پانی انمول نعمت ہے، قدر کیجئے

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: اسماء طارق، گجرات

 پچھلے دنوں یوٹوب پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ کیسے 2050 میں لوگ پانی کو  چھپا چھپا کر لاکرز میں رکھیں گے اور چور ڈاکو پیسے  اور سونے کو چھوڑ کر پانی کی چور کریں ۔ دیکھنے میں ویڈیو کافی مذاحقہ خیز لگی مگر اگر اسی رفتار سے ہم پانی کا بے دریغ استعمال کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہمیں یہ دن دیکھنا پڑے۔پانی انسانی زندگی کا نہایت اہم غذائی جزو ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ پانی ہی زندگی ہے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اب تک دریافت شدہ کروڑوں سیاروں اور ستاروں میں سے ہماری زمین ہی وہ واحد سیارہ ہے جہاں زندگی پوری آب تاب کے ساتھ رواں دواں ہے اور اس کی واحد وجہ یہاں پر پانی کا ہونا ہے ۔  تحقیقاتی ٹیموں کے  مطابق اس وقت دنیا میں جس رفتار سے پانی کی کمی کا مسئلہ  پیش آ رہا ہے ڈر ہے کہ  کہیں پانی کا بھی عالمی دن نہ منانا پڑ جائے ۔اس زمر میں بہت سے وجوہات ہیں جو پانی کی کمی کا باعث بن رہی ہیں ،ماحولیاتی آلودگی اس میں سرفہرست ہے، فیکٹریوں اور کارخانوں کا ناقص نظام جو زیر زمین پانی کو بہ حد تک گندہ کر رہا ہے ۔آلودگی قدرتی ماحول کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ  قدرتی وسائل کو بھی متاثر کرتی ہے ۔ 2003ء اور 2013ء کے درمیان زمین کے پانی کے سینتیس سب سے بڑے زیرِ زمین ذخائر کا مشاہدہ کیا گیا تھا ۔ ان میں سے آٹھ ذخائر کے حوالے سے سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ اُن پر ’حد سے زیادہ دباؤ‘ ہے ، دوسرے لفظوں میں یہ کہ ان ذخائر میں موجود پانی تیزی سے باہر نکالا جا رہا ہے اور ایسا کوئی قدرتی طریقہ موجود نہیں ہے کہ یہ ذخائر دوبارہ پانی سے بھر جائیں۔ پانچ دیگر آبی ذخائر کو ’انتہائی زیادہ دباؤ کے شکار‘ قرار دیا گیا۔سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے زیرِ زمین آبی ذخائر کی حالت اور زیادہ خراب ہو جائے گی۔ سب سے زیادہ دباؤ کے شکار زیرِ زمین آبی ذخائر دنیا کے خشک ترین مقامات پر ہیں، جہاں ان ذخائر کے پھر سے بھر جانے کے لیے کوئی قدرتی ذریعہ موجود نہیں ہے۔پاکستان بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں  پانی کی قلت ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ کبھی تو یہ مسئلہ بھارت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو کبھی پانی کی بین الصوبائی تقسیم داخلی اختلافات کا سبب بن جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور شہری علاقوں میں وسعت پانی کے بحران کی بنیادی وجوہات ہیں۔ اس کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں، پانی کی ناقص منیجمنٹ اور سیاسی عزم کی کمی اور ہماری لاپرواہیوں  نے اس معاملے کو زیادہ شدید کر دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلوں کے نتیجے میں عالمی سطح پر حدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان میں ماہر ماحولیات میاں احمد سلیم ملک نے  کہا ہے ، ’’پاکستان میں گرمی کی لہروں اور قحطوں کی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ کچھ سالوں سے مون سون کے موسم کی پیشن گوئی مشکل ہو گئی ہے جبکہ ملک کے کئی علاقوں میں موسم سرما مختصر ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیموں کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان بارش کے پانی کو ذخیرہ نہیں کر سکتا۔ احمد سلیم ملک کے مطابق پاکستان کو پانی کی ذخائر تعمیر کرنے کے لیے سرمایا کاری کرنا ہو گی۔پاکستان میں پانی کے ذخائر قائم کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کو ضائع ہونے سے روکنے کی ضرورت بھی ہے۔ پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عابد سلہری نے  گفتگو میں زور دیا کہ پاکستان میں پانی کا غلط استعمال ہر سطح پر ہو رہا ہے۔پانی کی قلت سے نمٹنے کیلئے ان صنعتوں پر بھاری جرمانے عائد کرنے چاہئیں جو پانی کی بے تحاشا بربادی کرنے پر مسلسل تلے ہوئے ہیں جہاں ایک طرف عام انسان کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے وہیں دوسری طرف پانی کی بربادی کا معاملہ انتہائی تشویشناک ہے۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ جس ملک میں آج بھی کئی دیہاتوں میں لوگوں کو  پانی حاصل کرنے کی خاطر میلوں تک کا پیدل سفر کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر انہیں تھوڑا بہت پانی نصیب ہوتا ہے۔جب ملک کے بڑے بڑے شہروں میں صاف پانی نصیب نہ ہو وہاں دیہات اور چھوٹے علاقوں کا نظام کیسا ہوگا ۔حد تو یہ ہے کہ اس سب کے باوجود ہم خرابیاں کرنے سے بعض نہیں آتے ۔ اگر پانی بچانے کی تھوڑی کوشش کریں تو شاید یہ مسئلہ اتنا نہ بڑھے سب سے پہلے تو انفرادی سطح پانی کو بچانے کی کوشش کرنا ہو گی جہاں نہانے اور دوسرے استعمال کےلئے پانی کا بےدریخ ضیاع ہو رہا وہاں احتیاط کرنی ہے پھر گھر اور باہر کا خیال کرنا ہے اور ندلی نالوں اور دریاؤں کے قریب گندگی نہیں پھنکنی ہے  اور نہ انہیں آلودہ کرنا ہے ۔  پانی کی بربادی روکنے میں ناکام رہے تو یقین کیجئے کہ آنے والے وقت میں پانی پٹرول سے بھی مہنگا ہو گا  شاید ویڈیو میں کی گئی پیش گوئی  کی طرح کیونکہ انسانوں کی پیدا کردہ گلومنگ وارمنگ کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گرتی جا رہی ہے۔


Short URL: http://tinyurl.com/ycqeu45x
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *