پاکستانی معاشرے میں میڈیا کا کردار۔۔۔۔ راؤ باسط علی

Rao Basit Ali
Print Friendly, PDF & Email

میڈیا کے بغیر ہماری زندگی نامکمل ہے کیونکہ میڈیا وطن عظیم یا کسی بھی معاشرے کا اہم ترین ستون بلکہ کسی بھی معاشرے کا چھوتا بنیادی ستون تصور کیا جاتا ہے۔دورِ حاضر میں میڈیا کی ضرورت اور مقبولیت میں دن بدن یا یوں کہیں میڈیا کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔موجودہ جدید اور تیز رفتار دور میں معاشر ے میں انسانی زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا عنصر میڈیا ہی ہے ۔اسی میڈیا کا دوسرا نام ذرائع ابلاغ ہے۔ذرائع ابلاغ خواہ وہ اخبار ہو یا ٹیلی وژن ،ریڈیو ہو یا انٹر ٹینمینٹ اس کی اہمیت ہر دور میں برقرار رہی ہے۔ پاکستانی میڈیا نئی نوجوان نسل میں ویژن، سوچ، عمل پیدا کر رہا ہے ۔

آج کی اس جدید دنیا میں میڈیاکو خوراک اور کپڑے کی طرح ضروری سمجھا جاتا ہے کیونکہ میڈیا معاشرے کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میڈیا کی بدولت کلچر فروغ اور ٹرینڈ تبدیل ہو رہے ہیں۔میڈیا ہی ہے جس کے ذریعے معاشر ے میںآگاہی و شعور اور انسانی زندگی کا مجموعی نظام تشکیل پا رہا ہے ۔میڈیا خواہ پرنٹ ہویاا الیکٹرانک کسی بھی شکل میں ہو انسانی شعور کی فراہمی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔میڈیا کی اہمیت و طاقت سے انکار تو بلکل نہیں کیا جاسکتاکیونکہ یہ معاشرے کا آئینہ یعنی، دوسری آنکھ، محتسب اعلیٰ کا کام انجام دے رہا ہے۔۔ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اخبارات ا ور چینلزنے نئی نسل اس قدر معلومات فراہم کی ہیں کہ آج کا بچہ آئندہ ملک کے حالات و واقعات کی پیشنگوئی باآسانی کر سکتا ہے ۔ مذہب، ثقافت، حالات حاضرہ، فیشن، تفریح، تعلیم، صحت ہر طرح کی مکمل معلومات صرف ایک بٹن دبانے کی مرہون منت ہیں۔

اگر یہ بات کہی جائے کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کا مکمل بیڑہ میڈیا نے اٹھا لیا ہے تو غلط نا ہوگا کیونکہ پہلے بچے جو کچھ والدین، دادا،دادیاور اپنے بڑوں سے سیکھتے تھے ،اب وہ سب ٹی وی چینلز سے باآسانی سیکھ رہے ہیں۔ آج کل ویسے بھی والدین کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ بچوں کووقت دے سکیں ۔تو لہٰذابچے الیکڑانک ویڈیو گیمزیا پھر کارٹون نیٹ ورک سے سیکھتے ہیں۔اسی وجہ سے بچے غلط الفاظ بولتے ہیں یعنی وہ الفاظ جو اسلام میں برے یا کفر سمجھے جاتے ہیں وہ بچے سیکھ لیتے ہیں اور اسی کا روز مرہ ز ندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ایسا نہیں کہ سب کارٹوں میں ایسا ہوتا ہے بلکہ کچھ ایسے کارٹون یعنی فلورا دی ایکپلورر جیسے کارٹون بھی آتے ہیں جو بچوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔لیکن زیادہ تر تفریح کے نام پر دکھائی جانے والی کارٹون مووی میں مقصدیت کہیں نظر نہیں آتی۔ ڈزنی لینڈ، ونڈر لینڈ جیسی طلسماتی کہانیوں میں ماورائی مخلوق کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ ہیرو ہیروئن کی داستانیں موجود ہوتی ہیں جو مزاح کے نام پر گھٹیا کلچرکو بچوں میں پروان چڑھارہی ہے۔ کم عمر بچوں کو کارٹون نیٹ ورک اتنا پسند ہوتا ہے کہ وہ کھانا پینا تک چھوڑ کے کارٹون ٹائم میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

دراصل میڈیا کے ہر لحاظ سے منفی پہلو زیادہ نظر آتے ہیں کیونکہ اس جدید اور مصروف دور میں والدین کے پاس اتنا بھی وقت نہیں ہوتا کہ ہ اپنے بچے پر چیک اینڈ بیلنس رکھ سکیں کیبل کے ذریعے تفریح کے نام پر بچوں کی موصومانہ سوچ کوبہت تیزی سے تبدیل کیا جا رہا ہے جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک بچہ سات سال کی عمر میں جو سیکھتا ہے وہ 70 سال کی عمر تک اس کی تربیت کا حصہ بن جاتا ہے یعنی وہ اسی کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتا ہے ۔عوام کے لئے تو میڈیا بہت سی چیزوں کی معلومات کا ذریعہ ہے کیونکہ میڈیا معاشرے کے مختلف حصوں کی تشہیر ،معلومات ،تعلیم اور تفریح کا اہم جز تسلیم کیا جاتا ہے۔اسی میڈیا کی وجہ سے بچوں کی سوچ اتنی خراب ہوتی جارہی ہے کہ سات سال کی عمر کے بعد جب بچہ ذرا بڑا ہوتا ہے تو اسے ٹی وی ڈرامہ اور مووی میں دلچسپی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ بچوں میں سب سے بڑی سوشل تبدیلی آرہی ہے وہ ہے کلچر کی ہمیں اپنا کلچر نہیں پسند آتا کیونکہ ہمارے یہاں ترکی ڈرامے اور انڈین ڈرامے زیادہ دیکھائے جاتے ہیں۔اسی وجہ سے شائقین پاکستانی ڈرامہ بھولتے جارہے ہیں اور مجبوراََپاکستانہ ڈراموں میں بھی وہی جھلک نظر آنے لگی ہے جو انڈین اور ترکی کے ڈراموں میں آتی ہے۔آج اسی وجہ سے نئی نسل یہ سمجھنے لگی ہے کہ ہمارا کلچر بھی ایسا ہی ہے کیونکہ انھوں نے آنکھاسی کلچر میں کھولی ہوتی ہے

پہلے لوگ پی ٹی وی کے ڈرامے دیکھتے تھے مگر آج کی نسل نے اسے دیکھنے انکا ر کردیاہے۔پاکستانی ڈرامہ کو اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے جن مصنوعی طرز زندگی کی تصویر کشی کرنا پڑی نئی نسل نے اسی کو مقصد حیات بنا لیاہے۔اب میڈ یا کا زیادہ تر استعمال افواہ پھیلانے ،چھوٹ بولنے ،لوگوں کا نظریہ تبدیل کرنے اور یہ بھی کہا کاسکتا ہے کہ پیسے کمانے کا ذریعہ یا یوں کہیں کہ چینل کی ریٹینگ ،اخبار کی فروخت میں اضا فہ کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا دنیا کو ایک عالمی گاوّں بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔اور علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے درمیان مواصلات کے فرق کو کم کر نے کی کوشش کرہا ہے ۔لیکن بدقسمتی کہ ان دنوں میڈیا کو چیزوں کی خرید وفروخت کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ٹیلی وژن کا تو مقصد ہی اب یہ بن چکا ہے کہ پوانٹس کی درجہ بندی میں زیادہ سے زیادہ اضا فہ ہوسکے۔اس کی مثال آپ کو ایسے پروگرام سے دی جاسکتی ہے جس کا مقصد ہے لوگوں کو فری کا سامان دیا جائے اور لوگ فری کے سامان کے لئے غیر اخلاقی ہر کتیں کرنے کو بھی تیا ر ہوجاتے ہیں ۔ایک چیز بہت مشہور ہوئی ہے اس سے جو ایک بہت ہی غلط سوچ کو پیدا کرے گا جیسے بات بات پے مسلمانوں تککا لگاؤ وغیرہ۔

پاکستان میں ویسے تو بے شمار چینلزہیں اور دیکھا جائے تو ہر کسی نے اپنی دکان کھول رکھی ہے۔ایک دوسرے سے اگے نکلنے کی ڈور میں اپنے فرائض بھولتے جارہے ہیں۔یعنی سچ اور چھوٹ ،حلال اور حرام کی تمیز تک بھول گئے ہیں۔ایک کام بخوبی کرنا آتا ہے میڈیا کو اور وہ یہ ہے کہ ہر جائز چیز کو ناجائز اور ناجائز چیز کو جائز طریقے سے لوگوں تک مرچ مصالحہ لگا کر خبریں پھیلاناہے۔اس افواہ سازہ اور چھوٹ پھیلانے میں جو میڈیم زیر استعمال ہے وہ زیادہ تر تی وی جینل اور سوشل میڈیا کا ہے۔

اب سوشل نیٹ ورکینگ کی بات کی جائے تو شوشل نیٹ ورکینگ سائٹس کی مقبو لیت میں گزشتہ دہائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔اسکول ہویا کالج یا پھر ہو یونیورسٹی شوشل میڈیا نوجوانوں کے عالمی رسائی حاصل کرنے کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ بن گیا ہے۔فیس بک ہو یا ٹیوٹر یاہو کوئی اور شوشل سائٹ نوجوانوں کے لئے ریگینگ کریز بن گئی ہیں اور اگر بات کی جائے شوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے اثرات کی تو اسکے منفی اثرات ،مثبت اثرات سے زیادہ ہیں۔دراصل شوشل میڈیا سے مراد آپس میں بات چیت کا ایسا فورم ہے جہاں مختلف لوگ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔پہلے وقتوں میں شوشل میڈیا سے مراد صرف ٹیلی ویثرن کو ہی سمجھا جاتا تھا۔جہاں لوگ مسائل کو ڈسکس کر تے تھے اوروہ رسائی حاصل کرنے کا ایک کنٹرول میڈیم تھا۔انٹر نیٹ کی ایجاد نے بہت سی آسانیاں تو پیدا کیں مگر اس کے ساتھ ساتھ بہت سی مشکلات بھی پیدا کر دیں ہیں۔شوشل میڈیا کے کیا فوائد ہیں اور کیا نقصانات یہ ایک لمبی چوڑی بحس ہے۔لیکن چند چیزیں واضح نظر آتی ہیں۔جیسے نوجوانوں میں تحقیق کا ذوق ختم ہوگیا ہے جلد بازی اور سونی سونائی باتوں کو بلا تحقیق آگے بڑھا دیتے ہیں۔یہی نہیں اس کا صحت پر بھی بہت گہرہ اثرمنظر عام پرآیا ہے جِیسے زیادہ تر لوگ شوشل سائٹس کے زیادہ استعمال سے نفسیاتی اور ڈیپریشن کا شکار ہورہے ہیں۔

آج نوجوان نسل کا یہ عالم ہے کہ جو کچھ ٹی وی چینلز پر دیکھتے ہیں اُسے ہر قیمت پر عملی زندگی میں اپنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور اس طرح ایک مخلوط سا کلچر فروغ پا رہا ہے جس میں انڈین، مغربی، مشرقی تمام ثقافت روایات مکس ہو کر رہ گئی ہیں اور بحیثیت مسلم ہماری اصل شناخت ختم ہوتی جارہی ہے ۔ اسی وجہ ہماری نسل مشرقی جیولری سے لے کر ملبوسات تک بھولتے جارہے ہیں اور مغربی جیولری میک آپ اور ملبوسات اپنا نے لگے ہیں۔خاص طور پر انڈین ڈراموں اور تر کی کے ڈراموں کی بات کروں تو یہ ڈرامے نوجوان نسل کی زندگی میں اس حد تک سرائیت کر چکے ہیں کہ ڈراموں میں دکھائی جانے والی فیملی پالیٹکس کو جس مثبت انداز میں دکھایا جاتا ہے اسے اپنانے لگتے ہیں۔جیسے ساس بہو اور دیگر رشتوں کا تقدس مجروح کیا جارہا ہے ۔ اب ہر لڑکی یہی سمجھتی ہے کہ اس نے کس سیاست سے نئی زندگی میں آنے والے رشتے داروں سے سلوک رکھنا ہے ۔انڈین ڈراموں کی اس پالیٹکس سے ہماری مذہبی رواداری اور بھائی چارے کا تصور دھندلانے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ سماجی بندھن ٹوٹ رہے ہیں۔ اخلاقی قدروں کا خاتمہ ہو رہا ہے اور رشتے ناطے محض فارمیلٹی کے تحت نبھائے جا رہے ہیں۔ حقیقی پیار محبت ختم ہونے سے انسانی زندگی مصنوعی پن کا شکار ہو کر رہ گئی ہے اور اس مصنوعی پن کو آج کی نوجوان نسل نے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے کیونکہ ان کے سامنے زندگی کی یہی تصویر کشی کی گئی۔ اس تصویر کشی میں سب سے اہم کردار میڈیا نے ادا کیا اور نئی نسل نے جو دیکھا وہیں سے سیکھا۔ مصنوعی پن ظاہری زندگی پر اس حد تک اثر انداز ہوا کہ اب زندگی کا اصل روپ نوجوان نسل اسی مصنوعی پن کو سمجھتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈراموں اور موویز میں دکھایا جانے والا پرتعیش طرز زندگی نئی نسل میں مادہ پرستی کو فروغ دینے لگا۔ لگژری گاڑیاں، بنگلے اور انسانی منفی رویوں کو میڈیا نے جس انداز میں پیش کیا نئی نسل کی تربیت اسی انداز پر ہونے لگی ہے۔آج نئی نسل میں اکثریت ایسے نوجوانوں کی ہے جن کی مذہب جیسے حساس معاملے پر کوئی ایک رائے نہیں ہے وہ کبھی مذہب اسلام کو بہترین سمجھتے ہیں تو کسی حد تک ہندو ازم یا عسائیت سے متاثر ہوکراُن کے بہت سے نظریات کو صحیح سمجھتے ہیں اور کسی ایک مذہبی نظریے پر متفق نہیں رہتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مذہب اسلام کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ میڈیا کے مختلف چینلز سے جو نظریات نشر ہوتے ہیں انہوں نے مکس کر کے ایک نئی سوچ کو جنم دیا جس کے تحت انسانی رویے آگے اور مذہب کی اہمیت پیچھے رہ گئی اور نئی نسل یہ تک بھول گئی کہ انسانی رویے مذہبی عقائد کی بدولت ہی تشکیل پاتے ہیں اور مذہب ہی وہ بنیاد ہے جس کی بنا پر زندگی کا ضابطہ حیات ترتیب دیا جاتا ہے ۔ مختلف چینلز سے نشر ہونے والے مختلف نوعیت کے پروگرام نے ایک عجیب و غریب سوچ پیدا کردی ہے، جس نے صحیح غلط کی تمیز کو ختم کر دیا اور رویوں عقائد کے حوالے سے یہ تفریق مٹا دی کہ یہ صحیح ہے اور یہ غلط کیونکہ ان چینلز کے اکثر پروگرامز کا واحد مقصد خود کو مقبول عام بنانا تھا نہ کہ کسی اخلاقی مقصد کو فروغ دینا۔ رہی سہی کسر کمرشلزم اور گلیمر نے پوری کر دی خود کو زندہ رکھنے کیلئے ان نشریاتی اداروں اور اخبارات نے کمرشلزم کا سہارا لیا اور گلیمر کے بل بوتے پر جو مقبولیت حاصل کی نئی نسل نے اس گلیمر کو زندگی کا لازمی حصہ سمجھ لیاہے

میڈیا نے تعلیمی شعور کے حوالے سے مثبت کردار ادا کیا ہے کہ تعلیم ضرور حاصل کریں۔کیونکہ تعلیم سوچوں کع وسعی کرتی ہے اور مستقبل روشن کرتی ہے ۔لیکن آفسوس کہ میڈیا تعلیمی شعور سے آگاہی دینے کے باوجود نئی نسل کی سوچ کا زاویہ متعین نی کر سکا کہ آیا ڈگری حاصل کر لینے سے علم زندگی کا حصہ نہیں بن سکتا۔ٹی وی پر بہت کم پروگرم ایسے آتے ہیں جن کا تعلیم سے کوئی تعلق ہو ہاں زیادہ تر ڈراماٹئزٹ فلمیں زرور نظر آتی ہیں اور ان فلم سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ بھی کچھ کم نہیں۔اس طرح کی فلموں سے کرائم جنم لیتے ہیں ۔انسان وہ چیز جو کبھی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا وی کام کرجاتا ہیاور اس طرح کے پروگرمز سے انسان احساس کمتری کا شکار بھی ہوجاتا ہے اور اپنے ماں باپ سب گھر والوں کو قتل تک کردیتا ہے یہ سب میڈیا کا ذریعہ معاشرے میں پروان چڑھایا جارہا ہے۔ٹی وی پروگرامز میں بہت کم تعداد ایسے پروگرامز کی ہے جو حقیقی معنوں میں نئی نسل کو تعلیم سے بہرہ ور کریں یا تعلیمی مقصدیت فراہم کریں۔ اس لئے نئی نسل میں بس ڈگریاں حاصل کرنے کا ٹرینڈ فروغ پا رہا ہے نہ کہ علم حاصل کرنے کا۔ اس کے علاوہ آج کی نئی نسل نے تعلیم حاصل کرنے کا واحد مقصد پیسہ کمانا بنا لیا ہے کہ اس ڈسپلن میں تعلیم حاصل کی جائے جس میں روزگار کے مواقع ہوں تاکہ معیار زندگی بہتر ہو۔ میڈیا سے نشر ہونے والے ڈراموں میں اگر سوچ مثبت رویوں کے ساتھ پیش کی جائے تو نئی نسل جلدی اثر لے لیکن افسوس کہ ڈرامہ اور فلم میں تو منفی رویوں کو بطور ہیرو پیش کیا جا رہا ہے نئی نسل اس سے کیا نتائج اخذ کرے گی یہی کہ منفی اقدامات سے جو مقاصد حاصل ہوتے ہیں اس لئے ایسے رویے اختیار کرنے چاہئیں کیونکہ میڈیا یہ سب کچھ دکھا رہا ہے اور نئی نسل میڈیا کو رول ماڈل سمجھے ہوئے ہے ۔جو کچھ ٹی وی پر دیکھتے ہیں اسی کو عملی زندگی میں اپنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں اس طرح میڈیا جو اُن کی عملی تربیت کا کردار ادا کرتا ہے ۔میڈیا لوگوں کے نقطہ نظر کو متاثر کرتی ہے ہر چیز میں میڈیا کی بہت زیادہ مداخلت تشویش کی بات ہے۔

پاکستان میں میڈیا کے کام پر نظر رکھنے کے لئے ایک حکومتی ادارہ بھی موجود ہے جسے پیمرا کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔جس کا کام ہے میڈیا پر ہر طرح سے نظر رکھنا ایک وچ ڈوگ کی طرح تاکہ کوئی ایسی بات عوام میں نا پھیلے جس سے کسی قسم کا کوئی نقصان ہو۔مگر ایک بار پھر آفسوس کے ساتھ کھنا پڑ رہا ہے کہ پیمرا جیسا ادارہ بھی اس کام کو ٹھیک سے انجام نہیں دے رہا۔اخبارات کو محض کاروباری مقاصد کے تحت نہیں بلکہ نظریاتی مقاصد کے تحت کام کرنا چاہئے ۔ اس طرح دیگر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا یا پھر ہو سوشل میڈیا کو قومی نظریے کے تحفظ کیلئے استعمال کرناچاہئے ۔کیونکہ جب تک ہمارے پاس نظریات نہ ہو ہم اپنی اقدار کا تحفظ نہیں کر سکتے۔میڈیا کی پالیسیز بھی نوجوان نسل پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے میڈیا کی جو پالیسی ترتیب دی ہے کہ وہ ہمارے کلچر اور مذہب سے متصادم ہے اسے ہم بیرونی دنیا کا مقابلہ کرنے کیلئے مجبوری کہہ لیں یا عوامی آواز کو دبانے کیلئے بہلاوا یہ حقیقت ہے کہ میڈیا سے متعلقہ موجودہ پالیسیاں نئی نسل کو بے راہ روی کی جانب گامزن کر رہی ہیں۔ آج جو کچھ میڈیا کے ذریعہ ہو رہا ہے اس کے مضر اثرات صدیوں تک ختم ہونگے ۔پاکستانی میڈیا کی جانب نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح غیرملکی چینلز کی بلارکاوٹ ہمارے ملک میں 24 گھنٹے چلنے والی نشریات معلومات سے زیادہ فحاشی کا سیلاب نوجوان نسل میں پھیلا رہی ہیں اور نئی نسل کے ذہنوں کو متاثر کر رہی ہیں۔

میڈیا کے اس کردار کی وجہ سے زبان میں بھی ہندی اور انگریزی کے الفاظ استعمال کرنے سے نئی نسل وہی کچھ سیکھ رہی ہے ۔ جو ٹی وی پر دیکھایا جا رہا ہے ۔ اس طرح فروغ پانیوالا کلچر ملکی ثقافتی سرحدوں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے ۔اس سے سب سے بڑا اور واضح مسئلہ جو سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ شادی کی رسومات میں ہندوانہ طرز انداز غالب ہوتا جارہا ہے۔میڈیا کا مکمل جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہایک ایسا ستون ہے جو کسی بھی معاشرے کی رائے عامہ کی تشکیل کرتا ہے اور اگر اس پر مکمل قابو پانے کے لئے کوششیں کی جائیں تو ملک کے ادھے سے زیادہ مسائل خود بخود ٹھیک ہوجائیں گے۔

Short URL: http://tinyurl.com/ztfspmc
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *