وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا ! ۔۔۔۔ رقیہ غزل

Roqiya Ghazal
Print Friendly, PDF & Email

مسلم لیگ (ن) کی حکومت قوم سے جو وعدے کر کے برسرِ اقتدارآئی تھی ان میں سر فہرست یہ تھے !
۱۔ملک میں آزاد عدلیہ کا قیام یقینی بنایا جائے گا جس سے بر وقت انصاف لیکر جزا و سزا اور داد رسی کے نظام کو فعال بنا دیا جائے گا اور جس سے پاکستان کے شہریوں کے شہری اور بنیادی حقوق محفوظ ہو جائیں گے ۲۔ملک میں روزگار کے مواقع بڑھائے جا ئیں گے ‘جس سے بے روزگاری ختم ہوگی اور جس کے نتیجے میں چوری ،ڈکیتی ،راہزنی ،اغوا برائے تاوان ،دھوکہ ،فریب ،فراڈ جیسے جرائم کا قلع قمع ہو جائے گا ۔
۳۔ہر بچے کے لیے تعلیم لازمی ہوگی ‘مفت تعلیم فراہم کرنے کی کوشش کی جائے گی ‘تعلیمی اداروں میں داخلے میرٹ کی بنیاد پر ہونگے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو ہر طرح سے معاشی تحفظ دیا جائے گا ۔
۴۔محکمہ صحت کو فعال بنایا جائے گا تاکہ صحت عامہ اور حفظان صحت کے معاملات کو مثبت طور پر شہریوں کے لیے مفید بنایا جا سکے ‘جس میں مستحقین کے علاج معالجے کی سہولتیں مفت اور یقینی بنائی جائیں گی ۔
۵۔ملک سے لوڈ شیڈنگ کو 5/6 ماہ میں ختم کر دیا جائے گا ۔۶۔ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر دیا جائے گا ۔
۷۔ملک میں آزادی ء رائے اور شخصی آزادی کے ساتھ ساتھ پرنٹ ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو مکمل طور پر آزاد رکھا جائے گا ۔
۸۔بیرونی ممالک سے حاصل کردہ امدادپر پاکستانی معیشت کا انحصار ختم کر دیا جائے گا کہ آئیندہ سے نہ صرف یہ کہ ملک کو قرضے کی لعنت سے نہ صرف بچایا جائے گا بلکہ ایک غیرت مند قوم کے طور پر دنیا میں زندہ رنے کے لیے’’ کشکول‘‘ کو ہی توڑ دیا جائے گا ۔
۹۔پاکستان کی مسلح افواج اور سکیورٹی ایجنسیسز کے وقار اور عظمت کو عدلیہ کے وقار اور عظمت کی طرح سر بلند رکھا جائے گا ۔
۱۰۔ملک میں حکومت کے قیام کے ساتھ ہی بلدیاتی الیکشن کروائے جائیں گے اور اقتدار نچلی سطح تک منتقل کیا جائے گا تاکہ عوام کے قریب ترین رہنے والے ان کے نمائندے ‘ان کے مسائل کا فوری حل کر سکیں ‘اس کے علاوہ اور بھی کئی قسم کے بلند و بانگ دعوے کئے گئے ۔جو کہ عوام نے کافی حد تک وعدوں پر یقین کیا اور مسلم لیگ (ن)کی حکومت جمہور کا نام نہاد علم اٹھا کر عنان حکومت سنبھالنے کی حقدار ٹھہری۔
قارئین کرام ! آج سوال یہ ہے کہ وہ اپنے وعدوں اور دعووں میں کس حد تک کامیاب ہوئی ہے ۔تواگر ہم ان وعدوں اور دعووں کو حقائق کی روشنی میں ہر طرح کے اعدادو شمار کو مد نظر رکھتے ہوئے ایمانداری ،دیانتداری اور بے لاگ طور پر منفی تنقید چھوڑ کر اس کا احاطہ کریں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے مسلم لیگ (ن ) نے دلکش وعدوں اور دعووں کے ساتھ چکما دیکر اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کی اور پھر الیکشن میں دھاندلی سے ایسے کیسے الیکشن کو جیت لیا ۔اگر ہم صرف لوڈ شیڈنگ کو ہی زیر بحث لے آئیں تو آج پاکستان کا ہر شہری جانتا ہے کہ ابھی تک حکومت نے کوئی مثبت اقدام ہی نہیں اٹھائے کہ جن سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے مستقبل قریب میں امکانات نظر آتے ہوں بلکہ حکومت لوڈ شیڈنگ کا حل کچھ اس طرح سے نکال رہی ہے کہ ہوشیاری ،دھوکے ،ظلم اورنا انصافی سے بل کو ہی کئی گناہ زیادہ بڑھا دیا ہے ۔اور یہ محکمہ نا گفتہ بہ حد تک زیادتی اور سینہ زوری کی انتہا کر چکا ہے کہ کئی گناہ زیادہ بل ادا کرنے کے با وجود آئندہ ماہ کے بل میں کہیں بقایا جات ،کہیں ایڈجیسٹمینٹ اور کہیں کسی نہ کسی منصوبے کے نام پر بلنگ کر کے بل بھیج دیا جاتا ہے ۔جس کی ادائیگی ہر حالت میں واجب ہے اور اس پر زیادتی یہ کہ واپڈا کے عملہ کوخواہ وہ لائین مین سے لیکر جی ایم تک ہو یہ ہدایت کر دی گئی ہے کہ جو صحیح یا غلط بلنگ کر دی جائے اس کی تصحیح نہیں کرنا حتی کہ بالآخر وہ بل کنزیومر کو چار و ناچار ادا کرنا ہی پڑتا ہے ۔شکوہ کس سے ہو کیونکہ حکومت نے حکومتی اختیارات عوام میں نچلی سطح تک پہنچانے کا جو وعدہ کیا تھا تو بد نیتی کے ساتھ بلدیاتی الیکشن ہی نہیں کروائے گئے کہ بلدیاتی نمائندوں کو جو علاقائی ترقی کے فنڈ دئیے جاتے ہیں ان کی خورد بوردمن مرضی سے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو قائم رکھنے میں ممکن نہیں ہو سکتی ۔یعنی عوام کے پاس کوئی بھی اختیار یا حل نہیں چھوڑا گیا اسی طرح اگر حکومت وقت کی اپنی مسلح افواج کے ساتھ روابط کو دیکھیں تو آج پاکستان کے ہر شہری کے ذہن میں یہ تاثر پایا جا تا ہے کہ حکومت اور افواج پاکستان ایک دوسرے کے مخالف ہیں حالانکہ پاکستان کی مسلح افواج نے اس نام نہاد جمہوریت کو بچانے کے لیے گزشتہ پانچ سالوں میں اور ان چودہ ماہ میں ہر سطح پر ہر طرح کا عملی تعاون پیش کیا ہے ۔اور کسی بھی ابہام کی صورت میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی وساطت سے بروقت وضاحتیں آئی ہیں جو کہ ان کی طرف سے واضح یہ پیغام ملتا رہا ہے کہ
اے وطن تو نے پکارتو لہو کھول اٹھا تیرے بیٹے ترے جانباز چلے آتے ہیں
مگر مقام افسوس یہ ہے کہ حکومت نے اپنے گروہ میں بعض ایسے ہراول حلیف ذمہ دار بنا رکھے ہیں جو بیانات کو سمجھدار اور ذمہ دار کی طرح نہیں بلکہ بارود کے گولے بنا کر توپ کی طرح داغتے رہتے ہیں اور اپنے وطن کے سر فروشاں سے دلی محبت اور جزباتی لگاؤ رکھنے والے محب وطن پاکستانیوں کو الفاظ کے زہر بھرے تیروں سے جزباتی طور پر چھلنی کرتے رہتے ہیں ۔
جہاں تک سوال مسلم لیگ (ن) کی خود انحصار ی پالیسی کا دعوی ہے تو اس کی حکومت نے دھجیاں ہی اڑا دی ہیں ۔جس ’’کشکول‘‘کو توڑنے کا دعوی کیا تھا اس کو عوام کے گلے کا ہی طوق بنا ڈالا کہ ’’شہرتی منصوبے ‘‘بنا کراربوں روپے کی امداد حاصل کی جس سے قوم رفتہ رفتہ کئی گناہ قرضوں کے بوجھ تلے دب گئی جس سے پاکستان کا مالی مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری حکومت جتنے زیادہ قرضے لے گی اور ان قرضوں کو ملک میں سرمایہ کاری سمجھے گی تو اس سے ہر آئیندہ سال میں قرضوں کی اقساط کی ادائیگی کی وجہ سے جو مالی پریشانیاں پیش آئیں گی اس کا حتمی طور پر بوجھ عام آدمی پر ہی پڑے گااور آج افراطِ زرافراط و تفریط کا شکار ہو چکی ہیں جبکہ ہمارے ملک میں پہلے ہی ’’ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات ‘‘
قارئین کرام !ابتدا میں حکومت کے جن دعووں کا ذکر کیا ہے ان کی تفصیلات کو اگر اعدادوشمار ،حقائق و واقعات کی تفصیلات کے ساتھ آپ کے سامنے لایا جائے تو اس کے لیے آپ کو ورق گردانی کرنا پڑے گی مگر میں یہ سمجھتی ہوں کہ آج میڈیا نے ہر شخص کو با خبر رکھا ہوا ہے تمام وہ افراد جو ریاست پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے سوچتے ہیں وہی لوگ ہیں جو بالغ النظر اور ذمہ دار شہری ہیں ۔میرے مخاطب وہی لوگ ہیں کیونکہ جو سیاسی جماعتوں کے کارکن بن کر کام کرتے ہیں جماعتوں سے وابستگی کی بنیاد پر وہ حق و استحقاق و احتساب سے محروم ہوتے ہیں اور اپنے قائدین کے کہنے پر پھول یا کانٹا اٹھانے میں صحیح یا غلط کچھ نہیں سوچتے ۔موجودہ حکومت تاحال اپنے دعووں اور نعروں کے اہداف سے کافی دور نظر آتی ہے اور اس وقت کے گھمبیر اور تشویسناک حالات میں بھی لوٹ کھسوٹ جاری ہے اور خلاف آئین و قوانین سرگرمیاں جاری ہیں ۔اقتدار کے حصول یا برسراقتدار رہنے کے لیے ہر کوئی اقتدار کی اس بہتی گنگا میں رنگے ہاتھوں بیٹھا ہوا ہے تو ایسے میں حکومت خود کو اتنا معتبر اور کامیاب سمجھتی ہے کہ معمولی احتجاج کی کال پر داد رسی کرنے کی بجائے ابتدا عاً شدید اقدام کرتی ہے اور پھر عاجز آجانے پر انتہائی لاچار اور بے بس ہو جاتی ہے مگر اپنی روش اور احمکانہ حکمت عملیوں کو تبدیل نہیں کرتی ۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن سے لیکر آج تک کے حالات کا اگر عمیق نظری سے مطا لعہ کیا جائے تو یہ آشکار ہو گا کہ حکومت کی بد قسمتی ہے کہ ان کے رفقاء میں اور ان سے تعاون کرنے والی شخصیات کے طریقہ کار میں ہر طرح کی مکاری ،فریب ،جھوٹ اور غیر آئینی حکمت عملیاں شامل ہیں جن کی وجہ سے وہ کوئی بھی مقررہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے ۔آپ اگر گزشتہ پورے ایک ماہ میں میڈیا پر مذاکرات کرنے والی تمام متحرک شخصیات کی کار کردگی کو دیکھیں تو یہ مصلح مسلسل ایک ماہ سے حکومت ،PTIاور PATکے درمیان رابطہ کار ہوتے ہوئے بھی کوئی قابل قدر فائدہ نہ حکومت کو اور نہ دوسری جماعتوں کو دے سکے ہیں ۔اس وفد میں نئے لوگ اگر شامل کر دئیے جاتے تو حوصلہ افزا نتائج حاصل ہو سکتے تھے ۔
اور دوسری طرف حکومت جو کہ عملی طور پر قتل و غارت گری اور جبر و استحصال جاری رکھے ہوئے ہے اور شکایت پر ایف آئی آر بھی نہیں کاٹی جاتی اور جب حکومت پر کوئی حملہ،احتجاجی انداز یا غیر آئینی اقدام اٹھایا جاتا ہے تو ایف آئی آر پل بھر میں کٹ جاتی ہے اور ان شخصیات کے نام بھی ڈال دئیے جاتے ہیں جو کہ موقع پر اور ملک میں بھی موجود نہیں ہوتے ۔اورایسی دفعات لگائی جاتی ہیں جن سے چھٹکارا پانا تمام عمر محال ہے ۔یہ تو وہ بات ہوئی بقول اکبر الہ آبادی
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
پاکستان میں امن و سلامتی بروقت انصاف ،آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے یقیناًاب کوئی نہ کوئی انقلابی گھڑی کے لیے عوام منتظر رہنے پر مجبور ہو چکے ہیں اوراس میں کوئی شک نہیں کہ اب انقلاب لازم ہے عوام کو اس بات سے سروکار نہیں رہا کہ انقلابی کون ہوگا !!!

Short URL: http://tinyurl.com/jrth6a9
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *