پشتون تحفظ موومنٹ( حصہ اوّل)

Mir Afsar Aman
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: میر افسر امان
پاکستان میں پہلے دہشت گردپشتون زلمے ،تحریک طالبان پاکستان ،جیے سندھ ،بلوچستان لبریشن آرمی،مہاجر قومی مومنٹ وغیرہ اور اب فاٹا کے حقوق کے حوالے سے پشتون تحفظ موومنٹ اپنے نام نہاد حقوق کے لیے میدان میں آ گئی۔ پشتون تحفظ موومنٹ نے پشاور میں رینگ روڈ پر کافی لوگوں کو جمع بھی کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ۲۲؍ اپریل کو لاہور اور ۱۹؍ اپریل کو لاہور میں احتجاجی پروگرام کریں گے۔جس میں لاپتہ افراد کی بازیابی اور پاکستان میں پشتونوں کے برابر حقوق کی ضمانت دی جائے۔اسلام آباد میں بھی دھرنا دیں گے۔ دھرنا اُس وقت تک ختم نہیں کیا جائے گا جب تک بین الاقوامی طور پر ضمانت نہ دی جائے۔جبکہ پورے پاکستان میں الحمد اللہ پشتون بھائی رہ رہے ہیں کاروبار کر رہے ہیں۔ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں۔حتہ کہ برادر ملک افغانستان کے مہاجر پشتونوں کی پاکستان کے عوام مہمان نوازی کر رہے ہیں ۔ان پروگراموں کو لیڈ کرنے والے کا نام منظور پشین صاحب ہے۔اس کا ساتھ دینے والے بیرونی آقاؤں،اندرونی قوم پرستوں اور نظریہ پاکستان کے مخالف پیش پیش ہیں۔ ان کے پروگرام میں شرکت کرنے والے اور ان کے حقوق کی حمایت کرنے والے بلوچستان کے قوم پرست لیڈر محمود خا ن اچکزئی صاحب ہیں۔ یہ صاحب نا اہل نواز شریف صاحب کی حکومت کے ۲۰۱۳ء سے اتحادی ہیں۔ یہ فاٹا کو خیبر پختون خواہ میں شامل کرنے کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں فاٹا کے بل کو پاس ہونے سے بھی رُوکا۔ یہ پاکستان کی فوج اور عدلیہ پر تنقید کرتے ہیں۔یہ جس ملک میں رہ رہے ہیں، جس کاکھاتے ہیں، اس ملک کے ایک صوبہ خیبر پختون خواہ کو افغانستان کا حصہ ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ افغانستان کی سرحد پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بہنے والے دریائے اٹک تک ہے۔فاٹا کے منتخب ممبران نے فاٹا کو صوبہ خیبر پختون خواہ میں شامل کرنے کی اپنی مہم کے دوران کہا تھا کہ محمود خان اچکزئی کا فاٹا میں کوئی ایک بھی حمایتی نہیں۔ نہ فاٹا کے کسی گھر پر ان کی پارٹی کا جھنڈا لگا ہوا ہے۔ یہ فاٹا کے عوام کی کسی کی غمی خوشی میں کبھی بھی شریک نہیں ہوئے۔ ان فاٹا کے حقوق کا غم کیوں نڈھال کر رہا ہے؟ 
نام نہادپشتون تحفظ موومنٹ کی طرف سے حقوق کے نعرے کے پیچھے کون ہے۔ اس کا تجزیہ تو کالم کے آخری حصہ میں کریں گے۔ اس سے پہلے نام نہاد حقوق والی تنظیموں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کی کس کس سے ہمدریاں ہیں۔ کہاں کہاں سے ان کو امداد ملتی رہی ہے۔ کہاں کہاں سے ان کی ڈوریاں ہلتی رہی ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو کیا ، کہاں اور کتنانقصان پہنچایا ۔ اللہ نے اس مثل مدینہ ریاست ،جو اللہ کے نام پر قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی قیادت مسلمانان برصغیر کی ان تھک جد وجہد کے نتیجے میں، دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آئی،اس کی مخالف کی وجہ ان کا کیا حشر کیا۔حقوق کے نام پر تحریکیں اُٹھانے والی ان تنظیموں کا بلا آخر انجام کیا ہوا۔ 
سب سے پہلے پشتون زلمے۔پاکستان بنتے وقت پاکستان میں شمولیت کے حق میں اور پشتونستان کی مخالفت کرتے ہوئے خیبر پختون خواہ(سابق صوبہ سرحد) کے غیور پٹھانوں سے ریفرنڈیم میں بری طرح شکست کھانے کے بعد ضرورت اس امر کی تھی کہ قوم پرست،سرحدی گاندھی،سرخ پوش مرحوم عبدالغفار خا ن اُن کے صاحبزادے مرحوم ولی خان صاحب، بانی پاکستان کا ساتھ دیتے ،پاکستان اور اپنے صوبے کی ترقی میں شامل ہو تے۔مگر یہ حضرات ہمیشہ خیبر پختون خواہ(سابق صوبہ سرحد) کو پشتونستان بنانے اور افغانستان سے ملانے کے لیے ناکام سازشیں کرتے رہے ہیں ۔ افغانستان اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ افغان طالبان نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کرکے پشتونستان کے مسئلہ کو دفن کر دیا تھا۔ پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ ہو گئی تھی جس پر لاکھوں فوجیوں کو لگانا پڑھ رہا ہے۔ اب پھر امریکا ، بھارت اور اندرونی قوم پرستوں کی مدد سیافغانستان میں اشرف غنی صاحب کی قوم پرست حکومت قائم کر کے پاکستان پر دبھاؤ ڈالا جا رہا ۔ ولی خان کی پارٹی کے نوجوانوں کی قوم پرست تنظیم ’’پشتون زلمے‘‘ کے نوجوانوں کوولی خان نے ۱۹۷۲ء میں افغانستان میں قوم پرست سردار داؤد کے دورِحکومت میں اس لیے فوجی ٹرینینگ لینے افغانستان بھیجا تھا۔ تاکہ پاکستان کو کمزور کر کے صوبہ سرحد کو پشتونستان بنایا جائے۔ پشتون زلمے ، تنظیم کے نوجوانوں نے افغانستان سے دہشت گردی کی ٹیرنینگ لے کرپورے پاکستان میں تخریبی کاروئیاں کی تھی۔لاہور واپڈا دفتر پر بم مار کر درجنوں بے گناہ لوگوں کو شہید کیا تھا۔ سیاسی مخالف حیات محمد شیر پاؤ صاحب کو شہید کیا تھا۔ اسی وجہ سے ولی خان پرمرحوم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے غداری کا مقدمہ قائم کیا تھا۔ (حوالہ کے لیے دیکھیں ولی خان کی پارٹی کے منحرف کیمونسٹ لیڈر جناب جمعہ خان صوفی صاحب کی کتاب ’’ فریب ناتمام‘‘)قوم پرست ولی خان نے بھارت کے کہنے پر پاکستان میں کالا باغ ڈیم بھی نہیں بننے دیا تھا۔ جس سے پاکستان کو کافی نقصان پہنچا۔ نہ سستی پن بجلی ملی اور نہ ہی آپاشی کے لیے پانی میسرہوا۔ 
الحمد اللہ! ولی خان اپنے عزاہم میں کامیاب نہیں ہوئے۔ خیبر پختون خواہ اب بھی مملکت اسلامی جمہوری پاکستان کا حصہ ہے ۔ اس کے عوام پاکستان اور اپنے صوبہ کی ترقی میں مشغول ہیں۔ پشتونستا ن تو دور کی بات، بلکہ فاٹا کو پاکستان میں شامل کرنے کے لیے نون حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔جہاں تک تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کاتعلق ہے۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی پاکستان مخالف پالیسیوں کی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان بنی۔ جیسے پاکستان مخالفت میں امریکا نے بھی خطے کے قوم پرست قوتوں کے اشتراک سے اپنے ساتھ ملا لیا۔پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان نے امریکا،بھارت، بلیک واٹر، مغربی این جی اوز اور مغربی ایجنسیوں کی مدد سے پاکستان کے سارے دفاعی اداروں، جس میں بری، بحری ، فضائی اڈوں، بازاروں، مسجدوں، امام باڑوں،چرچوں ، بچیوں کے اسکولوں، بزرگوں کے مزاروں اور پارکوں پر منظم حملے کیے تھے۔ پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے گرفتار لوگوں کے گلے کاٹے ،کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیلے۔ بلا آخر پاکستان کی بہادر فوج نے پاکستان کی ساری سیاسی جماعتوں کے مشورے سے بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان کے تحت ضرب عضب آپریشن کے ذریعے ان کے محفوظ ٹکانوں کو ختم کر دیا۔ جس میں فاٹا بھی شامل ہے۔ اب تحریک طالبان پاکستان ختم ہو گئی۔ اس کا سربراہ ملافضل افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ امریکا، بھارت اور قوم پرست افغان غنی حکومت کی سرپرستی میں پاکستان کی مغربی سرحد پردہشت گردی کرتا رہتا ہے ۔ پاکستان کے احتجاج پرامریکا نے اب پاکستان کو افغان طالبان سے لڑانے کے لیے صرف ٹپ دیتے ہوئے اسے مارنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ امریکا جس کو سیٹ لائٹ سے زمین پر ریگنے والے کیڑے بھی نظر آتے ہے ملا فضل اللہ نظر نہیں آتا۔ بحر حال پاکستان میں امن قائم ہو گیا اور تحریک طالبان پاکستان سکڑ کر افغانستان تک محدود ہو گئی۔ اب حکومت پاکستان عوام کی امنگوں کے مطابق امریکا کی جنگ سے باہر نکل آئی ہے۔امریکا کے ڈو مطالبے پر پاکستان کے سپہ سالار نے جواب دیا ہے ’’پاکستان کی ایک ایک اینچ کی حفاظت اور دہشت گردی کے خاتمے کے پاکستانی قوم نے خون دیا ہے۔ اب دنیا ڈو مور کرے۔ اللہ پاکستان کے حفاظت فرمائے۔ آمین۔ (باقی آئندہ کالم میں) 

Short URL: http://tinyurl.com/y3jcn6ms
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *