کاروبار تھا۔ اس لیے دونوں نے مل کر چمکدار نعروں کے ساتھ عوام کو بے وقوف بنانا شروع کردیا۔
مغربی ممالک میں عوامی سرمائے کا استعمال قابلِ محاسبہ ہے، اس لیے وہاں کے حکمران دوسرے ممالک میں کسی طرح کی بھی سرمایہ کاری کرتے وقت عوام کو مطمئن کرتے ہیں کہ اس رقم کے استعمال سے ہزاروں غریب اور مستحق افراد مستفید ہونگے۔ جس کے باعث ہمارے ملک کی ساکھ بہتر ہوگی۔ اب یورپ اور امریکہ والے اسلام کی ترویج کے لیے توسرمایہ کاری کرنے والے نہیں ہیں۔ یقیناََ اس سخاوت کے پیچھے ان کا اپنا ایک ایجنڈا ہوتاہے جس کی تکمیل کسی نہ کسی صورت میں کروا لیتے ہیں۔
اگر آ پ کو یاد ہوتو ماضی قریب میں ضلع میانوالی کے چند علاقے جن میں میانوالی شہر، کندیاں ، واں بھچراں، داؤدخیل اور کالاباغ شامل ہیں میں اشتراکیت کے باقاعدہ سٹڈی سرکل ہوا کرتے تھے۔ روسی انہدام کے بعد ماضی کے کامریڈوں نے ان مقامات پر اپنی اپنی این جی اوز قائم کرلیں۔ سٹڈی سرکل کے دوران ان کامریڈوں کے اپنے بہت سے ہم خیال لوگوں کے ساتھ روابط استوار ہوچکے تھے اور اب وہ تمام لوگ قومی سطح کی این جی اوز میں کلیدی عہدوں پر فائز تھے۔ اس لیے کامریڈوں کے لیے پراجیکٹ کا حصول انتہائی آسان ہوگیا۔
سرمایہ دارانہ نظام کی ایک صفت ہے کہ وہ اجتماعی فائدے کے بجائے انفرادی مفاد کو تقویت پہنچاتاہے۔ لہٰذا سابقہ اشتراکیوں نے بھی اب ہر قیمت پر سرمایہ جمع کرنے کی ٹھان لی۔ عوامی فلاح و بہبود کے نام پر ذاتی مفادات کی جنگ شروع کردی۔ انقلابیوں کی اکثریت اب ساہوکاروں کے روپ میں جلوہ افروز ہونے لگی۔
وسیع پیمانے پر روپے پیسے کا لین دین شروع ہوا تو کنسل ٹینسی کے نام پر ایک اور شعبہ معرضِ وجود میں آگیا۔ جس کا کام پراجیکٹ ڈیزائن کرکے ڈونر ایجنسیوں تک رسائی اور فنڈز کا اجراء ٹھہرا۔ کنسلٹنٹ دس سے پندرہ فیصد کمیشن ایڈوانس حاصل کرکے پراجیکٹ دلوانے کے پابند تھے۔ اس شعبے میں بھی بہت سے سادہ لوح سماجی کارکنوں کے ساتھ دھوکہ ہواہے۔
ضلع میانوالی کی چند تنظیمیں جو کہ دلالوں کے ذریعے براہ راست پراجیکٹ حاصل کرتی ہیں ، ان کے سابقہ دس سالوں کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو انہوں نے مختلف ڈونر ایجنسیوں سے کروڑوں روپے کے فنڈز حاصل کیے ہیں لیکن ان پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کیاہوگا۔
ان کی آڈٹ رپورٹس بھی فرضی ہوتی ہیں اور وہ بھی صرف پراجیکٹ کے حصول کے لیے تیار کرائی جاتی ہیں۔ درجنوں ایسی آڈٹ کمپنیاں ہیں جو پیسے لے کر آڈٹ رپورٹس تیار کر دیتی ہیں۔ ایک دہائی سے یہ لوگ عوامی فلاح و بہبود کے نام پر کروڑوں روپے کما چکے ہیں۔ یہ خود تو امیر ہوگئے ہیں، عوام ان پراجیکٹس سے کتنے مستفید ہوئے ہیں اس کا اندازہ رائے عامہ کے جائزوں سے بخوبی لگایا جاسکتاہے۔
چونکہ زیادہ تر پروگرام چار دیواری تک محدود ہوتے ہیں اور واجبی تعلیم کے حامل مخصوص افراد کے ساتھ منعقد کیے جاتے ہیں، اس لیے ضلع میانوالی میں کام کرنے والی این جی اوز نے فلموں میں کام کرنے والے ایکسٹرا اورا سٹنٹ مین کی طرح کردار پیدا کیے ہیں جو صرف پکوڑے سموسے کھا کر خوش ہوجاتے ہیں۔ انہیں اس بات کا قطعی ادراک نہیں ہوتا کہ ہمارے نام پر حاصل کیے گئے کروڑوں روپوں میں سے یہی پکوڑے سموسے ان کے حصے میں آئے ہیں۔
پراجیکٹ ڈیزائن کرتے وقت اس میں ہر سرگرمی کا بجٹ اور ملازمین کی تنخواہ مقرر کر دی جاتی ہے۔ این جی اوز کے مالکان اپنے ملازمین کو بھی نصف تنخواہ ادا کرتے ہیں اور سرگرمیوں کے بجٹ میں سے بھی نصف سے زیادہ رقم خورد برد کرتے ہیں۔
زیادہ تر پروگرام چونکہ فرضی ہوتے ہیں ، اس لیے دودہائیاں گزر جانے کے باوجود معاشرے میں حقیقی سماجی کارکن اور رضاکار خال خال نظر آتے ہیں ۔اگر ان افراد کی مناسب تربیت کی جاتی تو یقیناََ اب تک سماجی کارکنوں کی ایک کھیپ تیار کی جاسکتی تھی۔ موجودہ کارکردگی کے نتیجے میں تو صرف چند ایکسٹرا اور اسٹنٹ مین ہی پیدا ہوئے ہیں جو کہ ہر پروگرام کی زینت ہوتے ہیں۔
ضلع میانوالی میں ایک سموسہ پکوڑا آرگنائزیشن کا دفتر سیل بمہر ہوا ہے۔ مزید کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام اور ریاست کے ساتھ غداری کے عوض پیسا کمانے والوں کا محاسبہ ضروری ہے۔ جو لوگ ان کے ذاتی کردار سے واقف ہیں ، متعدد بار ان کا اصلی چہرہ دیکھ چکے ہیں۔ بار بار دھوکہ نہ کھائیں۔ اچھا کام کرنے والے اداروں اور افراد کا ساتھ ضرور دیں جو صرف انسانی خدمت پر یقین رکھتے ہیں۔
وہ کوٹھی جو تم کو نظر آرہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اداؤں پہ اپنی جو اترا رہی ہے
اس کوٹھی کے گملوں کے پھولوں کو سونگھو۔ ۔ ۔ خونِ غریباں کی بو آرہی ہے

Short URL: http://tinyurl.com/jzk5zjz
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *